اس نے پچاسی سال کی عمر پائی۔ اس عمر میں انسان جوان پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کا نانا دادا بن جاتا ہے۔ وہ بھی نانا دادا بن گیا تھا مگر اس کے باوجود وہ سب کا بھائی تھا۔ بلا تفریق پیر و جوان سب اسے بھائی کہتے تھے کہ یہ اس کے نام کا حصہ تھا۔ اس کا اصل نام کہیں پس منظر میں چلا گیا تھا۔ لوگوں میں شناخت اسے ”منو بھائی” کے قلمی نام سے ہی ملی۔
منو بھائی کا اصل نام منیر احمد قریشی تھا۔ ان کے دادا میاں غلام حیدر قریشی امام مسجد تھے مگر انہوں نے امامت کو ذریعہ معاش نہ بنایا تھا۔ روزگار کے لئے وہ کتابوں کی جلد بندی اور کتابت کا کام کیا کرتے تھے۔ غلام حیدر قریشی پنجابی زبان کے عمدہ شاعر تھے، انہوں نے ہندووں کی مذہبی کتاب ”گیتا” کا منظوم پنجابی ترجمہ کیا تھا۔ ہندی، فارسی اور سنسکرت پر انہیں عبور حاصل تھا۔ پنجابی کلاسیک انہیں ازبر تھی اور بچپن میں منو بھائی نے ان سے بہت کلاسیکل شاعری سنی۔ وہ چھ ماہ تک مہاراجہ کشمیر کے فارسی کے اتالیق بھی رہے۔
منو بھا?ی کے والد محمد عظیم قریشی ریلوے میں ملازم تھے جو ترقی کرتے ہوئے اسٹیشن ماسٹر بن گئے تھے۔ منو بھائی بچپن میں مرنجان مرنج تھے۔ نازک جسم کے ساتھ ساتھ دماغ بھی نازک اور حساس تھا۔ اوپر سے زبان میں بھی ہلکی سی لکنت تھی جس کی وجہ سے لڑکے ان کا مذاق اڑایا کرتے۔ تنگ آ کر انہوں نے لڑکیوں کی صحبت میں پناہ لی جو ان پر آوازے نہیں کستی تھیں اور نہ ہی ان کی طبع نازک یا لکنت کا مذاق اڑاتی تھیں۔
1947 میں میٹرک کرنے کے بعد وہ گورنمنٹ کالج کیمبل پور (اٹک) میں داخل ہو گئے جہاں انہیں غلام جیلانی برق، پروفیسر عثمان اور مختار صدیقی جیسے اساتذہ کی شاگردی کا فخر حاصل ہوا۔ شفقت تنویر مرزا سے اسی کالج میں ان کی دوستی ہوئی اور انہوں نے بھی پنجابی زبان میں شاعری شروع کر دی۔ معروف پنجابی شاعر، ادیب اور نقاد شریف کنجاہی ان کے ماموں تھے۔
کالج میں منو بھائی نے طلبہ سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا جس کی وجہ سے انہیں کالج سے نکلنا پڑا اور یوں گریجویشن نامکمل رہ گئی۔ والد نے افسروں سے کہہ کر انہیں ریلوے میں ایک اچھی نوکری دلا دی مگر انہیں یہ نوکری پسند نہ آئی۔ گھر سے نکل کر وہ راولپنڈی پہنچ گئے جہاں ان کے دوست شفقت تنویر مرزا پہلے سے موجود تھے۔ منو بھائی نے راولپنڈی کے اخبار روزنامہ تعمیر میں پچاس روپے ماہوار پر پروف ریڈر کی حیثیت سے کام شروع کر دیا مگر اپنی قابلیت اور خداداد صلاحیت کی بدولت جلد ہی سب ایڈیٹر کے عہدے تک جا پہنچے۔ اسی اخبار میں انہوں نے اوٹ پٹانگ کے عنوان سے کالم لکھنا شروع کر دیا۔ وہ شاعری بھی کیا کرتے تھے جو اخبارات و جرائد میں منیر احمد کے نام سے شائع ہوتی تھی۔ انہوں نے روزنامہ امروز میں ایک نظم اشاعت کے لیے بھیجی تو اخبار کے مدیر احمد ندیم قاسمی نے ان کا نام منیر احمد سے منو بھائی کر دیا اور پھر زندگی بھر وہ اسی نام سے لکھے اور پکارے گئے۔روزنامہ تعمیر سے احمد ندیم قاسمی انہیں روزنامہ امروز میں لے آئے۔ دوسری صحافتی سرگرمیوں کے علاوہ یہاں انہوں نے ”گریبان” کے عنوان سے کالم لکھنے شروع کر دیئے۔ روزنامہ امروز حکومتی اخبار تھا، ان کا حکومت سے صحافیوں کے معاوضے کے معاملے پر جھگڑا ہو گیا جس کی پاداش میں ملتان امروز کے دفتر ان کا تبادلہ کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو انہیں ملتان سے روزنامہ مساوات میں لاہور لے آئے جہاں انہوں نے کافی عرصہ کام کیا۔ روزنامہ جنگ نے لاہور سے اپنی اشاعت کا آغاز کیا تو منو بھائی نے جنگ کو جوائن کر لیا۔ منو بھائی پنجابی زبان کے اچھے شاعر اور اردو زبان کے بہترین کالم نگار تھے مگر انہیں بے پناہ شہرت بطور ٹیلی ویژن ڈراما نگار ملی۔ ٹی وی کے لئے ڈراما نویسی کی طرف انہیں اسلم اظہر لے کر آئے جن کی فرمائش پر انہوں نے 1965 کی جنگ کے تناظر میں ڈراما ”پُل شیر خاں” لکھا۔ منو بھائی نے گلیمر سے پاک عام لوگوں کے لئے زندگی کے عام کرداروں پر مشتمل سماجی اور معاشرتی موضوعات پر ڈرامے لکھے اور بے پناہ داد پائی۔ گلی محلے کے عام سے کرداروں پر مشتمل ان کا پنجابی سلسلے وار کھیل ”کیہ جاناں میں کون” منظرِ عام پر آیا تو منو بھائی کی شہرت کو پر لگ گئے۔ انہوں نے ڈرامے کا فن کتابوں سے نہیں سیکھا تھا بلکہ اپنے اردگرد چلتے پھرتے، جیتے جاگتے لوگوں سے سیکھا تھا۔ اسی لئے ان کے کردار بناوٹی یا کٹھ پتلیاں نہیں بلکہ جیتے جاگتے، سانس لیتے، جذبات سے بھرپور انسان ہوتے ہیں۔ سلسلے وار کھیل ”آشیانہ” میں انسانی اقدار ان کا موضوع تھا جبکہ ”دشت” میں انہوں نے بلوچستان کے صحرائی کلچر کو اپنا موضوع بنایا۔ ”سونا چاندی” ان کا سب سے مقبول سلسلے وار کھیل تھا۔ یہ ایک دیہاتی اور بھولے بھالے جوڑے کی کہانی ہے جو اپنی شادی پر لئے گئے قرض کو اتارنے کی خاطر شہر آ کر مختلف گھروں میں نوکری کرتا ہے۔ اس جوڑے کے توسط سے منو بھائی شہری زندگی، شہری کلچر، ماحول اور کرداروں کے ساتھ ساتھ زندگی کے بہت سے نشیب و فراز کو سامنے لاتے ہیں۔ اس ڈرامے نے ثانوی کردار ادا کرنے والے بہت سے فنکاروں کو سوپر سٹار بنا دیا تھا۔ ان کا لکھا ہوا ڈراما جھوک سیال بھی بے حد مقبول ہوا تھا۔ میری سادگی دیکھ،دروازہ، ضرورت اور چھوٹے بھی ان کے مقبول ڈرامے ثابت ہوئے۔ منو بھائی نے طویل دوراینے کے کئی ڈرامے بھی تحریر کئے جن میں ”گم شدہ” اور ”خوب صورت” کا سحر آج بھی برقرار ہے۔
جس طرح منو بھائی نے اپنے ڈراموں میں انسان دوستی کا پرچار کیا اس کا عملی مظاہرہ انہوں نے اپنی زندگی میں بھی پیش کیا۔ انہوں نے سندس فائنڈیشن کے نام سے این جی او قائم کی جس کے تحت تھیلیسیمیا اور ہیمو فیلیا کے مریض بچوں کو خون فراہم کیا جا رہا ہے۔ وہ سندس فائنڈیشن کے تاحیات صدر رہے۔ منو بھائی صحافیوں کی تنظیم سیفما اور پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے صدر بھی رہے جہاں انہوں نے صحافیوں کی فلاح و بہبود اور مسائل کے حل کے لئے نمایاں خدمات انجام دیں۔ وہ آزادی، جمہوریت اور ترقی پسندی کا استعارہ تھے۔ صحافت اور ادب کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دینے پر حکومت پاکستان نے 2007 میں انہیں تمغہ براے حسنِ کارکردگی (پرئیڈ آف پرفارمنس) سے نوازا۔
منو بھائی کی تصنیفات میں اجے قیامت نئیں آئی (پنجابی شاعری)، جنگل اداس ہے، جو بچا ہے شہرِ مقتل میں(منتخب کالم)، فلسطین فلسطین، محبت کی ایک سو ایک نظمیں، انسانی منظر نامہ (تراجم) شامل ہیں۔ 2014 میں منو بھائی نے اپنا ذاتی کتب خانہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کو عطیہ کر دیا تھا۔ یہ کتب خانہ 145464 کتابوں پر مشتمل تھا۔
منو بھائی طویل علالت کے بعد 19 جنوری 2018 کو لاہور میں انتقال کر گے۔
منو بھائی کی پنجابی شاعری کا نمونہ دیکھیں
اوہ وی خوب دیہاڑے سن
بُھکھ لگدی سی منگ لیندے ساں
مِل جاندا سی کھا لیندے ساں
نہیں سی مِلدا تے رو پیندے ساں
روندے روندے سوں رہندے ساں
ایہہ وی خوب دیہاڑے نیں
بُھکھ لگدی اے منگ نہیں سکدے
مِلدا اے تے کھا نہیں سکدے
نہیں مِلدا تے رو نہیں سکدے
نہ روئیے تے سوں نہیں سکدے
0 40 5 minutes read