کالم

عدالتی فیصلے متازعہ بنانے کی روش

آج بھی نظریہ ضرورت کو پسند کرنے والے لوگ موجود ہیں۔تحریک انصاف نے حصول”انصاف ” کیلئے ہائی کورٹ پشاور سے رجوع کیا جب کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا آپشن موجود تھا ۔ پھر سب نے دیکھا پی ٹی آئی کوالیکشن کمیشن کے خلاف کامیابی ملی۔ الیکشن کمیشن نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنچ کیا۔ تین رکنی بنچ بنا ،کیس کو میڈیا پر دکھایا گیا تاکہ عوام انصاف کو ہوتا ہوا دیکھ سکیں۔کیس کا فیصلہ ہفتے کی رات گیارہ بجے سنایا گیا۔ یوں تحریک انصاف بلے کے نشان سے محروم ہو گئی۔ جس نے بھی سماعت دیکھی اس نے یہی کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قانونی فیصلہ دیا۔ جسٹس صاحب نے اس کیس میں ہیرو بننا گوارا نہ کیا ۔ اب قانونی فیصلہ دینے پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک بھارتی جج نے فیصلے پر تنقید کی۔جب آپ کا دشمن تنقید کرے تو سمجھو وہ غلط ہے جبکہ ہمیں چیف جسٹس کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے سیاسی الزامات والے ماحول میں خالص قانونی ، تکنیکی بنیادوں اور میرٹ پر فیصلہ دینے کی جرات کی۔ وہ جانتے تھے کہ ایسے فیصلے پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا لیکن انہوں نے قانون کی پاسداری کی لیکن نظریہ ضرورت کو نہیں اپنایا۔ ویسے بھی جج کو قانون کی پیروی کرنی چاہیے اور سیاسی دباؤ یا مقبولیت کے تحت فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدلیہ کے تاریک ماضی سے الگ ہو کر سپریم کورٹ کے وقار اور کو بحال کرنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ وہ عدلیہ کے کردار اور اختیارات کو اس کی آئینی حدود میں محدود کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پہلے چیف جسٹس ہیں جنہوں نے مقننہ کی بالادستی کا یہ کہہ کر اعتراف کیا تھا کہ پارلیمنٹ بالادست ہے۔ یہ درست سمت میںبہت بڑا سنگ میل ہے۔ کسی زمانے میں صدر اور عدلیہ کو پارلیمنٹ، منتخب حکومتوں اور جمہوریت کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری پہلے منتخب صدر تھے جنہوں نے تمام صدارتی اختیارات پارلیمنٹ کو دیے اور یوں وہ دروازہ بند کر دیا جس کے ذریعے فوج سویلین حکومتوں کو برطرف کرتی رہی ۔ قاضی فائز عیسیٰ عدلیہ کے پہلے سربراہ ہیں جو کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ اعلیٰ اور قابل احترام ادارہ ہے۔ قاضی صاحب نے خود اکیلے قومی اسمبلی میں جا کر یہ دکھایا کہ جج پارلیمنٹ سے بالاتر نہیں ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدالتوں کو قانونی معاملات تک محدود کر رہے ہیں۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ سیاسی طور پر مقبول ہونے کی پرواہ کیے بغیر قانونی فیصلے کرنے کو ترجیح دیے رہے ہیں سبھی جانتے ہیں الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ آٹھ فروری 2024 کو الیکشن کرائیں۔ الیکشن کمیشن ایک آئنی ادارہ ہے، تمام سیاسی پارٹیوں کی دیکھ بھال یہی ادارہ کرتا ہے۔ اگر کوئی اس کے فیصلے کو نہیں مانتا تو وہ جماعت عدالتوں کا رخ کرتی ہے۔ عدالت دیکھ کر سن کر اپنا فیصلہ صادر کرتی ہے۔ یہ سلسلہ سپریم کورٹ میں اختتام پذیر ہوتا ہے۔ جس کے حق میں فیصلہ ہوتا ہے وہ خوش اور جس کے خلاف وہ ناخوش ہوکر نہ صرف فیصلے کو برا بلا کہتا ہے۔ بلکہ فیصلے دینے والے ججوں کی بھی ایسی تیسی کر دیتا ہے۔ اب تو میڈیا کا زمانہ ہے۔ ہر کوئی اپنے انداز میں تبصرہ کرتا ہے لکھتا اور میڈیا پر چڑھا دیتا ہے۔ وہ نہیں دیکھتا کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔ جب اس کا خمیازہ وہ بھگتنا ہے پھر توبہ کرتا ہے۔ اس سے پہلے وہ ہیرو عزم کا شکار ہو کر جو جی آئے کہہ دیتا ہے۔ اس کو روکنے کیلیے سپریم بار اور پاکستان بار کونسل کے نمائندوں نے سخت احتجاج کیا ہے جس پر اب کمیشن بنادیا گیا ہے جو نشاندھی اور سزائیں تجویز کرے گا۔ہر ادوار میں ججز اچھے بھی رہے ہیں اور برے بھی۔ ان کے فیصلے ان ججز کے مرنے کے بعد تک زندہ رہتے ہیں۔ جیسے میاں نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کا مقدمہ چلایا۔ اس مقدمے کو شروع میں لگانا اور چلانے میں بہت سی مشکالات کا سامنا کرنا پڑا ۔ آج تک اس ملک کے جھتنے بھی حکمران آئے کسی نے کسی آمر کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی جرات نہ کی۔ یہ نواز شریف پہلے حکمران تھے جنھوں نے آرٹیکل چھ کا مقدمہ آمر کے خلاف درج کیا اور چلااور سزا دلوائی۔قدرت نے نواز شریف کا ساتھ دیا اور جسٹس وقار سیٹھ کی شکل میں جج نے کیس سنا اور جج فیصلہ دیا۔ جنھوں نے اس مقدمہ میں پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی وہ اس وقت ملک سے باہر تھے۔ اس سزا کو ختم کرانے کی کوشش میں غیر آئینی غیر قانونی جج کا فیصلہ سنایا گیا۔ اس جج صاحب ( جونیئر جج جسٹس مظاہر نقوی) کو صلہ می سپریم کورٹ کا جج لگا دیا گیاجبکہ یہ جج صاحب جب لاہور ہائی کورٹ کے جج تھے تو ان کے خلاف کرپشن کے الزامات پر ریفرنس موجود تھا جسے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریفرنس ختم کر دیا تھا۔ ایسے ججز ہر دور میں اعلی عدلیہ میں رکھے جاتے رہے ہیں۔ جن سے اپنی مرضی کے فیصلے لیا کرتے تھے۔
یہ درست ہے کہ ملک غلام محمد کا اسمبلی توڑنے کا فیصلہ قانونی طور پردرست تھا کیونکہ اسے عدالت نے قانونی ہونے کی سند دی تھی۔اسی طرح سے جنرل ایوب خان کا مارشل درست تھا کیونکہ اسے عدالت نے قانونی ہونے کی سند دی تھی۔اسی طرح جنرل یحیی خان کے مارشل لا کو اس کے گھرجانے کے بعد عدالت نے غیر قانونی قراردیا تھا۔جیسے نیپ پر پابندی کا فیصلہ درست تھا کیونکہ اسے سپریم کورٹ نے قانونی ہونے کا سرٹفیکیٹ دیا تھا۔ جنرل ضیا کا مارشل لا درست تھا کیونکہ اسے سپریم کورٹ نے درست قراردیا تھا۔ بھٹو کی پھانسی کی سزا قانونی تھی کیونکہ اسے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے قانونی قراردیا تھا۔ بے نظیر حکومت غلام اسحاق نے درست طور پر ختم کی تھی کیونکہ اسے عدالت نے قانونی قراردیا تھا۔ پرویز مشرف کا مارشل لا درست تھا کیونکہ اسے سپریم کورٹ نے قانونی قراردیا تھا۔ میاں نوازشریف کے خلاف پانامہ کیس کا فیصلہ درست تھا کیونکہ اسے اعلی ترین عدالت نے قانونی قراردیا تھا۔ یہ فیصلے عدلیہ کے جج صاحبان کے لکھے گئے فیصلے تھے ۔ لیکن وقت نے ان قانونی فیصلوں کو تاریخ کے ڈسٹ بن میں پھینک دیا ہے جیسے جنرل مشرف کی سزا کو وقار سیٹھ جج کا فیصلہ اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں بحال ہوا ۔ اسی نوعیت کا ایک فیصلہ ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کا بھی زیرسماعت ہے۔ تین چار ہفتوں میں اس کا بھی فیصلہ آ جائے گا۔ ایسا کرنا آسان لگتا ہے مگر فیصلوں کو درست کرنا آسان نہیں بہت مشکل کام ہے ۔ اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو عوام سرہاتے ہیں جنھوں نے مشکل کیسوں کو سننا شروع کر رکھا ہے۔ ان پر آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ایک جماعت کے لیڈر سے پوچھا کہ اس فیصلے سے چیف جسٹس سے یہ جماعت خوش کیوں نہیں کہا جب ثاقب نثار ان کی انتخابی مہم چلاتے تھے۔ جب گلزار ان کی راہوں میں پلکیں بچھاتے تھے۔ جب کھوسہ ان کے کیسوں پر مسکراہٹ دیا کرتے تھے جب بندیال دیکھ کر گڈ ٹو سی یو کہا کرتے تھے۔وہ سب جا چکے ہیں اب انہیں قاضی فائز عیسیٰ جیسے جج کیسے اچھے لگیں گے؟جب اس جماعت کو آئین اور قانون کے مطابق فیصلے ملنا شروع ہوئے ہیں تو ناراض رہنے لگے ہیں۔ غصہ میں ہیں وہ کچھ اداروں کو کہہ رہے ہیں جو دشمن نہیں کہتا۔ 9 مئی کا واقعہ پر اگر سزائیں دے دی جاتی تو ایسی گندے تبصرے سنے کو نہ ملتے۔ اچھا ہے پوری قوم نے الیکشن کمیشن کے کیس کو میڈیا پر ڈارکٹ سنا۔ اگر ججز کی بد نیتی ہوتی تو کبھی بھی اس کیس کی کاروائی ڈارکٹ نہ میڈیا پر دکھائی جاتی
۔ ہر ایک پوائنٹ کو کھل کر ڈسکس کرنے کا موقع سب کو فراہم کیا۔چیف جسٹس نے جن شکوک کا اظہار کیاوہ ہر خاص و عام کی زبان پر ہیں۔ کیس کے دوران ایڈووکیٹ علی ظفر سے مخاطب ہوتے یوںکہا آپ پی ٹی آئی کے پرانے جبکہ حامد خان بانی رکن ہیں۔ آپ لوگوں کو پارٹی چیرمین کے عہدے کیلئے کیوں نہیں نامزد کیا گیا۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا نیاز اللہ خان نیازی پی ٹی آئی کے ممبر ہیں۔ دیکھے ناں سب نئے چہرے آ رہے ہیں۔ پرانے لوگ کہاں ہیں؟ چیف جسٹس نے عام سی بات کرتے ہوئے کہا کہ نئے لوگوں کی شمولیت شکوک پیدا کرتی ہے۔ بااثر افراد جماعت پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ بات تو سچ ہے مگر یہ سن کر ایڈووکیٹ نیاز اللہ نیازی نے خود کو اس سے موسوم کر لیا کہ مجھے کہا گیا ہے اور روسٹرم پر غصے میں کہنا شروع کردیا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا ہم تو سوال سمجھنے کیلیے پوچھتے ہیں۔ اگر یہ رویہ رکھیں گے تو ہم کیس نہیں سنتے۔ کہا مجھے نہیں معلوم کہ از کا کوئی بیٹا بھی ہے ؟کیوں نہ انہیں شوکاز دیا جائے۔بیرسٹر علی ظفر نے چیف جسٹس سے اس پر معذرت کی جس پر شو کاز نہ دیاگیا۔ بیرسٹرگوہر علی خان تو بطور وکیل اس جماعت کے ساتھ تھے جب کہ عملی طور پر کہا جاتا ہے اپنے سینیر ایڈووکیٹ اعتزاز احسن کے ساتھ پیپلزپارٹی میں تھے۔ جن پر چیف جسٹس کے خدشات ٹھیک تھے۔ اس کیس میں ایس کے بابر اور دیگر پارٹی کے ممبر بھی پیش ہوئے کہ ہمیں پارٹی الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے کہنے پر الیکشن کیوں کرائے نہ گئے جبکہ آپ کے پارٹی منشور میں پارٹی الیکشن کرانا لازم تھے۔کیا یہ بدنیتی نہیں تھی کہ پارٹی کا ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں تھا اور آپ الیکشن پشاور میں کراتے ہیں وہ بھی سب کو بلا مقابلہ کامیاب بھی کرادیتے ہیں۔ اس سارے کیس میں حامد خان صاحب، بیرسٹر علی ظفر نے اچھا کیس پلیڈ کیا مگر کیس ہی کمزور تھا اسی جیسے رزلٹ کی امید کی جا رہی تھی۔ یہ ان کی جماعت کے تمام لیڈران کو بھی معلوم تھا کہ بلے کا نشان نہیں ملے گا۔ قصور ان کا اپنا تھا الزام دوسرے کو کرتے رہے۔ ضرورت اس بات کی ہے دوسروں کی بجائے اپنی خامیاں کو درست کرتے تو یہ دن انہیں نہ دیکھنا پڑتا۔ اس وقت لگتا یہی ہے یہ جماعت مکمل طور پر ہائی جیک ہو چکی ہے۔ بیرسٹر علی ظفر , میاں انوار الحق رامے ، علی احمد خان اور خواجہ امتیاز ،جیسے قانون دان پارٹی وفادار سیاسی چہروں کے ہاتھ میں اب کچھ نہیں رہا۔کچھ کو تو پارٹی ٹکٹ بھی نہیں ملا،پارٹی ٹکٹ بھی کہا جاتا ہے میرٹ پر نہیں دیئے گئے ، لگتا یہ ہے پارٹی مزید سکڑے گی!!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button