کالم

کٹھ پتلی تماشا

ہم چھوٹے ہوتے تھے تو میلے ٹھیلے بھی کثرت سے ہوتے تھے اور ان میلوں میں سرکس ،موت کا کنواں ،چڑیا گھر سمیت اور بھی بہت سی چیزیں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں اور لائوڈ سپیکرز کا شور اتنا ہوتا تھا کہ کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دیتی تھی اسی شور شرابے میں کہیں سے لگڑ بگڑ کی آوازبھی سنائی دیتی تو کہیں سے کھوتے (گدھے) کھانے والی بلا دکھانے کی آوازیں بھی سماعت سے ٹکراتی لیکن اس سارے کھیل تماشے میں سب سے زیادہ پرکشش چیز مجھے پتلی تماشالگتا تھاجہاں کاٹھ کی پتلیاں بھر پور طریقے سے ناچتی بھی اور نچاتی بھی اس سارے کھیل کے پیچھے ایک شخص ہوتا تھا جو خود کو پردے کے پیچھے چھپا کر اپنی انگلیوں کے ساتھ بندھی ہوئی ڈوریوں سے یہ سارا کھیل دکھا رہا ہوتا تھا اب وہ دور رہا اور نہ ہی وہ تماشے دیکھنے کو ملتے ہیں اس وقت بچے تھے اور اتنی سمجھ بوجھ بھی نہیں ہوتی تھی لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ معلوم ہوا کہ وہ کھیل بند نہیں ہوا بلکہ اب بھی جاری ہے فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ میلے کے میدان سے ختم ہوکر ہمارے سیاسی میدان میں بھر پور طریقے سے جاری ہے جہاںکبھی کسی کوآگے کردیا جاتا ہے تو کبھی کسی کو پیچھے کردیا جاتا ہے کبھی کوئی پوشیدہ انگلیوں کے اشارے پر ناچنا شروع کردیتا ہے تو کبھی کوئی انہی ڈوریوں کے سہارے بھاگنا شروع کردیتا ہے کبھی کوئی لیٹ جاتا ہے تو کبھی کوئی ڈٹ جاتا ہے یہ سارا کمال پردے کے پیچھے چھپے ہوئے اس کاریگر کا کمال ہے جس کے دونوں ہاتوں کی دس کی 10انگلیاں حرکت میں رہتی ہیں یہ اسی کا کمال ہے کہ وہ کس کردار کو سامنے لاتا ہے اور کس کو اٹھا لیتا ہے اس باکمال شخص کے پاس کٹھ پتلیوں کا خزانہ ہوتا ہے لیکن یہ وہی جانتا ہے کہ اس نے کس وقت کس کٹھ پتلی کو سامنے لانا ہے اس چھوٹے سے مزاحیہ پروگرام میں کٹھ پتلیوں سے کھلنے والا خود ہی مصنف ہوتا ہے خود ہی ہدایتکار ہوتا ہے اورخود ہی تجزیہ نگار ہوتا ہے اسے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت وہ کون سی کٹھ پتلی کا تماشا دکھائے گا تو لوگ تالیاں بجائیں گے ہماری سیاست بھی انہی کٹھ پتلیوں کے گرد گھومتی ہے جو کٹھ پتلی انگلیوں کے اشاروں سے دور ہوجائے یا ڈوریوں سے ناچنا بند ہوجائے اسے اٹھا کر کباڑ خانے میں پھینک دیا جاتا ہے اور اسکی جگہ کوئی اور نئی رنگین سے کٹھ پتلی اوپر سے اتار دی جاتی ہے کٹھ پتلیوں کا یہ کھیل قیام پاکستان کے بعد سے شروع نہیں ہوا بلکہ اگر اسکی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صدیوں پرانا کھیل ہے اس کھیل کا حوالہ راجستھانی لوک کہانیوں، گانٹھوں اور بعض اوقات لوک گیتوں میں بھی ملتا ہے اسی طرح کی کٹھ پتلیاں جو چھڑی والی کٹھ پتلی ہیں مغربی بنگال میں بھی پائی جاتی ہیں لیکن یہ واقعی راجستھان کی حیرت انگیز کٹھ پوتلی ہے جس نے ہندوستان کو اپنی روایتی کٹھ پتلی بنانے والے پہلے ممالک میں سے ایک بنا دیا راجستھان کے قبائل قدیم زمانے سے اس فن کو انجام دے رہے ہیں اور یہ راجستھانی ثقافت کے تنوع اور روایت کا ایک ابدی حصہ بن گیا ہے راجستھان میں کوئی گاؤں کا میلہ کوئی مذہبی تہوار اور کوئی سماجی اجتماع کٹھ پوتلیوں کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا بلکہ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ آج سے تقریبا 1500 سال قبل قبائلی راجستھان بھٹ برادری نے کٹھ پوتلی کو سٹرنگ میرونیٹ آرٹ کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا تھا اور اس فن سے انکی محبت کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اس فن کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ کٹھ پتلی کا فن وقت کی کسوٹی پربھی زندہ رہا کٹھ پتلی کی روایت لوک کہانیوں اور کہانیوں پر مبنی ہے جو قدیم راجستھانی قبائلی لوگوں کے طرز زندگی کو بیان کرتی ہیں راجستھانی بادشاہ اور رئیس فن اور دستکاری کے سرپرست تھے اور انہوں نے لکڑی اور سنگ مرمر کی تراش خراش سے لے کر ، مٹی کے برتنوں، پینٹنگ اور زیورات تک کی سرگرمیوں میں کاریگروں کی حوصلہ افزائی کی جبکہ پچھلے 500 سالوں سے کٹھ پتلی بادشاہوں اور خوشحال خاندانوں کی سرپرستی میں چلنے ولا ایک نظام بھی تھا اور یہی لوگ ان فنکاروں کی دیکھ بھال بھی کرتے تھے اور پھر میلوں میں کٹھ پتلی تماشا دکھانے والے نہ صرف اپنے سرپرستوں کی بلکہ انکے آباؤ اجداد کی تعریفیں بھی کرتے تھے اس سلسلہ میں بھٹ برادری کا دعویٰ بھی ہے کہ ان کے آباؤ اجداد نے شاہی خاندانوں کے لیے پرفارم کیا تھا اور انہیں راجستھان کے حکمرانوں سے بہت عزت اور وقاربھی ملا ۔اس کھیل کی جہاں سے ابتدا ہوئی تھی اسی جگہ ریاست راجستھان میں سب سے مشہور پرفارمنگ آرٹس بھی موجود ہے اور کٹھ پتلی میوزیم بھی جبکہ اسی نام سے بھارت میںایک کٹھ پوتلی کالونی بھی ہے جہاں کٹھ پتلی، جادوگر، ایکروبیٹس، رقاص اور موسیقار اور دیگر گھومنے پھرنے والے پرفارمنس گروپ نصف صدی سے آباد ہیں ۔کٹھ پتلی کا کھیل کیونکہ انگلیوں کے اشارے پر دکھایا جاتا ہے اسی لیے تو ہماری سیاست میں بھی یہ لفظ تواتر سے استعمال ہوتا ہے جو بھی اقتدار میں آتا ہے اسے کٹھ پتلی کا نام ضرور دیا جاتا ہے انہیں اس نام سے مخاطب کرنے والے بھی سیاستدان ہی ہوتے ہیں جو شائد اس لفظ کے معنی بخوبی سمجھتے ہیں اور انہیں اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہوگا کہ انہیں نچانے والی انگلیاں کون سی ہیں اور اور جو انہیں نچا رہا ہے وہ پردہ نشین کون ہے کس کی انگلیاں اتنی تیزی سے گردش کرتی ہیں کہ وہ ایک ہی وقت میں 10کاٹھ کی پتلیوں کو کنٹرول بھی کررہا ہے لڑا بھی رہا ہے ،گلے بھی ملوا رہا ہے ،نچوا بھی رہا ہے اور پھر اپنی مرضی سے ان سے کام بھی لے رہا ہے اس سارے کھیل تماشے کا مطلب سامنے بیٹھے تماشائیوں کو محظوظ کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ اسکی پرفارمنس پر دل کھول کر تالیاں بجاسکیں تاکہ وقت گذرنے کا احساس ہی نہ رہے لیکن جب کھیل ختم ہوتا ہے تب وقت گذرنے کا احساس ضرور ہوتا ہے شائد اسی لیے اب یہ کھیل تماشے اور میلے ٹھیلے لگنا بند ہوچکے ہیں لیکن ہماری سیاست میں ابھی بھی یہ کردار زندہ ہیں جو کسی نہ کسی کی انگلیوں پر بندھی ہوئی ڈوری سے خود کو باندھ کر ناچنا چاہتے ہیں ایسے لکڑی کے کردار بہت جلد کباڑ خانے کا کوڑا بن جاتے ہیں ہمیں اب اس کھیل سے بھی نکلنا ہوگا تاکہ حقیقی کردار ہمارے سامنے آسکیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button