
۔زندگی جینا اور زندگی گزارنا الگ الگ معانی رکھتے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت زندگی کو محض گزارتی ہی ہے۔ جیسے جانور زندگی گزارتے ہیں، وہی صورتِ حال ہم میں سے اکثر لوگوں کی ہے۔ بے مقصد اور فضول زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی مثال ایسے ہی ہے کہ دنیا میں آئے، کھایا پیا، دن جاگ کر اور راتیں سو کر گزار لیں، وقت پورا ہوا اور چلے گئے۔ جبکہ بعض لوگ انتہائی خاص ہوتے ہیں۔ وہ جیون کا کوئی مقصد بنا لیتے ہیں اور پھر اس پر ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی زندگی کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ وہ ہر پہلو کو یکساں اہمیت دیتے ہیں اور یوں ایک جیون میں کئی جیون جی لیتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ صرف اپنے حصے کی شمع روشن کر جاتے ہیں بلکہ کئی مزید شمعیں بھی جلا جاتے ہیں۔ ایسی ہی ہمہ پہلو شخصیت محمد اسلم وٹو کی ہے۔ یہ بیک وقت سنیئر پریس رپورٹر، کالم نگار، اینکر پرسن، مسجد کے خطیب، سوشل ورکر، منشیات کے خلاف ہراول دستے کے مجاہد، دکھی لوگوں کے مسیحا، صحافتی تنظیموں کے منتظم اعلیٰ، ہونے کے علاوہ بھی اپنی شخصیت میں کئی دیگر پہلو رکھتے ہیں۔ محمد اسلم وٹو عرصہ 23 سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے عملی طور پر اپنے قلم اور کردار کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر نیت کھری اور ارادے نیک ہوں تو صحافت واقعی عبادت سمجھ کر کی جا سکتی ہے۔ وہ ”ن والقلم” کے لوگو کے تحت قومی اخبارات میں کالم بھی لکھتے ہیں۔ وہ معاشرے کے سلگتے ہوئے موضوعات پر جب کالم لکھتے ہیں تو ان کا قلم نشتر بن جاتا ہے۔ یہ نشتر زخمی کرنے والا نہیں ہوتا بلکہ ایک ماہر جراح کا نشتر ہوتا ہے جو معاشرے کے ناسوروں کا آپریشن کرتا ہے۔ وہ اپنی زبان سے بھی نشتر کا کام اس وقت لیتے ہیں جب اپنے پروگرام ”جواب دو” میں آئے مہمانوں خصوصاً سیاستدانوں سے تیکھے سوالات کرتے ہیں۔ نڈر اور بیباک اتنے ہیں کہ بڑی سے بڑی شخصیت سے بھی مرعوب نہیں ہوتے لیکن خدا خوفی کا یہ عالم ہے کہ ناداروں، مسکینوں اور ضعیف العمر بے کس لوگوں کے قدموں میں بیٹھ کر ان کے مسائل جان رہے ہوتے ہیں۔
محمد اسلم وٹو اپنے علاقہ کے لیے ایک برینڈ بن چکے ہیں۔ لوگ اپنی ضرورتوں اور مصیبتوں میں اب سیاسی ڈیروں یا وڈیروں سے رجوع نہیں کرتے بلکہ دادرسی کے لیے ان کی پہلی ترجیح محمد اسلم وٹو ہوتے ہیں جو احمد آباد پریس کلب کے دفتر میں ہمہ وقت حاضر رہ کر اپنی دستیابی کو یقینی بناتے ہیں۔ کسی غریب اور بے کس کا مکان گر جائے، کسی مجبور خاندان کو راشن کی ضرورت ہو یا کوئی مریض پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اپنا علاج کروانے سے قاصر ہو، سب ضرورت مند محمد اسلم وٹو سے رابطہ کرتے ہیں۔ وٹو صاحب بذاتِ خود کوئی بہت بڑی کاروباری یا متموّل شخصیت نہیں ہیں۔ وہ تو خود درویشانہ زندگی گزار رہے ہیں مگر مخیّر حضرات ان پر بے حد اعتماد کرتے ہیں۔ یہ اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر اپیل کر دیتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج تک شہر اور بیرونِ شہر کے علاوہ دیارِ غیر میں مقیم اس کے علاقے کے لوگوں نے اسے کبھی مایوس نہیں کیا۔ بہت بار ایسا بھی ہوا کہ کسی وڈیرے یا چوہدری کے ظلم و زیادتی کا شکار ایسے لوگ محمد اسلم وٹو کے پاس پہنچے جن کی دادرسی کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اسلم وٹو کی وجہ سے نہ صرف ان مظلوموں کو انصاف ملا بلکہ زیادتی کرنے والوں کو بھی آئندہ کے لیے سبق مل گیا۔ اسلم وٹو نے منشیات کے خلاف جہاد کو اپنی زندگی کا مشن بنا رکھا ہے۔ منشیات فروشوں کی طرف سے انہیں اکثر جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملتی رہتی ہیں مگر وہ ان دھمکیوں کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے۔ منشیات فروشوں کے خلاف ثبوت حاصل کرنے کے لیے انہوں نے کئی سٹنگ آپریشن کر کے ویڈیوز کی صورت میں منشیات فروشی کے ثبوت اکٹھے کر کے پولیس کو دیئے اور ان کے خلاف کامیاب کارروائیاں کروائیں۔ ان کے دستِ راست سیّد وقار حیدر جعفری بھی ان کا بہت بڑا سہارا ہیں جبکہ ان کی ٹیم میں قمر چوہدری، ساجد ثنائ، شمشاد بیگ، امتیاز احمد اور مرزا عاصم بیگ جیسے دلیر نوجوان شامل ہیں جو خدمتِ خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر مصروفِ عمل ہیں۔
محمد اسلم وٹو عرصہ دراز سے جامع مسجد میں بلامعاوضہ خطیب کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کی ذات ہر قسم کے گروہی، فرقہ وارانہ یا مذہبی تعصب سے پاک ہے۔ وہ تمام مسالک کے مذہبی اجتماعات میں بطور مقرّر شرکت کرتے ہیں۔ وسیع المطالعہ ہیں۔ اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں۔ صوفیانہ مزاج رکھتے ہیں۔ عیسائی کمیونٹی کے مذہبی تہواروں کے مواقع پر اپنے دوستوں کو ساتھ لے کر مٹھائی سمیت ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔
جہاں تک بطور سنیئر پریس رپورٹر ان کے کردار کا تعلق ہے تو ان جیسا متحرک، تیز رفتار اور باخبر رپورٹر شاید ہی کوئی دوسرا ہو گا۔ رات کو دو بجے بھی کوئی وقوعہ ہو جائے تو وہ فوراً وہاں پہنچتے ہیں۔ مقامی سطح پر کھیلوں کی براہ راست کوریج کے لیے ان کا چینل احمد آباد نیوز بہت مقبول ہے۔ اپنے فیس بک پیج کے ذریعے اسلم وٹو اپنے شہر منڈی احمد آباد کے علاوہ علاقے بھر کے حالات سے لوگوں کو باخبر رکھتے ہیں۔ ان کی بدولت دنیا بھر میں موجود منڈی احمد آباد کے باسی اپنے شہر سے ہر وقت جُڑے ہوئے اور حالات سے باخبر رہتے ہیںہر لمحہ متحرک یہ سیماب صفت شخص ایک زندگی میں بہت سی زندگیاں جی رہا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ اپنے شہر یا قصبے کی نسبت سے شہرت پا لیتے ہیں۔ محمد اسلم وٹو وہ شخصیت ہے جو اپنے شہر منڈی احمد آباد کی پہچان اور وجہِ شہرت بنا ہے۔ اس خوب صورت شخصیت کی آج 15 اپریل کو پچاسویں سالگرہ ہے۔ نوجوانوں سے بڑھ کر متحرک نوجوان محمد اسلم وٹو نے عملی طور پر پچاس سال میں پوری صدی جی لیا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ یہ دردمند انسان جینے کا حق ادا کر رہا ہے۔ اس نے صرف اپنے حصے کی شمع ہی روشن نہیں کی، مزید بہت سی شمعیں بھی جلا دی
ہیں۔ سالگرہ مبارک محمد اسلم وٹو، آپ واقعی ہمارے قابلِ فخر ہیرو ہیں۔