کالم

ملک کا ناکارہ معاشی ماڈل عیاش اشرفیہ عالمی بنک

کا کہنا ہے کہ پاکستان کا معاشی ماڈل ناکارہ ہوچکا ہے معاشی ترقی کے فوائد اشرافیہ تک محدود ہیں’ پاکستان اپنے ساتھی ملکوں سے پیچھے رہ گیا ہے- غربت میں ہوئی کمی پھر سے بڑھنے لگی ہے ماضی میں ہوئی غربت میں خاطر خواہ کمی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے’ یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہیے کہ پالیسی بدلنا ضروری ہے قرضوں کی لاگت اور آمدنی کے ذرائع پائیدار نہیں’ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے’ زرعی اور توانائی شعبوں کی خرابیاں دور کی جائیں ورلڈ بنک کے کنٹری ڈائریکٹر ناجی بن حسائن کا مزید کہنا ہے کہ توانائی ریفارم کا محول مالی استحکام ہو’ بہتر تقسیم’ نجی شعبہ اور مہنگی کے بجائے متبادل بجلی بناننے پر توجہ ہو’ بظاہر پالیسی بدلنے کی سوچ پر اتفاق دکھائی دیتا ہے’ تجربہ بتاتا ہے کہ ریفارمز کو روکا جاتا ہے’ پاکستان کے پاس روشن مستقبل کے لئے ایک ہونے کا موقع ہے حکومتی اخراجات کو بھی اصلاحات کی ضرورت ہے’ آزاد معیشت اور نمو سے معیار زندگی بہتر ہوگا’ کاروباری ماحول خصوصا چھوٹے کاروبار کو بہتر ماحول چاہیے عالمی بنک نے پاکستان کے معاشی نظام میں موجود جن نقائص کی نشاندہی کی ہے ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ارباب اختیار واقتدار ان سے لاعلم ہیں لیکن وہ ان نقائص سے صرف نظر کئے ہوئے ہیں-ملک کو مہنگائی، معاشی بدحالی،اندرونی اور بیرونی سازشوں، سیاسی عدم استحکام، دہشت گردی، اسمگلنگ، ملکی معیشت پر بوجھ بننے والے سرکاری اداروں کی نجکاری، توانائی کے بحران سمیت کئی چیلنج درپیش ہیں وطن عزیز کے ہر شعبے میں سرمایہ کاری کی زبردست گنجائش موجود ہے مگر ہم خطے کے دیگر ممالک کی نسبت اس لئے پیچھے ہیں کہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو جو تحفظ اور سرکاری معاملات میں سہولت درکار ہے وہ فراہم نہیں کی جاسکی’پاکستان کو درپیش اندرونی معاشی بگاڑ نے سیاسی استحکام کو ہی نہیں بلکہ بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیتوں کو بھی متاثر کر رکھا ہے نگران حکومت کی جانب سے رواں مالی سال کے بجٹ پر ثابت قدمی سے عمل’ توانائی کی قیمتوں میں مسلسل ایڈ جسٹمنٹ اور زرمبادلہ کی مارکیٹ میں غیر ملکی کرنسیوں کے بہائو سے مالیاتی اور بیرونی دباو میں کمی آئی ہے جس کی وجہ سے آئندہ چند ماہ میں مہنگائی کی شرح میں کمی متوقع ہے تاہم پاکستان کو نمایاں طور پر بیرونی خطرات کا بھی سامنا ہے جس میں جغرافیائی’ سیاسی کشیدگی’ اشیا کی قیمتوں میں اچانک اضافہ اور عالمی مالیاتی شرائط کا مزید سخت ہونا شامل ہیں عالمی مالیاتی ادارے مطالبہ کر رہے ہیں پاکستان کی معیشت کو دستاویزی شکل دی جائے، گردشی قرضے کم کئے جائیں، اشرافیہ کی مراعات اور حکومتی اخراجات میں کمی کی جائے، نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری کی جائے، امیر پر ٹیکس اور غریبوں کو ریلیف دیا جائے، انرجی اور ٹیکس سیکٹر میں اصلاحات لائی جائیں، اسمگلنگ اور کرپشن پر قابو پایا جائے ملک کی مجموعی قومی پیدوار میں ٹیکس آمدنی کا حصہ جنوبی ایشیائی خطے میں اوسط سے کم ہے قومی آمدنی میں ٹیکس آمدنی کا حصہ بڑھانے کے لئے ٹیکس چوری کو روکنے اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لئے معیشت کا دستاویزی ہونا ضروری ہے ملک میں متعدد کاروبار ایسے ہیں جہاں لین دین کا کوئی مصدقہ ریکارڈ حکومتی اداروں کے پاس موجود نہیں اس لئے ٹیکس چوری کے راستے کھلے ہیں ماضی میں ان شعبوں کی دستاویز سازی کے لئے حکومتوں نے بے دلی سے کام کیا اور ہلکی مزاحمت پر پسپائی اختیار کر لی گئی حکومتیں بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے اور پہلے سے ٹیکس دینے والے شعبوں پر مزید ٹیکس لگا کر وصولیاں بڑھانے میں مصرو ف رہی ہیں یوں معیشت کا ایک حصہ ٹیکس سے بدستور محفوظ ہے جبکہ دوسری جانب تنخواہ دار طبقے یا پروفیشنلز پر ٹیکسوں کی شرح میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے پٹرول ‘ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے مہنگائی کا سونامی آیا ہوا ہے ٹیکس در ٹیکس لگائے جانے کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں میں کمی آرہی ہے اگر ماضی میں حکومتوں نے معیشت کو دستاویزی بنانے اور تمام شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے خلوص نیت کے ساتھ اقدامات کئے ہوتے اور معمولی مزاحمت پر پالیسیوں سے پسپائی اختیار نہ کی ہوتی تو آج توانائی کے شعبے پر بھاری ٹیکس اور اشیائے ضروریہ پر جی ایس ٹی کی18فیصد شرح کو کم کرنا ممکن ہوتا مگر بد قسمتی سے حالات یہ ہیں کہ معیشت کا ایک بڑا حصہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہے اور ایک چھوٹا حصہ ملکی معیشت کا سارا بوجھ اٹھا ر ہا ہے-پاکستان میں بر سر اقتدار آنے والی تمام حکومتوں نے اگر وسائل کا بہتر استعمال کیا ہوتا’ غیر پیداواری اخراجات پر کنٹرول کیا ہوتا’ آمدن اور اخراجات میں توازن رکھا جاتا ‘ ٹیکس کا نظام بہتر بناتے’ سرکاری اداروں کی کارگردگی بہتر بنانے پر توجہ دی جاتی’ ریاست کے زیر انتظام پیداواری اداروں کی نجکاری کے بجائے انہیں منافع بخش ادارے بناتے تو یقینا آج حالات مختلف ہوتے رواں برس اگست میں تحلیل ہونے والی حکومت ملک کو دیوالیہ پن بچانے کی دعویدار ہے
لیکن ان دعوئوں کی حقیقت یہ ہے کہ یہ حکومت ملک کو معاشی زبوں حالی سے نکالنے اور استحکام کی جانب گامزن کرنے کے لئے ایک مربوط معاشی پالیسی بھی نہ سکی-یہ کسی ایک حکومت کا المیہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بر سر اقتدار رہنے والی کسی بھی حکومت نے ملک کو ایک مستحکم معاشی پالیسی دینے کی جانب توجہ مرکوز نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم قرضوں پر انحصار کرنے والی معیشت بن کر رہ گئے ہیں پاکستان اربوں ڈالر کا مقروض ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ قرضوں کی واپسی ناممکن ہوچکی ہے بلکہ ان پر عائد سود کی ادائیگی بھی نہیں ہو پا رہی قرض کا طوق عوام کے گلے میں ڈال دیا گیا ہے-عوام کولہو کے بیل کی طرح دن رات کام کرتے ہیں حکمران طبقات ان پر سوار ہوکر حکومت کرتے ہیں اور قرض لے کر عیاشیاں کر رہے ہیں ارباب اختیار واقتدار یہ سوچنے اور سمجھنے کے لئے تیار نہیں کہ اہم یا مشکل فیصلے محض پٹرول’ بجلی یا گیس کی قیمت بڑھانا ‘ عوام کو مختلف مدات میں دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ کرنا اور ٹیکسوں کی بھرمار کرکے غریبوں کی جیبوں سے پیسے نکالنانہیں ہوتے’ کسی بھی حکومت کے لئے تو یہ بہت آسان فیصلے ہوتے ہیں بس عوام کے لئے مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں مشکل فیصلہ ایک آزاد’ جامع اور مضبوط ومربوط معاشی پالیسی ‘قوانین کو شفاف اور غیر مبہم بنانا ہوتا ہے ملک کی معیشت کی سانسیں آئی ایم ایف کی محدود امداد کے بل بوتے پر چل رہی ہیںجس میں عوامی سہولت کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے صنعت اور خدمات کے شعبے روز بروز تنزلی کا شکار ہیں ملک کو درپیش بحرانوں نے سب سے زیادہ کاروباری ‘ تنخواہ دار اور محنت کش طبقے کو متاثر کیا ہے اس وقت پاکستان کے عام شہریوں کے لئے معیشت ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے ہماری سیاسی جماعتوں اور حکومتی اقتصادی ماہرین کو یاد رکھنا چاہیے کہ بلا واسطہ ٹیکسوں کے ذریعے عام آدمی کی زندگی مشکل بنانے اور جو شعبے پہلے ہی ٹیکس دے رہے ہیں ان پر مزید ٹیکس مسلط کرکے کام چلانے کا وقت گزر چکا ہے ہمیں معاشی غلامی کی زنجیروں کو کاٹ پھینکنے کے لئے سخت فیصلے کرنے اور معیشت کی بنیادوں کو درست کرنا ہوگا جب تک معاشی اصلاحات پر توجہ اور آسان وسہل فیصلوں کی بجائے سخت فیصلوں اور معاشی حالات کے متقاضی فیصلے نہیں ہوں گے اور ان پر عزم صمیم کے لئے عمل درآمد نہیں ہوگا معاشی اوقتصادی بحران سے نکلا نہیں جاسکتا-مسئلے کا بہتر حل ملک میں زرعی، صنعتی اور کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ کرنے میں ہے جس کیلئے سطحی کی بجائے پائیدار اور عام آدمی کے مفاد میں فیصلے کئے جانے چاہئیں۔ توانائی کی قیمتیں بڑھا کر غریب کی مشکلات میں اضافہ کرنا معاشی مسائل کا حل نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button