پاکستان میں پولیو مہم کا زور شور تو بہت سنائی دیتا ہے ،لیکن اس کے خاتمے کی کوششیں ہر گزرتے دن کے ساتھ ماند پڑتی محسوس ہو رہی ہیں، کیونکہ پاکستان کے مختلف اضلاع سے اکٹھے کیے گئے چودہ حولیاتی نمونوں میں ایک بار پھر پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، ہمیں ہر چند سال بعد پولیو فری پاکستان کی منزل کے قریب پہنچ کر ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہم اپنی حکمت عملی پر ازسرنو غور کریں اور ان وجوہات اورعوامل کی نشاندہی کر کے ان کا تدارک کریں جو کہ پاکستان میں پولیو کے خاتمے میں تاخیر کا باعث بن رہے ہیں۔
یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ انسان کو عمر بھر کیلئے معذور کردینے والے موذی مرض پولیو کا دنیا بھر میں خاتمہ ہو چکا ہے، لیکن پاکستان دنیا کے ان تین ملکوں میں شامل ہے کہ جہاں اس بیماری کا وائرس ابھی تک موجود ہے،ماہرین کے مطابق لوگوں میں آگاہی کی کمی اور حکومت کی عدم توجہ کے باعث تیس فیصد بچوں کو مکمل حفاظتی ٹیکے ہی نہیں لگتے ہیں ،ایک طرف حفاظتی ٹیکے نہ لگنے سے مختلف امراض پھیل رہے ہیں تو دوسری جانب پو لیو ویکسین پلانے کا ٹارگٹ پورا نہ کرنے کے باعث پولیو وائرس کا خاتمہ نہیں ہوپارہا ہے ، اس لیے ایک بار پھرپشاور کے تین، حیدر آباد کے دو اور کراچی کے دو نمونوں میں پولیو وائرس کا پایاجانا حکومت کے ساتھ محکمہ صحت کی کوتاہیوں کی نشاندہی کررہا ہے۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ ہمیںبار بار پولیو فری پاکستان کی منزل کے قریب پہنچ کر ناکامی کا سامنا کرنا پڑرہاہے اور ہم اپنی حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لے رہے ہیں نہ ہی اپنی اُن کوتاہیوں کا ازالہ کررہے ہیں کہ جس کے باعث پولیو کے خاتمے میں تاخیر ہو رہی ہے،اس کی چار مندرجہ ذیل وجوہات ہیں، مربوط نظریہ اور متحد حکمت عملی میں ناکامی، قومی، صوبائی ،ضلعی اور یو سی سطح پر انتظامات میں ناکامی،موثراوراعلیٰ معیار پر توجہ دینے میں ناکامی، اس مہم کی کامیابی کو روک لیتی ہیں، قبائلی علاقوں میں لوگوں کی سوچ اور شدت پسندی بھی ناکامی کی ایک بڑی وجہ بن رہی ہے۔
یہ بات تو واضح ہے کہ پولیو پر قابو نہ پانے کی ایک بڑی وجہ مضبوط ومربوط حکمت عملی کی عدم دستیابی رہی ہے، ایک طرف حکومت کے پاس پولیو ٹیموں کی کمی ہے تو دوسری جانب گھر گھر جاکر پولیو سے بچائوکے قطرے پلانے والے سٹاف کی محض ایک یا دو دن کی ٹریننگ ہوتی ہے ، اس کی وجہ سے وہ پسماندہ علاقوں میں بچوں کے والدین کو مطمئن نہیں کر پاتے اور والدین کا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں،اس کے ساتھ انتظامی معاملات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، تقرریوں میں بے ضابطگیوں، عزم و ہمت میں اضافے ، بد عنوانی کے خاتمے اور اسٹریٹجک فریم ورک پر نیک نیتی سے عمل درآمد کئے بغیر ملک کو ایسی بیماریوں سے نجات دلانا انتہائی مشکل دیکھائی دیے رہا ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ گزشتہ چند سال سے پاکستان میں پولیو کیس رپورٹ ہونے کی شرح انتہائی کم رہی ہے، لیکن ایک بار پھر مختلف علاقوں کے پانی کے نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کے شواہدملنا کوئی اچھی خبر نہیں ہے ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان سے یہ بیماری ابھی پوری طرح ختم ہوپائی ہے نہ ہی اس کے خاتمے پر سنجیدگی دکھائی جارہی ہے، اس صورتحال میں جہاں ملک کے اندر انسداد پولیو کی سرگرمیوں کو پوری سرگرمی سے جاری رکھنے کی ضرورت ہے، وہیںہمسائیہ ممالک سے اس وائرس کی پاکستان منتقلی پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے ،اس کی بڑی وجہ ہے کہ حال ہی میں افغانستان میں ملنے والے پولیو وائرس کی جینیاتی رپورٹ نے اس کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان اور راولپنڈی سے ثابت کیا ہے ، اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پولیو وائرس کی دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان نقل و حرکت موجود رہی ہے۔
یہ سب جاننے کے بعد ضروری ہو جاتا ہے کہ سرحدوں کی نقل و حرکت پر جہاں کڑی نظر رکھی جائے ،وہیں اندرونی طور پر بھی ایسے اقدامات کیے جائیں کہ جس سے پولیووائرس کے خاتمے کو یقینی بنایا جاسکے ، اس کیلئے عوام کو ویکسی نیشن سے متعلق مکمل شعور و آگاہی فراہم کرنا لازم ہے، اس کے ساتھ آلودہ اور گندے پانی کا مسئلہ بھی حل تلاش کرنا ہوگا،جوکہ اس کا سب سے بڑا سبب بنتا ہے،پو لیو سے بچائوکا واحد طریقہ پولیو ویکسین یعنی پولیو سے بچائوکے قطروں کا استعمال اور صفائی ستھرائی ہے، ہمیں فری پو لیو ویکسین مل رہی ہے ،اس کے باوجود پو لیو کا خاتمہ نہیں کر پارہے ہیں توپو لیو کے اسباب کا سد باب کیسے کر پائیں گے ،اس لیے ضروری ہے کہ حکومت صرف آگاہی مہم چالانے پر ہی زور نہ دیے ،بلکہ پانچ سال تک کے ہر بچے کی ویکسی نیشن یقینی بنانے کے ساتھ عام عوام کیلئے صاف پانی کی دستیابی بھی یقینی بنائے ،حکومت جب تک پولیو ویکسی نیشن ڈور ٹوڈور یقینی بنانے کے ساتھ پولیو کے اسباب کے سد باب کو بھی یقینی نہیں بنائے گی ،پو لیو فری پا کستان کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔
0 51 3 minutes read