کالم

نفرت اور تقسیم سے پاک سیاست کی خواہش

پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے لاہور میں منعقدہ اجلاس میں آصف علی زرداری نے بلاول بھٹو زرداری کا نام وزیراعظم پاکستان کے لیے تجویز کیا جس کی توثیق سینڑل ایگزیکٹو کمیٹی نے کر دی۔اجلاس کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے اس پر بیان جاری کرتے ہوئے لکھا کہ ‘میں پاکستان کے وزیراعظم کے لیے اپنی پارٹی کی نامزدگی کو قبول کرتا ہوں۔ آٹھ فروری کو ہمیں نفرت اور تقسیم کی سیاست کو ختم کرنا ہو گا۔ خدمت کی سیاست اور ملک میں اتحاد ہمارا منشور ہے۔اس سے قبل گزشتہ ماہ شیخ ایاز میلے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا نفرت اور تقسیم کی سیاست عروج پر پہنچ چکی، اس بخار کو توڑنا ہوگا۔چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ مجھے شیخ ایاز میلے میں آکر خوشی ہوئی ہے، یہ9 واں میلہ ہے جو ایک بڑی کامیابی ہے، اگر ہم شاعر، آرٹسٹ اور کلچر کو اجاگر نہ کریں گے تو پاکستان نہیں چل سکے گا، اگر ہمیں جدید ماڈرن ملک بنانا ہے اور مسائل اور خطروں کا مقابلہ کرنا ہے اور دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو تاریخ اور ثقافت کو اجاگر کرنا ہوگا۔بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ظلم بہت ہوا، سب سے بڑی زیادتی یہ نہیں کہ خود اپنے ہاتھوں سے بڑے لیڈروں کو قتل کیا گیا، بڑا ظلم یہ ہے کہ اپنے ہاتھوں سے تاریخ، ثقافت اور زبان کو دبایا، نوجوان قلم کے بجائے ہاتھوں میں بندوق تھام لیتے ہیں، میں چاہتا ہوں۔پاکستان کو اس سمت لے جائیں جہاں تاریخ اور ثقافت کو اجاگر کریں۔چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ میں نوجوان وزیر خارجہ رہا ہوں، میرا خواب اور وژن ہے کہ پاکستان کا بچہ بچہ، کشمیر اور پنجاب کے نوجوان شیخ ایاز کو جانیں جیسے سندھ کے نوجوان علامہ اقبال کو پہچانتے ہیں، اگر ایسا نہیں کریں گے تو ہمارا کامیاب ہونا ناممکن ہے، ملک کے شاعر دانشور اور نوجوان جاگ جاتے ہیں تو آپ کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔بلاول بھٹو زرداری تسلسل سے کہہ رہے ہیں کہ انتہا پسندی کی سوچ کو ایک حد تک روکا گیا ہے، اگر ہر سیاسی جماعت ایک دوسرے کو غدار، کافر کہے گی تو کیسے ملک کو چلائیں گے، عوام کی مدد سے ہائپرپولرائزیشن کے بخار کو توڑنا پڑے گا، سیاست کا مقصد ذاتی دشمنی نہیں ہونا چاہیے، پیپلزپارٹی میں صلاحیت ہے سب کو ساتھ لیکرچل سکتی ہے۔ کچھ لوگ چاہتے ہیں تقسیم اور نفرت پروان چڑھے لیکن ہمیں مل کر تمام خطرات کا مقابلہ کرنا ہے، اگر ہم ایسا کریں گے تو دمادم مست قلندر اور ہو جمالو کا نعرہ لگا کر مقابلہ کرسکتے ہیں، تقسیم میں نہیں اتحاد میں جیت ہے، اگر نوجوان متحد ہوگئے تو تقسیم کی سیاست کرنے والوں کو شکست ہوگی۔روایتی سیاست کو دفن کرنا ہوگا ورنہ ملک نہیں چلے گا۔ نوجوانوں کے ہاتھوں میں گولی اور بندوق کے بجائے قلم تھمانا ہوگا، ہم نے پاکستان کو ایک جدید ملک بنانا ہے، ملک کے دانشور، شاعراور نوجوان جاگ جائیں گے تو ان کا راستہ پھر نہیں رک سکتا۔ہمیں متحد ہونا ہے۔
قارئین کرام!سطور بالا میں بلاول بھٹو کے بیانات کو تفصیل سے دھرانے کامقصد نفرت اور تقسیم کی سیاست سے پاک عملی سیاست کے آغاز کی خواہش،زمینی حقائق اورماضی سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کے عزم کا خیر مقدم کرنا ہے۔سیاست بہترین عمل ہے لیکن ہمارے معاشرہ میں سیاست کو تقسیم کا ذریعہ بنایا گیا۔لسانیت کی بنیاد پر، قومیت، مذہب اور عقیدہ کو لیکر تقسیم کو بڑھا کر ووٹ کا حصول اہم رہا جبکہاسلام میں سیاست اس فعل کو کہتے ہیں جس کے انجام دینے سے لوگ اصلاح سے قریب اور فساد سے دور ہوجائیں۔ اہل مغرب فن حکومت کو سیاست کہتے ہیں۔ امور مملکت کا نظم ونسق برقرار رکھنے والوں کوسیاستدان کہا جاتا ہے۔سیاست دان (Politician) اس شخص کو کہا جاتا ہے جو سیاست میں حصہ لے کر عوام اور ریاست کی فلاح کو ملحوظ رکھتا ھے۔ معاشرے کو تقسیم سے بچا کر اسے کسی نظریہ کے ساتھ مربوط کرتا ھے۔ کنفیوشس نے کامیابی کیچار بنیادی نکات پیش کیے تھے۔ ادب،اخلاقی رویہ، اعمال، وفاداری و ذمہ داری۔ آج دنیا کے بہترین معاشرے اور ریاستیں ان چار ستونوں پر کھڑی ہیںان تمام حقیقتوں سے آگاہی کے باوجودوطن عزیز میں سیاست کا عجب رنگ ہی نظر آیا۔
تمام مسائل کا اگر گہرائی سے مشاہدہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اقتدار کی خواہش نے سیاست کے معنی بدل دیئے۔عوام کی مرضی و منشا کے برخلاف حکومتیں قائم ہوئیں اور سیاستدان بنائے گئے۔ہماری بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہم شخصیت پرستی کے تباہ کن رجحان میں شدت سے مبتلا ہیں۔ہم یہ نہیں دیکھتے اور پرکھتے کہ کیاکہا جارہا ہے۔بلکہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ کون کہہ رہا ہے۔اندھی تقلید کرتے ہیں اور اطاعت کو نظریہ سمجھتے ہیں۔میری التجا ہے کہ ہر بات کو دیے گئے حوالہ کی کسوٹی پر خود جانچئیے۔مسائل کے حل کو اہمیت دیجئے نہ کہ کسی فرد یا جماعت کی کامیابی میں اپنی توانائیاں ضائع کریں۔اختلاف راِِئے کو دشمنی کی سطح پر نہ لے جائیں۔معاشرے میں تقسیم کو کم سے کم کرنے کے لیے ایک دوسرے کو راستہ دیں تاکہ غیر سیاسی طاقتوں اور نفرت پھیلانے والوں کا راستہ روک سکیں۔بلاول بھٹو نے حالات کا صیحیح احاطہ کیا ہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عمل کی طرف بڑھیں۔سیاست میں کامیابی کاراز بیدارمغزی اورحقیقت کے ادراک میں ہی ہے۔8فروری کو سیاستدانوں کے ساتھ عوام کا بھی امتحان ہے۔سیاست کو درست راستہ پر ڈالیں تاکہ منزل کی طرف گامزن رہیں۔اختلاف رائے صرف سوچنے کا اپنا انداز ہوتا ہے۔
تقسیم تباہی اور بربادی کا راستہ ہے۔ اس طرز سوچ کو تبدیل صرف بہتر عمل سے کیا جاسکتا ہے اس لیے عمل پر توجہ دیں۔بہتر سوچ اور بیان کو سراہنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا انتشار نفرت انگیز گفتگو سے اجتناب اور اسکو مسترد کرنا ضروری ہے۔بہترین معاشرہ کی تشکیل اور مسائل کے حل کے لیے بنیادی فیصلہ ہم نے کرنا ہے رہنما صرف منزل دکھا سکتے ہیں اور لائحہ عمل تشکیل دے سکتے ہیں۔ عمل کی ذمہ دار صرف لیڈر شپ نہیں یہ ذمہ داری ہر پاکستانی پر عائدہوتی ہے۔عہد کریں کہ قائداعظم کا پاکستان بنائیں گے اورایک جمہوری اور فلاحی ریاست قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button