قارئین ! اداریے تو آپ نے ڈھیروں پڑھے ہوں گے لیکن جو آج میں قلمبند کر رہا ہوں اسے سنبھال کر رکھیے گا۔ اس میں کوئی دوسر ی رائے ہے ہی نہیں کہ راجہ فاروق حیدر خان اور سردار عتیق احمد خان سے زیادہ معاملہ فہم اور سیاسی اونچ نیچ کو ریاست میں ان سے زیادہ کوئی واقف نہیں۔ سب سے بڑی بات اگر کشمیر کا نام دنیا سے مٹانے کی کوشش کی گئی تو یہ دو شخص ہی رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ جس طرح سے مدلل اور ٹھوس قسم کا لائحہ عمل ان دو اشخاص کے پاس ہے ،اگر یہ دونوں ماضی کی غلطیوں کو بھول کرا ب بھی مرتبہ پھر اس خطے میںچوہدری غلام عباس،غازیء ملت،راجہ حیدر خان اور سردار عبدالقیوم خان اور سالار جمہوریت کے نظریے پر یکجان ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کے راستے کی دیوار نہیں بن سکتی۔میں کالم کی وساطت سے دونوں ذعماء تک یہ بات پہنچانا چاہتا ہوں کہ آپ نے ضد بازی کر کہ ایک بڑی جماعت کا خاتمہ کیا جو کہ کشمیر کی نظریاتی اور ثقافتی معاملوں کا انبار تھی،آپ دونوں نے اسے ختم کیا۔خدارا اپنی عاقبت سنبھالنے کے لئے اب بھی کچھ نہیں گیا تحریک تکمیل پاکستان تک آپ نوجونواں کی راہنمائی کریں۔ورنہ یاد رکھیے گا کہ مورخ آپ دونوں کو مسلم کانفرنس توڑنے والوں کے خانے میں آپ کا نام لکھے گا۔قیام پاکستان کے فوراً بعد کشمیری زعماء نے بابائے قوم کے ہاتھ مظبوط کرنے کے لئے آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا قیام عمل میں لایا۔بابائے قوم خود فرماتے تھے کہ کشمیر میں مسلم کانفرنس ہی مسلم لیگ ہے۔کانفرنس کے قیام کا مقصد تحریک آزادی کشمیر کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے علاوہ تحریک تکمیل پاکستان تھا۔چوہدری غلام عباس اور ان کے ساتھیوں نے شب و روز محنت کر کے کشمیریوں کو ان کا تشخص مسلم کانفرنس کی صورت میں دیا۔انہوں نے کشمیریوں کی پہچان ایک الگ جماعت بنا کر کی۔ کیا وہ اتنے نادان تھے کہ وہ مسلم لیگ کے ہوتے ہوئے مسلم کانفرنس کی تشکیل کرتے۔ یا قائد اعظم اتنے کم فہم سیاستدان تھے کہ انہوں نے کشمیریوں کو مسلم لیگ میں شامل ہونے کے بجائے مسلم کانفرنس بنانے کا عندیہ دیا۔٤٠ برس تک جب تک سالار جمہوریت سردار سکندر حیات اور مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان عملی سیاست میں رہے تو مسلم کانفرنس ایک نا قابل تسخیر قوت کے طور پر ریاست جماعت کے روپ میں موجود رہی۔ راجہ حیدر خان کی مسلم کانفرنس کے لئے قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ انہوں نے مسلم کانفرنس کو فعال کرنے کے لئے کوئی کوتاہی نہ کی۔اب صورت حال یہ ہے کہ ریاستی جماعت کا نام و نشان ہی سازش کے تحت مٹایا جا رہا ہے۔ اس کے پیچھے بہت سے مقصد کار فرما ہیں۔ ایک بات تو واضح ہے کہ کشمیر کو گلگت ،بلتستان کی طرز کا سیٹ اپ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جو کہ شائد کشمیری عوام کسی صورت قبول نہ کریں۔ ایسی صورت حال میں مسلم کانفرنس کا وجود ریاست کے وجود کا ضامن ہے۔ہر ذی شعور فرد جانتا ہے کہ بھارت کی چالاکی دنیا میں سند کا درجہ رکھتی ہے۔ اگر سازش کے تحت کانفرنس کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو بھارت عالمی فورم پر کشمیریوں کی کسی بھی حیثیت کو ماننے سے منحرف ہو جائے گا۔ وہ اس تاک میں ہے کہ کب مسلم کانفرنس کا بھاری پتھر اس کے راستے سے ہٹے تو وہ سرینگر اور ملحقہ علاقوں کو مستقل اپنا حصہ بنا ڈالے۔ ایسی صورت حال میں اہل دانش اور محب وطن کشمیری مسلم کانفرنس کو فعال کرنے کے لئے کوئی واضح حکمت عملی مرتب کریں،ورنہ ہم بھی گزشتہ کی طرح صدیوں تک مذید غلام بن جائیں گے۔اور ہندوستان چاہتا بھی یہی ہے۔مجھے معذرت کے ساتھ اس ملک کا شہری ہونے کی حیثیت سے یہ قلمبند کرنا پڑ رہا کہ سردار عتیق احمد خان اور راجہ فاروق حیدر نے مسلم کانفرنس تقسیم کر کے کشمیری عوام پر ظلم کیا ہے۔ اگر انہوں نے دوبارہ اس کو یکجا نہ کیا تو مورخ کبھ ی بھی یہ نہیں لکھے گا کہ سردار عتیق احمد مجاہد اول کے صاحبزادے تھے اور راجہ فاروق حیدر راجہ حیدر خان کے سپوت تھے۔ بلکہ تاریخ لکھنے والا ان دونوں کو ذاتی عناد کی بنیاد پر کانفرنس کی تقسیم کا ذمہ دار گردانے گا۔یہ درست ہے کہ سگے بھائی بھی اختلاف کر جاتے ہیں مگر جب ملک و ملت کا مسئلہ ہو تو ذاتی دشمنیان ترک کر کہ ملی مفاد کو مد نظر رکھنا پڑھتا ہے۔اب بھی وقت ہے کہ یہ دونوں راہنما مل بیٹھ کہ کشمیریوں کے تشخص کی بحالی کے لئے مسلم کانفرنس کو متحد و منظم کریں۔سردار عتیق احمد بھی اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر راجہ صاحب کی بات سنیں اور راجہ صاحب بھی جذباتی انداز ترک کر کے سردار صاحب کو برداشت کریں۔ مجھے ذاتی طور پر کسی مسلم کانفرنس یا پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف سے کچھ لینا دینا نہیں۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ کشمیریوں کی پہچان سالار جمہوریت سردار سکندر، مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان ،سردار عتیق احمد اور راجہ فاروق حیدر ہیں۔ ان کی چپقلش سے نہ صرف کشمیر کاز کو نقصان پہنچے گا بلکہ کشمیریوں کے تشخص پر کاری ضرب لگے گی۔کشمیر کاذ جس کے لئے اس جماعت کا وجود عمل میں لایا گیا اور جو ہر لمحے،ہر وقت اور ہر روز کشمیریوں کوآزادی کا درس دینے والی جماعت جناب سردار عتیق احمد خان صاحب آپ کی اور راجہ محمد حیدر خان کے بیٹے فاروق حیدر کی وجہ سے بکھری ہے۔یہ جماعت ایک نظریے کی بنیاد پر بنی ہے اس کا خاتمہ ممکن نہیں،لیکن خدا را سردا ر عتیق احمد اور راجہ فاروق حیدر صاحب آپ اس کو ایک دفعہ پھر سواد اعظم بنائیں۔
کیوں کہ مسلم کانفرنس ہی وہ واحد جماعت ہے جو کہ حقیقی معنوں میں کشمیریوں کی نمائندگی کا حق رکھتی ہے۔ سردارعتیق اور راجہ فاروق حیدر اپنے رویوں میں لچک لائیں تا کہ مستقبل کا تاریخ دان انہیں برے لفظوں سے یاد نہ کرے بلکہ ان کے اجداد کی طرح انہیں بھی قومی ہیرو لکھا جائے۔ ایک بات طے ہے کہ اگر مسلم کانفرنس کو نقصان پہنچا تو کشمیری سو سال پیچھے چلے جائیں گے۔ اور ان کا حشر بنگلہ دیش اور گلگت بلتستان سے بھی بد تر ہو گا۔ ہماری بحیثیت محب وطن کشمیری یہ دعا ہے کہ اللہ مسلم کانفرنس کا سایہ ہمیشہ کشمیری عوام کے سروں پر مانند چھتری رکھے جو انہیں دھوپ کی حدت اور بارش کی شدت سے پناہ دے سکے۔ آمین۔
0 45 4 minutes read