کالم

پاکستانی سیاست

اگر دیکھا جائے تو سیاست کے بہت سی کتابوں میں بہت سے معنی دئیے گئے ہیں ۔ مختلف ممالک کے حوالے سے سیاست کی ایک تعاریف ہوتی ہیں۔ لیکن متعدد مطالعے اور کتابوں کو جب پڑھا تو اس سے ایک بات سمجھ میں آئی ۔ اصل سیاست وہ ہے جو کہ آپ صحیح معنوں میں بے لوث عوام کی خدمت کرے ۔ اس میں بندے مطلب سیاستدان کی کوئی لالچ وغیرہ شامل نہ ہو۔ اگر دیکھا جائے تو باہر ملکوں ہمیں صحیح معنوں میں پھر وہاں سیاست نظر آتی ہے ۔ کیونکہ وہ سیاست کو بطور سوشل ورک کرتے ہیں اور ان میں اگر آپ ان تمام تر سیاستدانوں کو دیکھیں تو وہ عوام کے سامنے جواب دہ بھی ہوتے ہیں اگر کوئی غلطی ان سے ہوتی ہے یا حادثہ پیش آتا ہے تو وہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں ان کا جو عہدہ ہوتا ہے وہ بعض اوقات اس عہدے سے استعفی بھی دے دیتے ہیں لیکن یہ تو ہم باہر ملکوں میں دیکھتے ہیں ۔ اب اگر اپنے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سیاست کے بارے میں بات کریں تو یہاں معاملہ الٹ ہے ۔ ایک طرف تو ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن دوسری طرف اسی سیاست کو جو کہ سوشل ورک یا عبادت کے طور پر باہر دنیا میں کیا جاتا ہے پاکستان میں اس کو کاروبار کی حیثیت سے کیا جاتا ہے جتنے بھی ہمارے ہاں پاکستان میں سیاستدان آتے ہیں یا ابھی تک آئے ہیں ان سب کا ماضی پاکستانی عوام کے سامنے ہے کہ وہ سیاست کو صرف کاروبار کی شکل میں استعمال کرتے ہیں پیسوں سے ووٹ خریدتے ہیں اور کرسی پر آتے ہیں اور اتنی لوٹ مار کرتے ہیں کہ ہمارے آئندہ آنے والی نسلوں کو مقروض کر دیتے ہیں اس کی تازہ مثال عمران خان ہے ، عمران اینڈ کمپنی نے تقریبا تین سالوں میں اتنا لوٹ مار کیا جتنا کسی سیاسی جماعت نے اپنے دور حکومت میں نہیں کی تھی ۔اس میں بڑی غلطی عوام کی بھی ہیں پاکستان میں غریب کا جینا دوبھر ہوچکا ہے سیاستدان اپنی عیاشیوں اور شہ خرچیوں کو پورا کرنے کے لیے وہ آئی ایم ایف کے پاس جاتا ہے آئی ایم ایف کی کھڑی شرائط پوری کرتا ہیں اور اس کا سارا ملبہ پھر اسی غریب عوام پر آتا ہیں ۔ آئے روز اخبار میں خودکشیوں کی خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ غریب عوام ایک ایک نوالے کے لیے ترس رہے ہوتے ہیں یہ پاکستانی سیاست کا اصل روپ ہے اگر کسی کے پاس خوب سارا پیسہ ہوگا تو وہ سیاست میں آسکتا ہے ورنہ غریب آدمی کبھی سیاست کا سوچ بھی نہیں سکتا جس طرح میں نے پہلے کہا کہ یہاں سیاست کاروبار بن چکا ہے تو کاروباری آدمی کیا کرتا ہے ؟ وہ غریب کے منہ سے نوالہ چھیننے کی کوشش کرتا ہے نہ کہ ان کو دیتا ہے اگر اسی سیاست کو کوئی عبادت یا سوشل ورک کے طور ہر کرے گا تو خود آپ لوگ ہمارے صحابہ کرام کے دور کو دیکھیں وہ خود بھوکا ہوتے تھے لیکن ان کی رعایا کھانا کھا کے سوتی تھی ان کی جو رعایا ہوتی تھی وہ آرام سے سورہے ہوتے تھے اور ان کا خلیفہ بھیس بدل کر گلی گلی گھومتا تھا تاکہ رعایا کی حالت کو معلوم کر سکے لیکن پاکستانی سیاستدان ان چیزوں کو نہیں دیکھتے وہ پاں پر پاں رکھ کر عوام کے حق میں فیصلوں کی باتیں تو سناتے ہیں لیکن اصل میں ایک خاص طبقہ ہے وہ تمام تر فیصلے ان کے حق میں کرتے ہیں اور اس کا جتنا بھی بوجھ ہوتا ہے وہ یہی غریب و عام آدمی پر آپڑتا ہے اب اگر ہم اس طرح سے جائے تو پاکستانی سیاست ایک ایسا گندہ کاروبار بن چکا ہے کہ جس میں آنے کے لیے ہر سیاستدان دوسرے کو نیچا کرنے کی کوششش میں ہے اگر آج کل کے صورتحال کو دیکھے تو پاکستانی سیاستدان انتقامی سیاست پر اتر آئے ہیں کہ کسی بھی طریقے سے ہو اپنے حریف کو بدنام کرو یا اس کا پبلک امیج خراب کرو تاکہ عوام اس کے خلاف ہوجائے اور صرف اس لیے خلاف ہو جائے کہ میرے لیے جگہ بن جائے اور میرا مقابل سیاست سے اوٹ ہوجائے یہی نہیں بلکہ کئی سالوں سے ہماری تاریخ چلی آرہی ہے جب سے پاکستان بنا پاکستان بنے کے بعد سے آج تک کوئی بھی واحد جماعت ایسی نہیں ہیں کہ جس نے پانچ سال پورے کئے بلکہ بیچ میں وہ ہٹا دیے جاتے ہیں کبھی کرپشن کے نام پر ہٹا دیے جاتا ہے تو کبھی دوسرے کیسسز میں پسا کے ہٹا دیا جاتا ہے تو یہ اصل میں انتقامی سیاست ہے کبھی ایک پارٹی آکے اپنے ساتھ اوروں کو ملا کر کیا کرئینگی ؟ کہ اس کا جو حریف پارٹی ہے اس کو راستے سے ہٹانے کے لیے سب اکھٹے ہوجائینگے جب انہی پارٹی کا مقصد پورا ہوجاتا ہے تو وہی پارٹیاں جب الیکشن کے لیے آتے ہیں تو پھر وہی ایک دوسرے کے خلاف اگ اگلتی ہیوہی پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف ہوجاتی ہیں مطلب پاکستانی سیاست ایک ایسی غلیظ صورت اختیار کر چکی ہے کہ اس میں لوگ دوست یاروں اور خاندان والوں کو بھی نہیں بخشتا بلکہ اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف لگے ہوتے ہیں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button