کالم

2023ء کی ”تلخ یادیں ” اور2024ء سے ”خوش کن امیدیں”

2023ء کا سورج تلخ یادیں سمیٹ 7روز قبل ڈوب ہے جب کہ2024ء کا سورج ”خوش کن امیدیں” لے کر طلوع ہو گیا ہے پاکستان کی معیشت پچھلے کئی سال سے بدحالی کا شکار ہے لیکن ”عمران پراجیکٹ ” نے جس تیزی سے پاکستان کی معیشت کو تباہی سے دوچار کیا ہے اس کے اثرات تاحال ختم نہیں ہو پائے عمران خان کے دور میں ریکارڈ قرضے لینے کے باوجود پاکستان دیوالیہ ہونے تک پہنچ گیا تھا شہباز شریف کی16ماہ کی حکومت دور میں آنے والے ”مہنگائی” کے طوفان نے لوگوں کو عمران خان کے دور کی مہنگائی کو بھلا دیا شہباز شریف حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لینا ہے جب سے نواز شریف کو ملکی سیاست سے آئوٹ کرنے کے منصوبہ پر عمل درآمد شروع ہو ا پاکستان کی معیشت کو ریورس گیئر لگ گیا جس کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کنگال ہو گیا بلکہ ڈیفالٹ ہونے کی سٹیج تک جا پہنچا مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی اس صورت حال نے عام آدمی میں ”ناراضی” کی لہر دوڑا دی 2023عمران خان کے لئے بھاری سال ثابت ہو وہ شخص جس نے اپنی28سالہ سیاسی زندگی میں جیل کا دروازہ نہیں دیکھا تھا کو5 اگست2023ء کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے ان کے 2024ء میں بھی باہر آنے کے امکانات نظر نہیں آتے لہذا آنے والے دنوں کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ پی ٹی آئی اپنی سیاسی زندگی کا مشکل ترین وقت گذا رے گی 9مئی2023 کے سانحہ نے بڑے بڑے جغادری لیڈروں کو عمران خان سے دور کر دیا ہے بظاہر پی ٹی آئی کا شیرازہ قائم ہے لیکن عملاً پارٹی ٹوٹ پھوٹ گئی ہے عام انتخابا ت میں بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے باوجود امیدواروں کی کمی نہیں پی ٹی آئی کے امیدوار انتخابی مہم میں حصہ لینے کی بجائے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں 2023کی تلخ یادوں میں دہشت گردی کے واقعات ہیں جن کو بھلایا نہیں جا سکتاُپاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات نے عام انتخابات کے انعقاد کو غیر یقینی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے لیکن عدلیہ اور ایسٹیبلشمنٹ نے ہر قیمت پر عام انتخابات کرانے کا عزم کر رکھا ہے شہباز شریف کی16ماہ کی مقررہ مدت میں ختم ہو گئی اس کی جگہ انعام الحق کی نگران حکومت نے لے لی نگران حکومت کے دور میں پٹرول کی قیمتیں کم ضرور ہوئی ہیں لیکن حکومت اس کے ثمرات عوام تک پہنچانے میں ناکام رہی ہے 2023ء جہاں حکومت کے لئے مشکل ساتھا وہاں پورا سال شدید ترین محاذ آرائی کی سیاست کی نذڑ ہو گیا محاذ آرائی نے دشمنی کی شکل اختیار کر لی ہے 9مئی 2023ء کے سانحہ نے ہمارے سیاسی سٹرکچر کو نقصان پہنچایا ہے 2018میں جو شخص ایسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کا” لاڈلا ” وہ اپنے غیر سیاسی طرز عمل کے باعث جیل کی ہوا کھا رہا ہے اسے مختلف نوعیت کے مقدمات کا سامنا ہے ہی اسے فوجی تنصیبات پر حملہ میں ملوث ہونے کے باعث فوجی عدالت میں کیسز کا سامنا کرنا پڑا ہے اگرچہ پوری دنیا مہنگائی کی لپیٹ میں ہے لیکن پاکستان میں مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی مشکل بنا دی ہے شہباز شریف حکومت کی سب سے بڑی ناکامی مہنگائی پر کنٹرول کرنے میںناکامی ہے مہنگائی نے ایک جماعت کے سوا تمام سیاسی جماعتوں کے لئے الیکشن مشکل بنا دیا ہے مہنگائی کی بنیاد رکھنے والالیڈر ” ہیرو” بن بیٹھا ہے شہباز شریف کی ”سپیڈ ” کام نہ آئی 2023ء مسلم لیگ (ن) بالخصوص اور حکومتی اتحاد بالعموم میں شامل دیگر جماعتوں کے لئے مسائل و مشکلات کا سال ثابت ہوا عمران خان جنہوں زندگی مے کبھی جیل نہیں دیکھی 5اگست2023سے جیل کی ہوا کھا رہے ہیں اگرچہ ان کو جیل میں تمام ”سہولیات” فراہم کر دی گئی ہیں لیکن اب ان کے صبر اور برداشت کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے وہ سرکاری افسران کو کھلم کھلا سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں یہی وہ مرحلہ ہے جس کا طاقت ور حلقوں کو انتظار تھا اب شاید عمران خان کے لئے زیادہ دیر جیل کاٹنا مشکل ہو جائے گا شاید عمران خان مزید جیل کاٹنے کی بجائے این آر او مانگ لیں ْ2024عام انتخابات کا سال ہے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے بعد منظوری اور مسترد کئے جانے کا مرحلہ مکمل ہونے کو ہے پی ٹی آئی کے2620امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جن میں چند بڑے لیڈروں سمیت 1996امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے اس لحاظ سے پی ٹی آئی بڑی تعداد کاغذات نامزدگی منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی ہے کچھ بڑے لیڈروں کے مسترد کئے گئے کاغذات نامزدگی ایل میں منظور ہو گئے ہیں لیکن عمران خان اور شاہ محمود قریشی اور کچھ دیگر لیڈروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے جانے پر شور شرابہ کر رہی ہے اور طے شدہ حکمت عملی کے تحت عام انتخابات کی شفافیت کو مشکوک بنا رہی ہے 2024عام انتخابات کا سال ہے انتخابات کے نتیجے پر بننے والی جماعت یا جماعتوں پر مشتمل حکومت کو بے پناہ مسائل کا سامنا ہو گا پی ٹی آئی کو اس بات کی خوش فہمی ہے الیکشن ڈے پر اس کا ووٹر نکلے گا اور حیران کن نتائج دے گا اور سب کچھ الٹ پلٹ کر دے گا اس میں شک و شبہ نہیں ملک میں ایک بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے ووٹرز موجود ہیںسیاسی حلقوں میں سوال زیر بحث ہے کیا سوشل میڈیا پر عمران خان کی جنگ لڑنے والا گرم لحاف اوڑھے ووٹر مبینہ دھاندلی کیخلاف کسی ملک گیر تحریک کا حصہ بننے کا عزم و حوصلہ رکھتا ہے اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ عمران خان کے پاس انتخابی محاذ پر مضبوط ٹیم نہیں رہی پی ٹی آئی کی بچی کھچی قیادت کے پاس ”بلے ”کا نشان ، ”نک دا کوکوکا” اور قیدی 804کے نغموں کے سوا کچھ نہیں بچا جن کوسن کر پی ٹی کے کارکن جھوم رہے ہیں 2024میں بھی پاکستان آئی ایم ایف کے شکنجے میں رہے گا آئی ایم ایف کے قرضے اتارنے کے لئے مزید قرضے لینے پڑیں گے جب تک پاکستان کی درآمدات اور بر آمدات میں توازن پیدا نہیں ہوتا پاکستان کی معیشت مستحکم نہیں ہو گی عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو سب سے بڑا چیلنج مہنگائی پر کنٹرول کرنا ”،معیشت کو مستحکم بنیادوں پر معیشت استوار کرنا اور دہشت گردی ”کا قلع قمع کرنا ہے 2024کو مفاہمت اور رواداری کے سال طور پر منانا چاہیے چونکہ عمران خان کے لئے موجودہ سیٹ اپ میں گنجائش کم ہو گئی ہے لہذا انہیں مین سٹریم میں رکھنے کے لئے برداشت کی پالیسی اپنانا ہو گی یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ عمران خان بھی 8فروری2024کو قائم ہونے والی حکومت کو اسی طرطرح قبول کرلینا چاہیے جس طرح جولائی2018میں کے انتخابات میں بڑے پیمانے ہونے والی دھانلیوں کے خلاف تحریک چلانے سے گریز کیا جمہوریت کو ظاقت ور حلقوں کی گرفت سے نکالنے کے لئے جمہوری نظام کے استحکام کے لئے مل جل کر کام کرنا ہو گا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button