
اللہ تعالیٰ کے غضب کو آواز دینے کی بجائے اس کی رحمت اور مغفرت کو آواز دینا آسان ہے، نہ جانے ھم معاشرے میں رہتے ہوئے اس کے غضب کو کیوں آواز دیتے ہیں،اسان کام چھوڑ کر مشکل میں کیوں پڑھتے ہیں؟ اشفاق احمد صاحب ایک مرتبہ کہہ رہے تھے کہ دوستو، جہنم کا حصول کتنا مشکل ہے اور جنت کا کتنا آسان محض ظلم چھوڑ کر رحم پیدا کر لیں جنت آپ کی منتظر رہے گی، جہنم کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، شریک کو پالنا، لوگوں پر ظلم کرنا، فحاشی اور عریانی کے دریا بہا دینا، کسی کا رزق اور عزت چھین لینا، سرکشی پر اتر آنا، کتنا مشکل کام ہے، جبکہ محض رحم و مغفرت کا طلبگار بن جانا کتنا آسان ہے، رمضان المبارک اس رحمت و مغفرت کی طرف بلاتا ہے، ھم عادت سے مجبور حرص و ہوس کی طرف بھاگتے ہیں، روزے کے لبادے میں وہی کام جو ظلم کی صفوں میں اولیت رکھتا ہے، آپ کے سامنے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کیا واقعہ سر انجام دیا گیا، کیا مطلوبہ مقاصد حاصل ھو گئے، ھاتھ سے دنیا بھی گئی اور آخرت بھی، کیا یہ آسان کام ہے، نہیں نا تو پھر آسان کام چھوڑ کر مشکل میں کیوں پڑتے ہیں، ذرا رمضان کے اس عشرے میں یہی سوچ لیں کہ ھم دوسروں کے لیے کیا اچھا کر سکتے ہیں؟ وہ دراصل اپنے ساتھ اچھا ھوگا، اس کا کوئی نعم البدل نہیں، آپ دوسرے کی مدد کریں گے، وہ آپ کی مدد کرے گا، ھم چلتے پھرتے چھوٹی چھوٹی باتوں، چیزوں اور رویوں کا خیال کریں گے وہ ہمیشہ ھمارا خیال کرے گا، تم مجھے یاد کرو گے میں تمہیں یاد کروں گا، وہ بھی آگے بڑھ کر اس سے زیادہ، کیوں نہ اسے یاد کریں اور اس کے بندوں کا خیال کریں، ھم نے کبھی نظر دوڑائی ھمارے قریب، ھمارے پڑوس میں لوگ کتنے مجبور اور بے بس ہیں جن کے لئے آپ کچھ کر سکتے ہیں، آپ کے رشتہ داروں میں کتنے مجبور اور بے سہارا لوگ ہیں کبھی صرف غور کر کے دیکھیں صرف مالی ہی نہیں اخلاقی اور سماجی طور پر وہ کتنے کمزور اور بے بس ہیں، ھمارے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے، جب کسی کی ضرورت اسے آپ کے دروازے پر لے جائے یہ اس کے لیے نہیں، آپ کے لیے رونے کا مقام ہے کہ آپ کو اندازہ بھی نہیں ھوا کہ وہ کتنا مجبور ھے، کس لئے یہ علم، مرتبے اور دولت کا بوجھ اٹھائے پھرتے رہیں جب جس معاشرے میں رہنے والوں کا خیال نہیں رکھ سکتے، اگر حضرت عمر و علی، غلے کا تھیلا اٹھا کر، یا کسی مجبور آور معذور کے لیے جھاڑو لگا سکتے ہیں تو ھم اور آپ کون ھوتے ہیں، حکومتوں کو چھوڑیں وہ بھی آپ کی بنائی ہوئی ہیں، ان کو سیدھا کرنے کا ایک ھی حل ھوتا ھے کہ ھم سیدھے ھو جائیں، اس سے آسان راستہ نہیں ھے، یہ عشرہ کائنات کا سب سے بڑا معجزہ لے کر آیا اور وہ ھے کتاب ھدایت یعنی قرآن مجید، کیا دن و رات ہیں جب اس معجزے کی حقیقت جاننے کے لیے ھم ھمہ تن گوش ھو جائیں کہ اس میں ھدایت ھی ھدایت ھے، ھم نے وہ آسان سورہ تو پڑھی ھو گی کہ ”ھم نے اسے یعنی قرآن مجید کو لیلاتہ القدر میں نازل کیا، اور تم اس کے بارے کیا ادارک رکھتے ہو یہ قدر والی رات ھزار مہینوں سے بہتر ہے، اس رات تمام فرشتے اور روح الامین یعنی جبرائیل علیہ السلام بھی اللہ کے حکم سے اترتے ہیں یہ سلامتی والی رات ھے، یہاں تک کہ طلوع فجر تک،” دہائی دیتی ہے کہ صرف فیصلہ کر لیں راستہ کون سا چائیے آسان یا مشکل، جو راستہ ھمیں آسانی کی طرف لے جائے کتنا عظیم ھو گا،اگ کو گل و گلزار بنا دیں ھدایت والی کتاب کا راستہ اختیار کر لیں اس رمضان صرف اِتنا ہی فیصلہ کر لیں ھم کہ کتاب ھدایت اور صاحب کتاب کی زندگی کو پڑھنا،جاننا اور سمجھنا شروع کر دیں، وہ عظیم اور زندہ معجزہ ھمارے سامنے موجود ہے اس کی طرف بالکل توجہ نہیں قرآن مجید ایسی کتاب بن کر رہ گئی ہے کہ بس جی برکت کے لیے رکھی ہے، جب ضرورت پڑی دیکھیں گے، یعنی ایک ایسی کتاب جو ھدایت اور رہنمائی کا پورا چارٹر لے کر آئی، جو اخلاق سے لے کر معاملات تک، حکومت سے سلطنت تک سب کچھ لے کر آئی، جس کا پڑھنا، سمجھنا اور غور کرنا سب سے ضروری کام، اہم فرض اور ھمارے اوپر قرض ھے اس کی کوئی فکر ہی نہیں، رمضان کے آخری عشرے میں ہی صحیح قرآن مجید کے نزول کی رات کو ہی یہ احساس اور عمل جاگ جائے کہ ھم نے قرآن پڑھنا، سمجھنا اور عمل کا ذریعہ بنانا ھے، یہی بڑا کام ھوگا، جن پر کتاب نازل ھوئی انہوں نے کتاب کا عملی نمونہ بن کر پیش کیا وہ دیکھ لیں اور نیت باندھ لیں کے قرآن پڑھنا اور سمجھنا ھے، یہ راستہ اور قرآن مجید جہنم سے بچنے ھنر اور ڈھال رکھتا ھے، یہاں برکتیں ہیں فضیلتیں ہیں عظمتیں ہیں، ھم نے آج خبر گیری نہ کی تو پھر ھماری خبر لی جائے گی