ہندوستان مختلف مذاہبِ کے پیروکار لوگوں کا ملک ہے جن میں ہندو، مسلمان، عیسائی، سکھ، بڈھسٹ، جین اور دیگر شامل ہیں۔ تمام شہریوں کے لیے بنیادی حقوق کی آئینی ضمانتوں کے باوجود ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد کے واقعات کی وجہ سے انسانی حقوق کے حوالے سے تشویش بڑھ رہی ہے۔مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف امتیازی سلوک کا ایک نمایاں رجحان مختلف پالیسیوں اور واقعات میں واضح ہے۔ ان میں تشدد، جبری تبدیلی، امتیازی قوانین اور مذہبی رسومات پر پابندیاں شامل ہیں۔ گجرات میں 2002 کے مسلم مخالف فسادات اور مذہبی بنیاد پر قتل و غارتگری جیسے واقعات نے اقلیتوں کے تحفظ کے بارے میں تشویش کو بڑھا دیا ہے۔ شہریت سے متعلق تنازعات، جیسے کہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) اور شہریت ترمیمی ایکٹ (CAA) نے مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ان کے ممکنہ اثرات پر بحث کو ہوا دی ہے۔متعدد ریاستوں میں تبدیلی مذہب مخالف قوانین، جن کا مقصد ظاہری طور پر جبری تبدیلی کو روکنا ہے کا مذہبی اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان قوانین نے مذہب کی آزادی اور لوگوں کے عقیدے کی تبلیغ کے حق کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات نے بین الاقوامی توجہ حاصل کی ہے، جس کی وجہ سے سفارتی اور عالمی بحث و مباحثے شروع ہو گئے ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال اور بھی تشویشناک ہے۔ یہ خطہ ایک دیرینہ تنازعہ کا باعث رہا ہے، جو تاریخی پیچیدگیوں، علاقائی تنا اور مختلف بیانیوں سے بھرا پڑا ہے۔ حالیہ برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ بین الاقوامی توجہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور خطے میں ہندوستانی سیکورٹی فورسز کی طرف سے کیے جانے والی مظالم کی طرف مبذول ہوئی ہے، خاص طور پر اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے عالمی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔بھارتی سیکورٹی فورسز کے خلاف الزامات میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، تشدد، من مانی حراستیں اور پیلٹ گنز کا استعمال شامل ہیں جن سے لوگوں کی شہادتیں بھی ہوئی ہیں۔ بھارت کے اس اصرار کے باوجود کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے سیکیورٹی آپریشنز ضروری ہیں، بین الاقوامی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارتی سیکیورٹی فورسز پر مظالم کا الزام لگایا ہے۔ رپورٹ کردہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کچھ اقوام اور تنظیموں نے کیا ہے۔دعوں کی آزادانہ تصدیق کرنے میں دشواریوں، میڈیا کی پابندیوں اور خطے میں ہندوستانی فوج کی طرف سے مواصلاتی بلیک آٹ کی وجہ سے آزادانہ رپورٹنگ مشکل ہے۔ شفافیت کے اس فقدان نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں شکوک و شبہات اور غیر یقینی صورتحال کو فروغ دیا ہے۔ سیاسی اور سفارتی خدشات سے ہٹ کر مظالم کے الزامات اہم انسانی مسائل کو جنم دیتے ہیں۔ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے میں ناکام رہا ہے اور صورتحال کا مکمل اور غیر جانبدارانہ جائزہ لینے کی فوری ضرورت پر زور دیا جارہا ہے۔آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔ 5 اگست 2019 کو وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتی حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کا ایک متنازعہ قدم اٹھایا، جس کے نتیجے میں ریاست پر نمایاں اثرات مرتب ہوئے۔ آرٹیکل 370 جو 1949 میں ہندوستانی آئین میں شامل کیا گیا تھا نے جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت فراہم کی تھی جس سے اسے اس کا آئین، داخلی انتظامیہ پر خود مختاری اور محدود قانون سازی کے اختیارات حاصل ہوئے تھے۔ مودی حکومت کے فیصلے کا مقصد ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا تھا اور اسے ہندوستان میں ضم کرنا تھا۔ بھارتی حکومت نے دلیل دی کہ آرٹیکل 370 نے ترقی اور قومی یکجہتی میں رکاوٹ ڈالی ہے اور جموں و کشمیر کے لیے الگ قوانین کی وجہ سے تنہائی کے احساس کو فروغ دیا ہے۔اس اقدام کے نتیجے میں جموں و کشمیر کو دو الگ مرکزی زیر انتظام علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں دوبارہ منظم کیا گیا، جس سے حکمرانی کے ڈھانچے میں ایک اہم تبدیلی آئی۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ساتھ آرٹیکل 35A بھی منسوخ کر دیا گیا جس نے ریاستی مقننہ کو ‘مستقل رہائشیوں’ کی تعریف کرنے اور انہیں خصوصی حقوق اور مراعات دینے کا اختیار دیا تھا۔سیاسی منظر نامے میں کافی تبدیلیاں آئیں جن میں اسمبلی کی تحلیل اور نئے یونین ٹیریٹری فریم ورک کے تحت ہونے والے انتخابات وغیرہ جیسے اقدامات شامل ہیں۔بین الاقوامی برادری نے اس منسوخی کے بعد انسانی حقوق، سیاسی آزادیوں اور ممکنہ علاقائی عدم استحکام کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔ تاہم، بھارتی رہنماں نے جموں و کشمیر میں حالات کے معمول پر آنے ، مثبت تبدیلیوں، امن کی بحالی اور ترقی کے نام نہاد دعوں پر زور دیا۔ بہتر سیکورٹی اور معاشی ترقی کے جھوٹے دعووں کے باوجود ماورائے عدالت قتل اور مظالم کے الزامات تاحال برقرار ہیں۔وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ وغیرہ جھوٹے منہ استحکام اور ترقی کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ انہوں نے بہتر سیکورٹی کے اشارے کے طور پر تشدد اور دہشت گردی میں کمی کا حوالہ دیتے ہوئے، مضبوط حفاظتی اقدامات، فوج کی موجودگی میں اضافہ اور عسکریت پسند گروپوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشنز کو بھی اجاگر کیا ہے۔ ہندوستانی قیادت "بیک ٹو ولیج” اور "مائی ٹان مائی پرائیڈ” جیسے نام نہاد اقدامات کے ذریعے معاشی ترقی پر بھی زور دیتی ہے جن میں ترقی کو تحریک دینے اور معیار زندگی کو بڑھانے کی کوششوں کو بڑھا چڑھا کر سامنے لایا جاتا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جی 20 اجلاس، مختلف تہواروں اور تقریبات کا انعقاد کر کے بھی دنیا کو یہ دکھانے کی بھونڈی کوشش کرتا ہے کہ ریاست کے حالات معمول پر ہیں۔اصل صورت حال بھارتی حکومت کے گمراہ کن دعووں کے بالکل برعکس ہے۔ اگست 2019 کے بعد سے ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں، من مانی حراستوں، جنسی اور صنفی بنیادوں پر تشدد اور اظہار رائے اور مذہب کی آزادی پر پابندیوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جنہوں نے بھارتی حکومت کے ریاستی حالات نارمل ہونے کے جھوٹے دعوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں صرف ایک چیز معمول پر ہے اور وہ ہے تشدد جو جاری و ساری ہے۔ عالمی کشمیری برادری اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بنیاد پر تنازعہ کشمیر کے حل پر اصرار کرتی ہے اور بھرپور مطالبہ کرتی ہے کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دیا جائے۔بھارت سیاحت، تجارت کی آڑ میں اور سری نگر میں جی 20 سیاحتی اجلاس کی میزبانی کر کے بھی دنیا کو مقبوضہ کشمیر کے حالات کو نارمل دکھانے میں ناکام رہا ہے اور اقوام متحدہ کے ایک اہلکار نے یہ ریمارکس بھی دیئے کہ ہندوستان "فوجی قبضے کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔”مقبوضہ جموں و کشمیر میں کشمیریوں کو جن ظلم و ستم کا سامنا ہے وہ ان کی نسلی اور مذہبی شناخت کی وجہ سے ہیں۔ ظلم و جبر کی مہم ‘ہندوتوا’ نظریے سے چلتی ہے، جو مسلمانوں کے خلاف نفرت کو فروغ دیتے ہوئے ہندو مذہبی اور نسلی بالادستی کا دعوی کرتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ڈس انفارمیشن مہم میں اسلامو فوبیا کا عنصر بھی شامل ہے۔ انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر جاری خلاف ورزیوں بشمول نسل کشی کے امکانات، جموں و کشمیر تنازعہ کے حل کے لیے پرامن مذاکرات کی عدم موجودگی اور دو جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاستوں کے درمیان تنازع کے مسلسل خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی برادری کو اس صورت حال کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ جموں و کشمیر اور اس سے منسلک عالمی امن و سلامتی کے لیے خطرات قابل تشویش ہیں۔ لاکھوں کشمیریوں نے طویل عرصے سے مصائب برداشت کیے ہیں اور وہ اب تنازعہ کے پرامن حل کا مطالبہ کرتے ہیں۔ حالات نارمل ہونے کے جھوٹے افسانوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔حالات معمول پر لانے کے بے بنیاد دعووں کے برعکس بھارتی حکومت اور اس کی فوج بے گناہ کشمیریوں کے حراستی قتل میں ملوث ہے۔ ایک حالیہ واقعے میں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں مبینہ طور پر تین بیگناہ کشمیریوں کو فوج کی حراست میں تشدد کر کے شہید کر دیا گیا۔ مقامی لوگوں نے بھارتی فوج پر الزام لگایا کہ وہ ایک فوجی کیمپ میں شہریوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں، جس سے بڑے پیمانے پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ مبینہ تشدد کی تصویر کشی کرنے والی ویڈیوز بھی آن لائن پلیٹ فارمز پر گردش کر رہی ہیں، جنکی وجہ سے بھارتی حکام نے پونچھ اور راجوری میں انٹرنیٹ سروسز بھی منقطع کر دیں تھیں جو کہ مظاہروں اور ویڈیو کی نشریات کو روکنے کا ایک بھونڈا حربہ ہے۔ شوپیاں میں تین افراد کی ہلاکت سمیت ماضی کے واقعات نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت اور اس کی فوج کے خلاف ناراضگی کو مزید ہوا دی۔بھارتی مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے بھی حالیہ ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سری نگر میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے بھارتی فوجیوں کی کارروائیوں کو "خطے میں ریاستی دہشت گردی کی بدترین قسم” قرار دیا۔ تلاشی کی کارروائی کے دوران بھارتی فوجیوں نے مبینہ طور پر 15 افراد کو حراست میں لیا، جن میں سے تین کو وحشیانہ تشدد اور شہادت کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ بقیہ 12 شدید زخمی ہوئے اور انہیں ہسپتالوں میں داخل کرایا گیا۔ محبوبہ مفتی نے ان "دل دہلا دینے والی ویڈیوز” پر بھی روشنی ڈالی جن میں دکھایا گیا ہے کہ ہندوستانی فوجی مبینہ طور پر نوجوانوں کو نیچے پھینکتے ہیں اور ان کے زخموں پر مرچیں لگاتے ہیں۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر کی ایک بھیانک تصویر کشی کی، اسے ایک کھلی جیل کے طور پر بیان کیا جہاں اماموں، وکلا اور صحافیوں سمیت ہزاروں افراد کو قید کیا جاتا ہے اور ملازمین کو ان کی ملازمتوں سے برطرف کیا جاتا ہے۔ یہ اور ان سے ملتی جلتی آوازیں ہندوستان اور مقبوضہ جموں و کشمیر دونوں کے اندر سے گونجتی رہی ہیں۔کشمیری رہنما مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات معمول پر لانے کے بھارتی دعووں کی بھی تردید کر رہے ہیں۔ کل جماعتی حریت کانفرنس (اے پی ایچ سی) کے ایک سینئر رہنما غلام احمد گلزار، جو اس وقت نظر بند ہیں، نے بھارت پر الزام لگایا کہ وہ دنیا کو گمراہ کرنے اور عام بھارتی شہریوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی اصل صورتحال کے حوالے سے گلزار کا یہ بیان ہندوستانی فوج کے ایک کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اوپیندر دویدی کے دعووں کے جواب میں سامنے آیا جنہوں نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد صورتحال میں بہتری کا دعوی کیا تھا۔ گلزار نے حالات نارمل ہونے کے دعووں کو خود فریبی اور صریح جھوٹ قرار دے کر مسترد کر دیا۔ APHC-AJK چیپٹر کے کنوینر محمود احمد ساغر نے اسلام آباد میں کہا کہ بھارتی فوجی علاقے میں مظالم کو بڑھا رہے ہیں اور نام نہاد محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران بے گناہ نوجوانوں کو قتل کر رہے ہیں۔ اے پی ایچ سی-اے جے کے کے ایک اور رہنما الطاف حسین وانی نے کشمیری نوجوانوں کے ماورائے عدالت قتل کے واقعات کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔دریں اثنا امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے اپنی رپورٹ میں تشویش کا اظہار کیا کہ بھارت میں مذہبی آزادی اور متعلقہ انسانی حقوق خطرے میں ہیں اور حکومتی پالیسیاں مذہبی اقلیتوں کے تحفظ میں ناکام ہیں۔ رپورٹ میں مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، دلتوں اور آدیواسیوں پر بھارتی حکومت کی پالیسیوں کے منفی اثرات کو اجاگر کیا گیا۔ ہندوستانی فوج نے تین شہریوں کی تحویل میں ہونے والی ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے ایک بریگیڈیئر سمیت تین افسران کو شامل تفتیش کیا۔ رپورٹس کے مطابق انکوائری جاری ہے اور ہندوستانی فوج نے پونچھ سے تین افسروں- ایک بریگیڈیئر، ایک کرنل اور ایک لیفٹیننٹ کرنل کا تبادلہ کیا ہے ۔مقبوضہ جموں و کشمیر کے مقابلے میں آزاد جموں و کشمیر کے لوگ زیادہ اور بھرپور آزادی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہاں کے لوگ ریاست اور پاکستان میں کہیں بھی رہنے اور کام کرنے میں آزاد ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر میں معمول کی طرف سفر ایک مستحکم اور محفوظ ماحول کے قیام سے شروع ہوتا ہے۔ سیاسی استحکام کے لیے فعال طور پر کوشش کرتے ہوئے آذاد کشمیر کا خطہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ یہاں کے لوگ آذادی سے اپنی زندگیاں گزار سکیں۔ مقبوضہ کشمیر کے برعکس آذاد کشمیر ایک ایسا ماحول پیش کرتا ہے جہاں خاندان گھر قائم کر سکتے ہیں، بچے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور کمیونٹیز ہم آہنگی سے ایک ساتھ رہ سکتی ہیں۔ جینے کی یہ آزادی ایک ایسے معاشرے کی بنیاد ہے جو امن کی قدر کرتا ہے اور اس خطے کی خصوصیت کے تنوع کا خزانہ ہے۔ آزاد جموں و کشمیر میں معمولات اقتصادی شعبے تک پھیلے ہوئے ہیں، جہاں کے باشندے کام کرنے اور خوشحال ہونے کی آزادی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مقامی اقدامات جن کا مقصد صنعتوں کو فروغ دینا، انٹرپرینیورشپ کی حوصلہ افزائی کرنا اور سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے، نے روزگار کے بہت سے مواقع کھولے ہیں۔چاہے زراعت، سیاحت، یا دیگر شعبہ جات ہوں، آزاد جموں و کشمیر میں افراد کو معاشی آزادی کے لیے مختلف راستے تلاش کرنے کی خود مختاری حاصل ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کو اپنے بھرپور ثقافتی ورثے پر فخر ہے، جہاں مختلف نسلی اور مذہبی برادریاں ہم آہنگی کے ساتھ اکٹھی ہوتی ہیں۔ ثقافتی روایات کو اپنانے اور مشترکہ تاریخوں کو منانے کی آزادی یہاں کے باسیوں کے درمیان شناخت اور اتحاد کے احساس کو فروغ دیتی ہے۔ تہوار، روایات اور ثقافتی تقریبات ایک متحرک منظر نامے میں حصہ ڈالتے ہیں جو حالات کے معمول پر ہونے کے لیے خطے کی لگن کا مظہر ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کے قدرتی حسن نے اسے ابھرتے ہوئے سیاحتی مقام کے طور پر جگہ دی ہے۔ سیاحت نہ صرف اس خطے کی شان و شوکت کو ظاہر کرتی ہے بلکہ معاشی آزادی کے لیے ایک معاون کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔ سیاحت کے شعبے میں کاروباری سرگرمیوں کو تلاش کرنے کی آزادی مقامی لوگوں کو بااختیار بناتی ہے، معاشی ترقی کے مواقع فراہم کرتی ہے اور آزاد جموں و کشمیر کی مجموعی خوشحالی میں حصہ ڈالتی ہے۔ جہاں ایک طرف بھارتی فوج مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظلم و ستم اور قتل و غارتگری میں ملوث ہے وہیں دوسری طرف پاکستانی فوج آزاد جموں و کشمیر میں لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل ہے۔ یہ واضح تضاد ان لوگوں کے لیے آنکھیں کھولنے کا کام کرتا ہے جو بھارت کی حمایت کرتے ہیں یا ایک خودمختار کشمیر کی وکالت کرتے ہیں اور بھارتی مقبوضہ کشمیر کا آزاد جموں و کشمیر سے موازنہ کرتے ہیں۔اگر مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات حقیقی طور پر نارمل ہیں تو بھارت کو کچھ اہم سوالات کے جوابات دینے چاہیئں۔ بھارت بے گناہ کشمیریوں کے حراستی قتل میں ملوث کیوں ہے اور بغیر کسی شفاف اور منصفانہ تحقیقات کے انہیں دہشت گرد کیوں قرار دے رہا ہے؟ بھارتی فوج کے سینئر افسران کی برطرفی اس واقعے کے بارے میں مزید خدشات کو جنم دیتی ہے۔ اگر واقعی سب کچھ معمول پر ہے تو مودی اور دیگر بھارتی سیاسی رہنما مقبوضہ جموں و کشمیر میں کھل کر اور سرعام عوام سے خطاب کیوں نہیں کرتے، جب کہ آزاد جموں و کشمیر میں پاکستانی اور کشمیری سیاسی رہنما آزادانہ طور پر عوامی اجتماعات کرتے ہیں اور تقریریں کرتے ہیں؟قارئین، حقیقت دنیا پر عیاں ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات معمول سے کوسوں دور ہیں۔ جموں و کشمیر کے لوگ اپنی فطری پسند کے طور پر پاکستان کی حمایت کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ نہ رہنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ بھارت کو چاہیئے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات معمول پر لانے کے جھوٹے دعوں کا سلسلہ بند کرے اور اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ وہ تمام تر مظالم کے باوجود کشمیریوں کی آواز کو دبا نہیں سکتا۔ بھارت کو کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دینے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے پر مجبور کرنے کی ضرورت ہے۔
0 41 11 minutes read