کالم

سردا ر جا وید اقبال کی تعلیمی خد ما ت

دُنیا میں سب سے اہم پیشہ ، پیشہ معلمی ہے چونکہ معلم ایک انسان کی تعمیر کرتا ہے ۔ علامہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ شیخ مکتب ہے اک عمارت گر ، اس کی صنعت ہے روح انسانی ۔ انسان جس بھی سکول ، کالج یا یونیورسٹی سے علم حاصل کرتا ہے ۔ اس کے در و دیوار سے بھی محبت ہو جاتی ہے جبکہ وہ اساتذہ جنہوں نے سہانے مستقبل کی آبیاری کی ہوتی ہے انہیں کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے ۔ 14 دسمبر 2022کو میری اولین درس گاہ ہائی سکول پٹولہ میں سردار جاوید اقبال انچارج صدر معلم کے اعزاز میں انکی ریٹائرمنٹ کے موقع پر ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ تقریب میں سابق ممبر کشمیر کونسل سردار عبدالخالق وصی ، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سردار بابر ایاز ، ممبر ضلع کونسل سردار ممتاز ، ریٹائرڈ اساتذہ سردار محمد اقبال خان ، سردار نعیم ، سردار رحیم ، سردار وزیر کے علاوہ راولا کو ٹ سے ممتاز ما ہر تعلیم ایاز احمد شیراز یونین کونسل ٹائیں پاچھیوٹ اور بنگوئیں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ اور سماجی شخصیات نے بھی شرکت کی اور ان کی خد مات کوشا ندار الفاظ میں سرا ہا ۔ سکول کے بچوں نے تلاوت اور نعت رسول مقبول ۖ پیش کی اور ایک بچے نے خوبصورت الفاظ میں اپنی تقریر میں سردار جاوید اقبال کی تعلیمی خدمات کو سراہا ۔ بچوں کی پرفارمنس بہت اچھی تھی اور اساتذہ کی محنت کاعکس تھی ۔ تقریب کے دوران مختلف مقررین اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے لیکن میں بار بار بچپن اور لڑکپن کی سکول کے ساتھ جڑی یادوں میں چلا جاتا تھا ۔ بلخصوص وہ قابل قدر اساتذہ جو کہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے وہ بار بار یاد آتے تھے ۔ صدر معلم لطیف شا ہ صا حب میرے مربی اور عظیم استاد خالد خان صاحب مرحوم ، ارشاد صاحب مرحوم ، عبدا لرحمن صاحب مرحوم (عا رضی معلم) اور منور صاحب مرحوم اس سکول کی رونق ہوا کرتے تھے ۔ خالد صاحب تو ایسی علمی ادبی تقریبات کی جان ہوا کرتے تھے جنکی موجودگی ہی تقریب کی رونق کو دوبالا کر دیتی تھی بہرحال اس تقریب کے روح رواں سردار جاوید اقبال تھے جو کہ ہر دور کے طلبہ میں ہر دل عزیزہے ۔ تمام مقررین نے انہیں زبردست انداز میں خراج تحسین پیش کیا ۔ جاوید صاحب کی وجہ سے کلاس رو مز ہمیشہ آباد رہے اور کھیل کا میدان بھی ۔ وہ ہمہ پہلو صلاحیتوں کے حامل ہیں ۔ اردو ادب اور زبان پر انہیں خاص دسترس حاصل ہے لیکن سکول کی ضروریات کے باعث انگریزی ، مطالعہ پاکستان ، شہریت اور سائنس کے مضامین کی بھی بوقت ضرورت انہوں نے انتہائی خوش اسلوبی سے تدریس کی ۔ والی بال اور کرکٹ خود کھیلی بھی اور طلبہ کو بھی سیکھا ئی ۔ آپ نرم دم گفتگو گرم دم جستجو کے مصداق ہمیشہ شائستہ لہجے میں کسی شعر کے مصرع یا مختصر جملے میں حسن ظرافت سے اپنی بات پہنچا دیتے ہیں ۔ انکی شخصیت کابظا ہر جتنا زیادہ رعب ہے اس سے زیادہ انکی طبیعت میں نرمی اور وضعداری موجود ہے ۔ انکی تحریر ہمیشہ بہت خوبصورت ہوتی ہے ۔ سکول کی تعمیر و ترقی اور تدریسی معیار انکی ہمیشہ اولین ترجیح رہی ہے ۔ الوداعی تقریب میں جملہ مقررین نے جاوید اقبال صاحب کی تعلیمی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہوئے انکی بھرپور تحسین کی ۔ جاوید صاحب نے اپنے سکول کے ساتھ بھرپور تعلق کی یادیں تازہ کیں ۔ انہوں نے بتایا کہ 41 سال چھ ماہ سروس میں سے 39 سال چھ ماہ ہائی سکول پٹولہ میں تدریس کی ۔ تقریب سے خطاب میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سردار بابر ایاز نے اس موقع پر یقین دلایا کہ سکول کے مسائل بتدریج حل کرنے کے لیے پورے اخلاص کے ساتھ کوشش کریں گے ۔ اس کی تاریخ اور روایات کے مطابق دوبارہ سے اس کا احیا کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک تعلیمی ادارے کا حرج صرف تعلیمی ادارہ کا حرج نہیں بلکہ پورے معاشرے کا نقصان ہوتا ہے ۔ انہوں نے طلبہ پر زور دیا کہ وہ اپنی محنت اور لگن سے مقام حاصل کریں ۔ انہوں نے کہا جاوید صاحب کے شاگرد ان کی چلتی پھرتی تصانیف ہیں ۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سردار عبدالخالق وصی صاحب نے کہا کہ جاوید صاحب نے مسلسل محنت سے نمایاں مقام حاصل کیا ۔ معززین کے پرزور اسرار پر سردار جاویداقبال نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جب تک سکول کے لیے اساتذہ اور صدر معلم کا بندوبست نہیں جاتا اپنی خدمات کا رضاکا رانہ بنیادوں پر جاری رکھنے کا وعدہ کیا ۔ اسی طرح انہوں نے ریٹائرڈ معلم سردار وزیر صاحب کو تیار کیا کہ وہ رضاکارانہ طور پر تدریسی خدمات سرانجام دیں تا کہ طلبہ وطالبات کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو ۔یاد رہے کہ 1935 میں رضاکارانہ بنیادوں پر ہی سردار شاہ ولی خان نے اس سکول کی بنیاد رکھی اور 1945 میں اسے حکومتی تحویل میں لیا گیاوہ اس سکو ل کے پہلے سرکاری معلم مقرر ہوئے ۔ جاوید صاحب کی والدہ محترمہ اس سکول کی اول کلاس کی طالبہ بھی تھیں اور بعد میں انہوں نے بطور معلمہ فرائض بھی سرانجام دیے ۔ یوں اس سکول کی روز اول کی درخشندہ روایت کو سردار جاوید اقبال نے زندہ کرتے ہوئے رضاکارانہ طور پر آئندہ بھی خدمات جاری رکھنے کاا علان کیا جو کہ قابل ستائش ہے ۔ ڈاکٹر وحید احمد کی ایک نظم بعنوان "ہم شاعر ہوتے ہیں”اس مو قع پر یاد آ تی ہے جوصرف شعراء پر ہی نہیں جاوید صاحب جیسے اساتذہ پر بھی صادق آتی ہے کیو نکہ نسل نو کی تعمیر کرنے والے مخلص و دیا نتدار اسا تذ ہ کر ام بھی شعرا ء کی طرح کم ہی ہو تے ہیں۔ نظم کچھ اس طرح سے ہے کہ:۔
ہم پیدا کرتے ہیںہم گیلی مٹی کو مٹھی میں بھینچا کرتے ہیں تو شکلیں بنتی ہیںہم ان کی چونچیں کھول کے سانسیں پھونکا کرتے ہیں جو مٹی تھے وہ چھو لینے سے طاہر ہوتے ہیں ہم شاعر ہوتے ہیں کنعان میں رہتے ہیں جب جلوہ کرتے ہیں تو ششدر انگشتوں کو پوریں نشتر دیتی ہیں پھر خون ٹپکتا ہے جو سرد نہیں ہوتا اک سہما سا سکتہ ہوتا ہے درد نہیںہوتایونان کے ڈاکو ہیں ہم دیوتائوں کے محل میں نقب لگایا کرتے ہیں ہم آسمان کا نیلا شہ دروازہ توڑتے ہیں ہم آگ چراتے ہیںتو اس دنیا کی یخ چوٹی سے برف پگلتی ہے پھر جمے ہو ئے سینے ہلتے ہیں سا نس ہمکتی ہے اور شریانوں کے منہ کھلتے ہیں خون دھڑکتا ہے جیون راماین میں جب راون استبدادی کاروبار چلاتا ہے ہم سیتا لکھتے ہیں جب رتھ کے پہیے جسموں کے خا شا ک کچلتے ہیں تو گیتا لکھتے ہیںجب ہونٹوں کے سہمے کپڑوں بخیہ ہوتا ہے ہم بولا کرتے ہیں جب منڈی سے ایک ایک ترازو غائب ہوتا ہے جو جیون کو میزان پہ رکھ کر تولا کرتے ہیںمزدوری کرتے ہیں ہم لفظوں کے جنگل سے لکڑی کاٹا کرتے ہیں ہم ارکشی کے ماہر ہیں انبار لگاتے ہیں پھر رندہ پھیرتے ہیں پھر برما دیتے ہیں پھر بدھ ملاتے ہیں پھر چول بٹھاتے ہیں ہم تھوڑے تھوڑے ہوتے ہیں اس بھری بھرائی دنیا میں ہم کم کم ہوتے ہیںجب شہر میں جنگل در آئے اور اس کا چلن جنگلائے تو ہم غار سے آتے ہیں جب جنگل شہر کی زد میں ہو اور اس کا سکوں شہرائیتو برگد سے نکلتے ہیں ہم تھوڑے تھوڑے ہوتے ہیں ہم کم کم ہوتے ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button