کالم

ہری پور صوبہ خیبر پختونخوا کا تاریخی شہر

سیکرٹری جنرل بزم مصنفین ہزارہ جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھااللہ کریم نے یہ کائنات اتنی حسین،خوبصورت،دلفریب،کامل اور مکمل بنائی ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔اللہ کریم کی اس خوبصورت کائنات کے نظارے دیکھنے کے لئے اسفار کرنا کسی عبادت سے کم نہیں ۔راقم السطور اکثروبیشتر ادبی،تحقیقی،تاریخی اور علمی سفر میں رہتا ہوں۔9جنوری 2024 بروز منگل صبح ساڑھے نو بجے میں محلہ دربار کریمی جامع مسجد محمد مسکین واہ کینٹ سے بذریعہ جی ٹی ایبٹ آباد موڑ کی جانب روانہ ہوا۔دس بجے ایبٹ آباد موڑ پہنچنے اور تقریبا پونے گھنٹے کے صبر آزماانتظار کے بعد راقم الحروف نے سر زمین ہزارہ کے مشہور و معروف ضلع ہری پور کی جانب راہ لی۔ ایک گھنٹے کے سفر کے بعد میں ہری پور شہر پہنچا جہاں سر زمین ہزارہ کے ہی نہیں بلکہ ادبی دنیا میں ایک مقام و مرتبہ رکھنے والی شخصیت میرے انتہائی مکرم و مخلص دوست محترم ملک محمد عظیم ناشاد اعوان صاحب سر راہ اکھیاں بچھائے میرے منتظر نظر آئے۔موصوف بھی ضلع مانسہرہ سے رخت سفر باندھے ہری پور پہنچے تھے۔ضلع ہری پور شاہراہ ریشم پر واقع ایک خوبصورت شہر ہے۔اس شہر کی بنیاد ہری سنگھ نلوہ نے 1823 میں رکھی تھی۔سردار ہری سنگھ نلوہ نے قلعہ ہرکشن ہری پور بنوایا،اس قلعے کی دیواریں سولہ گز اونچی اور چار گز چوڑی تھیں ۔اس قلعہ کو اپنے نام سے منسوب کر کے ہری پور نام رکھا۔ہری سنگھ نلوہ سردار گور دیال سنگھ مصاحب کے گھر 1791 میں پیدا ہوا۔سولہ سال میں فوج میں ملازم ہوا ، 1819 میں کشمیر کی نظامت سپرد ہوئی،1822 تا1837 حاکم ہزارہ رہا۔ہری پور کا پرانا نام گل ڈھیری تھا۔ضلع ہری پور صوبہ خیبر پختونخوا کا ایک تاریخی شہر ہے جو شاہراہ قراقرم پر واقع ہے۔ اس کے شمال مغرب میں کے پی کے کا مشہور و معروف اور تاریخی شہرمردان، شمال مشرق میں ضلع ایبٹ آباد اورسرسبز وشاداب اور پہاڑوں کے دامن میں واقع خوبصورت ترین خطہ ضلع مانسہرہ،جنوب مشرق میں مارگلہ کی پہاڑیاں اور حکومت پاکستان کا دارالحکومت ضلع اسلام آباد واقع ہے۔جبکہ مغرب میں ضلع صوابی اور ضلع بنیرکے خوبصورت ترین علاقیہیں۔شمال میں جنت نظیر وادی ،وادی سوات واقع ہے۔ہری سنگھ نلوہ نے میدانی علاقہ دیکھ کر ہری پورشہر کی بنیاد ڈالی اور باغ (ہری سنگھ باغ)بھی لگوایا اس شہر میں سر سبز اور میوہ دار درختوں کی کثرت ہوتی ہے۔ہری پورشہر کے دیگر پھلوں کے ساتھ ساتھ اس شہرکی لوکاٹھ اور مالٹا دنیا بھر میں مشہور ہے۔راقم الحروف کے ہری پورشہر پہنچنے کے بعد ہماری اگلی منزل ہری پور شہر میں واقع کتاب گھر تھی جہاں سے ہم دونوں نے اپنی اپنی لائبریریوں کے لیے کچھ کتب خریدیں بعد ازاں ہم دونوں بذریعہ سوزوکی ڈاکٹر صاحب کی رہائش گاہ کھلا بٹ ٹان کی طرف عازم سفر ہوئے ۔تھوڑی ہی دیر بعد ہم کھلابٹ ٹان اتمان زئی چوک پہنچے۔کھلابٹ ٹان ہری پور شہر کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ پہلے اس کارقبہ موضع کانڈل ملکیت گوجراں کے تھا۔ تقریبا ڈیڑھ سو سال قبل سعید خان مرحوم علی زئی نے آکر بتعاون اسحاق بابا (قبیلہ گوجر ساکن کاندکے) یہ قصبہ آباد کیا ۔ اس وقت آبادی کے ایک طرف ایک پتھر جانب شمال زمین سے تین گز اونچا کھڑا تھا اس مناسبت سے لوگ اسے کھلابٹ کہتے تھے۔یہ پتھر آج بھی کھلا بٹ ٹان میں زمین میں نصب ہے جو اس علاقے کی وجہ تسمیہ کی ایک اہم علامت ہے۔سکھ دور میں اس علاقے کو لوٹا گیا ۔ بعد ازاں کئی عرصے تک یہ غیر آباد رہا۔ اس کے بعد انگریز سرکار میں سید خان بابا کی اولاد نے آباد کیا۔4 نومبر 1968کو صدراسلامیہ جمہوریہ پاکستان محترم جناب صدر محمد ایوب خان مرحوم نے تربیلہ ڈیم کی کھدائی کا افتتاح کیا۔ اس کی تعمیر 1976 میں مکمل ہوئی۔ اس ڈیم کی وجہ سے تقریبا 120 دیہات مکمل متاثر ہوئے ۔ تربیلہ ڈیم کی یہ خوبصورت جھیل ایک سو مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے۔ 96 ہزار افراد نے نقل مکانی کر کے حکومت کی سرپرستی میں اس علاقے یعنی کھلا بٹ ٹان ہری پور میں سکونت اختیار کی۔کھلا بٹ ٹان کے قریب ہی اتمان زئی چوک ہم گاڑی سے اترے اور ڈاکٹر صاحب کی رہائش گاہ پہنچے جہاں انہوں نے انتہائی مسرت و شادمانی کا اظہار کرتے ہوئے ہمیں ویلکم کیا۔ہمارے علاوہ اس وقت ڈاکٹر صاحب کو زیارت حرمین شریفین اور عمرہ ادائیگی کی مبارک باد دینے کے لئیجو احباب تشریف لائے ہوئے تھے ان میں ہری پور پریس کلب کے سینئر ممبران محترم جناب جاوید خان جدون صاحب،راشد محمودصاحب اور جان محمد جان صاحب جو پی ٹی سی ایل سے ڈائریکٹر ریٹائر ہیں کہ اسمائے گرامی شامل ہیں ۔ڈاکٹر صاحب کے علاوہ مذکورہ بالا معززین نے بھی ہمارا کھڑے ہو کر استقبال کیا ۔ڈاکٹر صاحب نے ہاہم،ہم سب کو ایک دوسرے سے متعارف کروایا۔ چونکہ ہم دوپہر کا کھانا کھا چکے تھے اس لئے ڈاکٹر صاحب کی طرف سے ہماری آب زم زم،کھجوروں،بسکٹ،کیک،مٹھائی اور چائے سے تواضع کی گئی۔بعد ازاں اثنائے گفت و شنید میں قبلہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے حرمین شریفین کے مبارک سفر کی یادوں سے ہم سب کو محظوظ کیا اور انتہائی خوبصورت اور ذو معنی گفتگو کی۔ڈاکٹر چن مبارک ہزاروی صاحب نے عظیم ناشاد اعوان صاحب کے سوال پر فرمایا کہ میں نے ایک حج کیا ہے۔تاہم کتنے عمرے کیے ہیں اس کی صحیح تعداد تو یاد نہیں البتہ اندازا ایک درجن سے زائد عمرے کر چکا ہوں۔ڈاکٹر صاحب بڑے خوش بخت اور خوش نصیب انسان ہیں کہ اللہ کریم نے انہیں اپنے گھر اتنی بار بلایا۔حدیث پاک میں ایک عمرے کو دوسرے عمرے کے مابین گناہوں کا کفارہ بتایا گیا ہے (صحیح البخاری ،ص 139)اور دوسری حدیث کے مفہوم کیمطابق حاجی اور عمرہ کرنے والے اللہ کریم کے مہمان ہیں ،وہ انہیں بلاتا ہے تو یہ اس کے بلاوے پر لبیک کہتے ہیں اوریہ اس سے سوال کرتے ہیں تو اللہ تعالی اِنہیں عطا فرماتا ہے۔(کنز العمال ، ج5، ص 5)قارئین محترم!ڈاکٹر چن مبارک ہزاروی صاحب انتہائی خوش اخلاق،ہنس مکھ، بہترین کردار ،اچھے اخلاق ،بہت ہی مہمان نواز،اچھے دوست اور بہترین صحافی و قلمکار ہیں۔جو بھی آپ سے ایک دفعہ ملاقات کرتا ہے آپ کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔پہلی ملاقات کرنے والا بھی یوں محسوس کرتا ہے جیسے قبلہ ڈاکٹر صاحب سے برسوں کی شناسائی ہو۔قبلہ ڈاکٹر صاحب کے مفصل حالات زندگی راقم الحروف نے اپنی کتاب تذکرہ مصنفین ہزارہ،،میں صفحہ قرطاس کیے ہیں۔ہماری یہ نشست تقریبا ایک گھنٹے سے زائد پر مشتمل تھی بعد ازاں ہم نے قبلہ ڈاکٹر صاحب اور دیگر معزز شخصیات سے نہ چاہتے ہوئے بھی اجازت چاہی۔بقول شاعر!سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں ہر ایک موڑ پہ کچھ لوگ چھوٹ جاتے ہیں بعد ازاں ہم نے قریب ہی واقع مرکزی جامع مسجد میں نمازِ ظہر ادا کی اور ہری پور شہر کی طرف رخت سفر باندھا۔تھوڑی ہی دیر بعد ہم ہری پور شہر پہنچیجہاں ہمارے ایک دوست اور محب بزم مصنفین ہزارہ کے ضلعی رہنما مولانا حافظ عثمان جدون صاحب (آف چنگی بانڈی) ہمارے منتظر کچھ یوں لب کشائی کرتے دکھائی دیے کہ!باد صبا کچھ تو نے سنا مہمان جو آنے والے ہیںتکیے نہ بچھانا راہوں میں ہم آنکھیں بچھانے والے ہیںمولانا حافظ عثمان جدون صاحب آج کل قرآن مجید کا ترجمہ وتفسیر ہندکو زبان میں رقم فرما رہے ہیں۔موصوف سے مختصر نشست ہوئی آپ نے ہماری چائے سے تواضع اور کچھ کتب کی صورت میں تحفے تحائف کا تبادلہ ہوا اورپھربزم مصنفین ہزارہ کے مرکزی صدر اور میرے انتہائی قریبی اورمخلص دوست ملک محمد عظیم ناشاد اعوان صاحب نے براستہ ایبٹ آباد، مانسہرہ کی راہ لی اور میں نے بعد نماز عصر حسن ابدال،واہ کینٹ کی جانب واپسی کا سفر اختیار کیا۔نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں عجب سفر ہے کہ بس ہم سفر کو دیکھتے ہیں بعد نماز مغرب راقم الحروف واہ کینٹ محلہ دربار کریمی جامع مسجد محمد مسکین پہنچااور یوں یہ سفر حسین یادیں چھوڑے اختتام پذیر ہوا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button