کالم

ذوالفقار علی بھٹو ایک دور ایک داستان۔۔۔۔تاریخ ساز شخصیت۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیر اعظم پاکستان شہید زولفقار علی بھٹو کی سالگرہ 5جنوری 2024کو منائی گئی ۔ یہ انکی 96وین سالگرہ تھی۔ تاریخ کے آئینہ میں انکے ساتھ ہونے والے مظالم اور انکے خاندان کو شہید کئے جانے کے واقعات تو موجود ہیں لیکن زوالفقار علی بھٹو کتنی تاریخ ساز شخصیت تھے اسکا احاطہ اور انکے کارناموں کا ذکر کرنا ضروی سمجھتا ہوں ۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو عالمی سیاست کا وہ درخشاں ستارہ ہیں ۔ جو سندھ میں پیدا ہوئے ۔ انکے کردار اور بہترین صلاحیتوں کی بنیاد پر پاکستان ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے ساتھ ساتھ تیسری دنیا کے مظلوم ، محروم اور انسانوں کے بنیادی حقوق سے محروم افراد کی آواز بنے ۔ 5جنوری 1928کو لاڑکانہ میں پیدا ہونے والے قائد عوام پاکستان کی تاریخ ساز کرشمہ ساز شخصیت بنے۔ انہوں نے عالمی سطح پر پاکستان کو بہترین ریاست ثابت کیا۔ انکی علم و ہنر، دانشمندانہ ، فکری ، نظریاتی سیاست ، دور اندیشی ، سے دنیا بھر کی سماجی و استعماری قوتوں کو شکست دی ۔ لیکن انکی پاکستان کو اسلامی طاقت اور ایٹمی طاقت بنانے کی کاوشوں کو بین الاقومی طاقتوں نے قبول نہ کیا اور میر جعفر و میر صادق سمیت پاکستانی ڈکٹیٹرز اور آمروں نے بالخصوص جنرل ضیاء الحق کے زریعے ایک جھوٹے مقدمے کے زریعے عدالتی قتل کراکے پاکستان کی جمہوریت پر شب خون مارا۔ صرف 53سال کی عمر میں انہیں دنیا بدر کردیا گیا۔ کم زندگی میں بھی زوالفقار علی بھٹو اتنے تاریخ ساز کام کرگئے۔پیپلز لیبر بیورو سندھ کے صدر حبیب جنیدی نے ایک محفل میں کہا تھا کہ لوگ کچھ بھی کہتے ہوں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ قائد عوام کا سب سے بڑا قصور یہ تھا کہ انہوں نے آمریت کا سینہ چیر کر عوام میں شعور بیداری کی لہر ڈالی پیپلز پارٹی بنائی جو ملک کی پہلی جماعت تھی جس نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا اور عوام کو بتایا کہ انکے حقوق کیا ہیں ؟ یہ حقیقت ہے کہ قائد عوام نے عوام میں سیاسی شعور دیا اور وہ آج بھی قائم ہے۔ انہوں نے غریب مزدور ، محنت کش، کسان ، دانشور، طالب علموں میں ایک نئی روح پھونکی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھٹو شہید نے اقوام عالم سے ایک بیرسٹر، سیاست داں ، و جبر کے خلاف مزاحمتی سیاست کی بنیاد رکھی۔ زوالفقار علی بھٹو اپنے والد سر شاہنواز بھٹو کی اکلوتی اولاد تھے۔ Catherdal ہائی اسکول بمبئی ، یونیورسٹی آف کیلی فورنیااور بارکلے یونیورسٹی سے سیاسیات اور قانون کی تعلیم حاصل کی۔ پاکستان میں اسکندر مرزا کی کابینہ میں کامرس منسٹر، بعد ازاں ایوب خان کی کابینہ میں کی کابینہ میں بطور وزیر خارجہ شامل ہوئے۔ اس حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اقوام عالم میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ چین ، ایران اور ترکی جیسے ممالک سے دوستی کا نیا باب رقم کیا۔ یہ دوستی آج بھی قائم ہے۔ ایوب خان کے ساتھ رہ کر بہت سے امور دیکھتے ہوئے اختلافات ہوئے وہ عوام کی بے لوث خدمت کرنا چاہتے تھے۔ کابینہ سے مستعفی ہوئے اور 30نومبر 1967کو لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ پاکستان بھر کے عوام نے سیاسی شعور ملنے کے بعد مکمل انکی حمایت کی اور وہ 1970میں وزیر اعظم بن گئے۔ وہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم تھے۔ پوری منتخب اسمبلی کو ملا کر پاکستان کا پہلا متفقہ آئین 1973میں بنایا ۔ جو آج تک پاکستان کا راہنما آئین ہے اسی میں ترامیم کی جاتی ہیں ۔ عوام کو بنیادی انسانی حقوق دلوائے۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیتے ہوئے اسکے مسودہ پر دستخط کئے۔ قادیانی اسوقت بہت سے اہم منصب پر فائز تھے۔ بھٹو صاحب کو دھمکیاں بھی مل رہی تھیں۔ لیکن وہ نہیں ڈرے اور بولڈ اسٹیپ لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کی معاشی ، اقتصادی ، اور دفاعی ترقی و خوش حالی اور پاکستان کو مضبوط ریاست بنانے کے لئے متعدد قابل ذکر اقدامات کئے۔ پاکستان آرڈیننس فیکٹری واہ، ہیوی میکینیکل کمپلیکس ٹیکسلا، ایرو ناٹیکل کمپلیکس کامرہ ، بھٹو شہید کے دفاعی محاظ پر شاندار کام ہیں۔ انہوں نے دفاعی مضبوطی کے لئے ٹینک ، جہاز، توپیں ۔، جو پاکستان بنا رہا تھا دنیا بھر میں فروخت کیں ۔ ملکی وسائل میں اضافے بالخصوص زر مبادلہ بڑھانے کے لئے زبردست کام کئے۔ ان اداروں کو مزید مستحکم کرنے کے لئے پیپری کے مقام پر 1973میں روس کے تعاون سے پاکستان کی پہلی اسٹیل مل کی بنیاد رکھی۔ فرانس کی مدد سے پاکستان میں نہ صرف پہلا ایٹمی ری ایکٹر قائم کرکے بجلی گھر قائم کیا۔ بعد ازاں ایٹمی قوت بننے کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر عبالقدیر خان کے ساتھ ملکر ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ اس پر سخت درعمل آیا اور اسے استعماری قوتوں نے اسلامی بم کا نام دیا۔ خود ڈاکٹر عبدالقدیر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہم بہت پہلے ایٹمی طاقت بن جاتے لیکن جنرل ضیاء الحق نے اجازت نہ دی۔ جو اس بات کی تصدیق ہے کہ بھٹو صاحب یہ کام کرچکے تھے۔ وہ اسلامی دنیا کی مضبوطی چاہتے تھے۔ انکا کہنا تھا کہ اسلامی ممالک کے وسائل مسلم امہ کی ترقی ، خوشحالی ، فلاح و بہبود، اور دفاع پر خرچ ہوں ۔ اس عظیم الشان مقصد کے لئے بھٹو شہید نے 1974میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اور اس میں تمام اسلامی ممالک کو اپنے باہم تمام تر اختلافات کو بھلا کر مسلم امہ کی بہتری اور پائیدار ترقی کیے لئے قائل کیا۔ مسلم امہ کے وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لئے اپنا اسلامی بنک قائم کرنے اور اسکا صدر دفتر پاکستان میں قائم کرنے اور تمام سرمایہ کاری اسی بنک کے زریعے کرنے اور استعمال کرنے پر راضی کیا۔ یہ ایک ایسا شاندار پروجیکٹ تھا کہ اگر پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا تو اسکی مدد سے عالم اسلام سامراجی نظام کے چنگل سے نکل جاتا۔ ہر ملک خوشحالی حاصل کرتا۔ بلکہ مغرب اور امریکہ جیسے استعماری قوتوں کا بیڑا غرق ہوجاتا۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل ، ایران کے رضا شاہ پہلوی، لیبیا کے صدر قذافی ، فلسطین کے صدر یاسر عرفات، مصر کے صدر انورالسادات، عراق کے صدر صدام حسین ، شام ، افغانستان ، اور تمام اسلامی ممالک نے اتفاق کیا۔ انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بھی عالم اسلام کی ترقی اور فلاح کے لئے پر امن پروگرام اور سرمایہ فراہم کرنے کی بھی حامی بھر لی۔قادیانیوں کو کافر قرار دینے اور اسلامی بلاک بنانا انکی موت کا پروانہ بن گئے۔ اگر بھٹو صاحب یہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو آج فلسطین میں اسرائیل یہ نہ کرپاتا جو ہو رہا ہے۔ کراچی کا اسٹیل مل ہو یا عباسی شہید اسپتال سارے بڑے کام انہوں نے کیا۔ جسکی روایات کوانکی صاحبزادی شہید جمہوریت محٹرمہ بے نظیر بھٹو اور بعدازاں صدر آصف علی زرداری اور اب بلاول بھٹو نے جاری رکھا ہوا ہے۔ بلاول اگر وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو وہ نانا کی طرح کامیاب وزیر خارجہ اور کامیاب وزیر اعظم ہوں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button