چند روز قبل ایران نے پاکستانی سرحد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈرون حملہ کیا اور یہ دعوی کیا کہ انہوں نے دہشت گرد تنظیم کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے ۔ پاکستان اور ایران کے دہشتگردی کے سلسلے میں مذاکرات جاری تھے لیکن اس کے باوجود ایران نے اچانک ایسا حملہ کیا جو سمجھ سے بالاتر ہے ۔ ماہرین کے مطابق ایرانی حکومت انتخابات میں عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایسا کر رہی ہے لیکن اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان ہی اس مشق کے لیے رہ گیا تھا یا پاکستان میں ہی اس طرح کے دہشت گرد ہیں ، کیا دیگر ممالک میں نہیں ہیں یا ایران میں خود دہشت گردوں کے ٹھکانے اور پناہگاہیں نہیں ہیں ؟جن سے کئی بار پاکستان کو بھی نقصان پہنچ چکا ہے پاکستان اس پر بار ہا ایران سے احتجاج بھی کر چکا ہے اور ایران کو ایرانی سرحد سے دہشتگردوں کی تقل و حرکت کے ٹھوس شواہد بھی پیش کر چکا ہے۔ کلبھوشن یادو جس نے خود ہر بات کا اعتراف کیا وہ بھی ایرانی راستے ہی پاکستا ن میں داخل ہوا تھاتو ایران کو اپنے ملک کو چھوڑ کر پاکستان سے دہشتگردوں کے خاتمے کیا اچانک کیا فکر لاحق ہو گئی تھی کہ اس نے بنا کہے سنے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان میں بچوں پر حملہ کر دیا۔ اب کیا دیگر تمام ممالک بھی ایسا ہی کریں گے کہ جہاں پر بھی عوام کی حمایت حاصل کرنی ہوگی وہ پاکستان میں حملے کریں گے اور عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اس طرح تو بھارت بھی جو پہلے بھی اس قسم کے عزائم اور ناپاک کوششیں کرتا آیا ہے کہ انتخابات میں عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف کوئی کاروائی کر دی جائے ۔ تو اب کیا ایران بھی اسی راستے پہ چلنے لگا ہے ۔ پھر کچھ دنوں تک افغانستان میں بھی ایسا ہی شروع ہو جائے گا کہ عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے وہ پاکستانی سرحد کے اندر حملے کریں گے اور عوام کو بتائیں گے کہ ہم پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کر رہے ہیں پھر کچھ عرصے کے بعد چین بھی یہ کام شروع کر دے گا ۔ کیا پاکستان اسی مشق کے لیے رہ گیا ہے؟پاکستانی حکومت نے اس کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے فوری طور پر ایران سے تمام تر سفارتی تعلقات کو تو منقطع کر دیا تھا اور پھر ایران میں موجود دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر حملے کر کے متعدد ٹھکانے تباہ کر دیے اور ایران کو یہ باور کرا دیا کہ اس قسم کی کاروائیاں ہمارے لیے کچھ مشکل نہیں ہیں اور یہ بھی کہ ایران میں اچھے خاصے دہشتگرد پَل رہے ہیں۔ پاکستانی حکومت نے فوری طور پر ایران کے خلاف یہ اقدامات تو کر دیے ہیںلیکن اس وقت ایران کے ساتھ جنگ کا ماحول پیدا کرنا ہمارے مفاد میں نہیں ہے کیونکہ اس وقت ہمارے دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہیں جیسے بھارت کے ساتھ تو بالکل ہمارے تعلقات ختم ہیں ، افغانستان کے ساتھ تعلقات میں انتہائی سرد مہری پائی جاتی ہے اور افغانستان کسی بھی طرح سے پاکستان کا حامی نہیں ہے ۔ افغان حکومت کے بھارت کے ساتھ تعلقات ہیں جس کی وجہ سے وہ پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے موڈ میں بالکل نہیں ہے ، اسی طرح افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات اچھے نہیں رہے ۔ لے دے کے ہمارے پاس صرف چائنہ ہی رہ جاتا ہے ۔ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تو پہلے ہی تعلقات اچھے نہیں ہیں ایران کے ساتھ بھی ہم نے بگاڑ لی تو پاکستان کے خلاف بھارت ، ایران اور افغانستان کی ایک تکون بن جائے گی جو کسی طرح پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ ایک سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہم ویسے تو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارا دفاع بہت مضبوط ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایران پاکستان کے علاقے میںمیزائل حملہ کرتا ہے لیکن ہمیں علم نہیں ہوتا۔ ہمارا اگر دفاع اتنا مضبوط ہوتا تو ہم ایرانی میزائل کو پاکستان کی سرحد میں داخل ہی نہ ہونے دیتے اور اسے فضا میں ہی تباہ کر دیتے کیا ہمارے پاس یہ ٹیکنالوجی نہیں ہے ، اگر نہیں ہے تو پھر ہمارا دفاع کیسے مضبوط ہے؟بہر حال پاکستانی حکومت کو ثالثی کی پیشکش کرنے والے ممالک کی ثالثی کو قبول کرتے ہوئے اس تنازع کو مزید بڑھنے سے پہلے ہی حل کر لینا چاہیے تاکہ ہمسایوں میں سے کس کے ساتھ تو ہمارے تعلقات بہتر ہوں اور ضرورت پڑنے پر عالمی اداروں میں ہمیں زیادہ سے زیادہ حمایتی میسر ہوں۔
0 40 3 minutes read