کالم

اپنا دیس

ہر دوسرا انسان یہی کہتا پھرتا ہے کہ اسے باہر جانا ہے پاکستان میں رکھا ہی کیا ہے بس کوئی جگاڑ لگ جائے اور ہم باہر چلے جائیں۔ پاکستان اچھا ملک نہیں ہے، حالات اچھے نہیں ہیں۔ کیسے دل کرتا ہے اپنا گھر چھوڑنے کا؟ کوئی گھر برا نہیں ہوتا بس سسٹم بہتر نہیں ہوتا اور سسٹم بنانے والے کون ہوتے ہیں؟ یقینا ہم خود ہی۔ تو کیا اپنے گھر کا سسٹم خراب ہونے کی وجہ سے آپ اپنا گھر چھوڑ جاتے ہیں؟ نہیں نا تو پھر وطن چھوڑے کا فیصلہ کیوں؟ ہمیں تو بطورِ پاکستان خود پر فخر ہونا چاہیے کہ پاکستانی ہیں۔اور کوئی بھی ملک خراب نہیں ہوتا ملک میں رہنے والے لوگ اچھے اور برے ہوتے ہیں جو سسٹم کو بہتر یا برا بناتے ہیں۔ کیا نہیں ہے پاکستان میں سب کچھ ہے جسے ہم پچھلے 76سالوں سے لوٹ کر کھا رہے ہیں اور وہ پھر بھی مسکرا رہا ہے اور کھڑا ہے کہ لوٹ لو جتنا لوٹا جا سکتا ہے تم سے یہ تو وہ جنت ہے جو قدرت کی بناوٹ ہے جبکہ دوسرے ممالک میں ایسا نہیں ہے وہاں لوگوں کو خود اپنے وطن کو خوبصورت و دلکش بنانا پڑتا ہے دیگر ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے وسائل مہیا کرنا پڑتے ہیں اور پاکستان میں قدرتی بے شمار وسائل موجود ہیں بے شمار قدرت کی عطا کردہ نعمتیں موجود ہیں۔ تو قدر کریں ان نعمتوں کی، قدر کریں اس وطن کی۔ یہ وطن وراثت میں نہیں ملا بہت قربانیاں دیں ہیں ہمارے بڑوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں اپنا اور اپنوں کا لہو دے کر یہ جنت حاصل کی ہے تو کیسے ہم برا کہہ سکتے ہیں اس دیس کو۔شکر گزار ہونا چاہیے کہ ہم ایک آزاد ریاست ایک آزاد فضا میں کھلی سانس لے رہے ہیں۔ اور اس ملک کے استحکام اور خوشحالی ہم پاکستانیوں کی ذمے داری ہے۔ کیونکہ پاکستان ایک عطیہ خداوندی ہے۔ اس کی دیکھ بال کرنا اس کے لئے مشقت کرنا اور ترقی و خوشحالی کے لئے سوچنا ہمیں ہی ہوگا نا کہ سب کچھ چھوڑ کر چلے جانا۔اور ہمیں ہی خود میںیہ شعور بیدار کرنا ہوگا کہ بجائے اسے لوٹ کر کھا جائیں، ہمیں ہی ملک کے لئے کرنا ہوگا کوئی آکر نہیں سنوارے گا۔ معاشرے میں عدل و انصاف ہمیں ہی قائم کرنا ہے برائیوں، بدعنوانیوں اور بے ایمانیوں سے بچانا ہے۔ یہ وہی پاکستان ہے جسے ہم کہتے ہیں کہ رکھا کیا ہے اس میں غور کریں تو یہ وہی ملک ہے جو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت رکھتا ہے۔ پاکستان مختلف تہذیبوں پر منحصر ہے اور سیاحتی مقامات نقطہ نظر سے گزرتے ہیں۔ بے شمار سیاح وادیاں پائی جاتی ہیں جیسے مری، کاغان، سوات اور دیگر حسین و دلکش مناظر۔یعنی ہر وہ چیز پاکستان میں میسر ہے جس کے ہم خواہاں ہیں۔ تو کیوں وطن کو، اپنے گھر کو چھوڑ جانے کی صدا؟ غلامی کیوں عزیز ہے اتنی؟ہم اپنے ملک میں رہ کر وہ سب کر سکتے ہیں جس کی ہمیں خواہش و ضرورت ہے۔ تو جس طرح ایک گھر میں چند اصول و قائد بنائے جاتے ہیں اور تمام گھر کے فرد کو اسے ماننا پڑتا ہے اسی طرح ہر ملک کے کچھ قائد و ضوابط ان پر لاگو ہوتے ہیں جسے ماننا تمام ملکی شہریوں پر فرض ہوتا ہے اگر ان قوانین کو مکمل پابندی سے مانا جائے تو کوء دوسرے ملک جانے کی خواہش نہیں کرسکتا اور انہیں ماننا بھی ہماری ہی زمہ داری ہے۔ اگر ملکی اصولوں پر عمل نہ کیا جائے تو پھر ملک بدعنوانی، بدامنی کا شکار ہوگا اور وہاں لوگ دوسرے ممالک جانے کے ہی خواہاں ہی ہونگے۔تو اپنے ملک کو ایک آزاد و کامیاب ریاست بنانا ہے نہ کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ کر چلے جائیں۔ ہمیں چاہیے کہ خود بھی ملک کا احترام کریں اور دوسروں کو بھی ہدایت کریں۔ یہ ملک جنت ہے قدر کریں اس جنت کی اک بار ہاتھ سے نکل گئی تو دوبارہ کوئی قائد اعظم یا شاعر مشرق علامہ اقبال نہیں آئیں گے غلامی کی نیند سے بیدار کرنے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button