غزہ پراسرائیلی بربریت پردیگرمسلم ممالک کی طرح ایران بھی زبانی کلامی مذمت سے آگے نہیں بڑھ سکا حالانکہ بہت سوں کوامیدتھی کہ اس جنگ میں ایران ضروراسرائیل کے خلاف کوئی اقدام اٹھائے گا مگرایران نے اسرائیل کونشانہ بنانے کی بجائے مسلم ممالک کونشانے پر رکھ لیاہے۔گزشتہ چنددنوں میں ایران نے عراق کے کردستان علاقے میں اربیل اور شام کے شہر ادلب پر میزائل داغے ، اس کے بعدبلوچستان کے شہر پنجگور شہرسے تقریبا90کلومیٹردور سبز کوہ کونشانہ بنایا ۔ یوں مرگ برامریکہ کے بعدمرگ براسرائیل کے نعرے کافریب بھی ختم ہوا۔حیران کن بات یہ ہے کہ ایران بارہ سوکلومیٹرکے فاصلے پرواقع اسرائیل کوتونشانہ نہیں بناتامگرعراق کے علاقے کردستان میں بارہ سوکلومیٹرکے فاصلے پربیلسٹک میزائل سے مبینہ طورپرموسادکے ہیڈکوارٹرپرحملے کادعوی کرتاہے جس میں عراقی کروڑ پتی کرد تاجر پیشرو دیزائی اور ان کے خاندان کے کئی افرادمارے جاتے ہیں اس حملے کے بعد عراق نے ایران سے بطور احتجاج اپنا سفیر واپس بلا لیا ۔پاکستان نے اس دہشت گرد ی کے جواب میںپہلے مرحلے میں ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کرتے ہوئے ایران سے اپنا سفیر واپس بلایا، طے شدہ دو طرفہ ملاقاتیں معطل کر دیں، اور فوری طور پر ایران کا دورہ کرنے والے پاکستانی تجارتی وفد کو واپس بلا لیا اورایرانی سفیر کو ملک بدر کر دیا ہے۔
دوسرے مرحلے میںپاکستان نے24گھنٹے میں ایرانی دہشت گردی کاجواب بھی دے دیا۔ پاکستان نے جمعرات کی صبح ایران کے صوبے سیستان میں دہشت گردوں کی مخصوص پناہ گاہوں کو نشانا بنایا ہے۔پاکستان کی جانب سے اس انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کو آپریشن مرگ بر، سرمچار کا نام دیا گیا ہے۔ اس حملے میں سیستان میں انٹیلی جنس بیسڈ پاکستانی آپریشن میں متعدد دہشت گرد مارے گئے۔ترجمان دفترِ خارجہ کے مطابق سنگین خدشات پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے نام نہاد سرمچار بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہاتے رہے ہیں۔دفترِ خارجہ کے ترجمان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستان ایران کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا مکمل احترام کرتا ہے، آج کی کارروائی کا واحد مقصد پاکستان کی اپنی سلامتی اور قومی مفاد کا حصول تھا، پاکستان کی سلامتی اور قومی مفاد کے حصول پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ایران کی پاکستان کے خلاف دہشت گردی اورپھراس کادفاع افسوسناک ہے، ایران کو اپنے طرز عمل پر ندامت ہونا چاہیے تھی مگروہاں ڈھٹائی ہے ۔ پاکستان ایران کوہمیشہ ایک دوست ملک کی نظرسے دیکھتارہاہے مگرایران کی طرف سے ہمیشہ اس دوستی کے جواب میں پیٹھ میں خنجرمیں گھونپاگیاہے ، حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے کیمپ ایران میں موجود ہیں اور کلبھوشن یادیو بھی ایران میں بیٹھ کرپاکستان میں دہشت گردی کرواتارہامگراس کے باوجودپاکستان نے ایران پرمیزائل نہیں برسائے حالانکہ کلبھوشن یادیوکی گرفتاری اوراس کے نیٹ ورک کے پکڑ ے جانے کے بعدپاکستان ایران کے خلاف کاروائی کاحق محفوظ رکھتاتھا مگرپاکستان نے اس سارے معاملے میں ایران کانام تک نہیں لیا ۔
اس کے علاوہ پاکستان میں کالعدم گروہوں کی سرپرستی اورفرقہ وارانہ واقعات کی پشت پناہی کے سنجیدہ الزامات بھی ایران پرہیں اوراس حوالے سے ہمارے مقتدرادارو ں کے پاس کافی شواہدبھی موجودہیں مگرپاکستان نے ان واقعات سے بھی ہمیشہ صرف نظرکیا اورکبھی بھی سفارتی طورپرایران کے خلاف انہیں استعمال نہیں کیا ۔پچھلے کئی برسوںمیں ایران نے فرقہ وارانہ تنظیموں کے لیے نوجوانوں کو بھرتی کیااورانہیں دہشت گردی کی باقاعدہ تربیت بھی دی ۔ہماری یکطرفہ دوستی کایہ عالم ہے کہ ہمارے حساس اداروں نے دہشت گردی میں ملوث،، زینبیون ،،کے لوگ پکڑے، جو شام میں بھی جاکرلڑ چکے تھے اور کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ یا فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے حکام ایران کا نام نہیں لیتے بلکہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ پکڑے جانے والے افراد نے ایک پڑوسی ملک میں تربیت حاصل کی۔ایران نے پاکستان کے خلاف یہ محاذایسے وقت میں کھولاہے جب فلسطین کے بعدیمن میں بھی آگ کے شعلے بھڑکنے کوہیں امریکہ اوربرطانیہ یمن میںاہداف کونشانہ بنارہے ہیں۔ایسے میںامریکا نے بحیرہ احمر میں حوثی حملوں کے خلاف ٹاسک فورس 153 بنانے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان نے ٹاسک فورس 153 میں شامل ہونے کی امریکی دعوت کو مسترد کر دیا تھا۔ گزشتہ دنوں پاک بحریہ نے میری ٹائم سکیورٹی کے بحری جنگی جہازوں کو بحیرہ عرب میں تعینات کیا تھا،جس کامقصد پاکستان کے تجارتی راستوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے مسلسل پیٹرولنگ کرناہے۔ پاک بحریہ ان تجارتی گزرگاہوں کی مسلسل فضائی نگرانی بھی کررہی ہے۔مگریارلوگوں نے بحیرہ عرب میں پاکستان نیوی کے جہازوں کی تعیناتی کو ٹاسک فورس 153 سے منسلک کرکے پروپیگنڈہ شروع کردیا۔ایرانی حملے کے بعدریاست مخالف عناصرجن کی سرپرستی تحریک انصاف کررہی ہے وہ مسلسل پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈ ہ کررہے ہیں اور اس حملے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں، ریاست مخالف گروہوں کے ماسٹر مائنڈ اور سہولت کار سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بلا روک ٹوک زہریلا موادپھیلارہے ہیں اور پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پر پیش کرنے کے لئے سوشل میڈیا کے ذریعے جعلی معلومات پر مبنی مواد کی تشہیر کر کے عوام میں مایوسی اور غیر یقینی کی کیفیات ابھارنے کی کوشش کررہے ہیں۔ شیطانی سوچ کے حامل یہ مختلف ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور اکائونٹس چوبیس گھنٹے پاکستان میں لسانی تعصب ، فرقہ ورانہ نفرت اور متشدد باغیانہ افکار کا پرچار کرتے رہتے ہیں۔ ایران نے یہ حملہ ایسے وقت میںکیا کہ حال ہی میں بھارتی حکومت کااعلی سطحی وفدتہران کادورہ کرکے واپس گیاہے ۔ریاست پاکستان کوچارجانب سے گھیراجارہاہے ایرانی حملے کے بعدیہ ثابت ہوگیاہے کہ ایران، افغانستان اور ہندوستان ایک پاکستان مخالف تکون ہے. مغرب میں افغانستان اور مشرق میں ہندوستان کے بعداب تیسری سرحد پر تنازع کھول دیاگیاہے ۔ پاکستان کی ایران کے ساتھ سرحد کی لمبائی 909 کلومیٹر (565 میل)ہے۔جوگزشتہ کافی عرصے سے ہمارے لیے دردسربنی ہوئی ہے ۔اقوامِ متحدہ کی مختلف رپورٹس کے مطابق تیسرے نمبر پر انسانی اسمگلنگ بھی ایران سرحد سے ہوتی ہے۔ پاکستان کے نوجوانوں کی اکثریت اسی سرحد سے ایران کے راستے ترکی اور پھر یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں
۔اقوامِ متحدہ کے آفس آن ڈرگ اینڈ کرائم کی مختلف رپورٹس کی روشنی میں چوتھے نمبر پر اس بارڈر سے منشیات کی اسمگلنگ کی جاتی ہے۔
جہاں تک جیش العدل نامی تنظیم کاتعلق ہے توبی بی سی فارسی کے مطابق سنی بلوچ ملیشیائوں پر مشتمل جیش العدل نامی تنظیم کا قیام سنہ 2009 میں ایران کی جانب سے عسکریت پسند گروہ جند اللہ کے سربراہ عبدالمالک ریگی کو گرفتار اور پھانسی دینے کے بعد بنائی گئی تھی۔ یہ تنظیم خود کو ایران کے صوبہ سیستان اور بلوچستان میں سنی حقوق کا محافظ قرار دیتی ہے ۔
2002 میں جند اللہ کاقیام عمل میں لایاگیاتھا۔2012 میںجنداللہ نے اپنا نام تبدیل کر کے جیش العدل رکھا ۔عبدالمالک ریگی کے بھائی عبدالرف ریگی نے 2013 میں جیش العدل گروپ سے علیحدگی اختیار کرکے جیش النصربنائی،2013 میں عبدالرئوف ریگی اوران کے بھتیجے ابوبکرریگی مارے گئے 2016میں جیش النصرواپس جیش العدل میں ضم ہوگئی۔عبدلمالک ریگی کی گرفتاری میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ریگی کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ دبئی سے کرغزستان جانے کی کوشش کر رہے تھے۔یہی وجہ ہے کہ جیش العدل پاکستان کے خلاف بھی کاروائیوں میں ملوث ہے ۔
ایران کی طرف پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی یہ کاروائی ایسے حالات میں عمل لائی گئی کہ پاکستان اور ایران کے درمیان رابطے کے متعدد چینلز موجود تھے ۔جبکہ ایران نے جہاں میزائل مارے ہیں اس کے متعلق ایسے شواہدپیش نہیں کرسکاہے کہ واقعی وہاںجیش العدل کاکیمپ موجودتھا ؟بی سی سی کی رپورٹ کے مطابق ایرانی میزائل محمد ادریس کے گھر پر گرا جہاں آٹھ سے 10 سال عمروں کے دو بچوں کی شہادت ہوئی جبکہ خواتین و دیگر بچے زخمی ہوئے۔
0 41 5 minutes read