کالم

فش پارٹی اور سیاسی تبصرے

سردیوں کے موسم میں مچھلی لوگوں کی مرغوب غذا ہے لیکن جب یہ دوستوں کی پارٹی میں ہوتو اس کا مزہ اور بھی دوبالا ہوجاتا ہے ، محمد امین مرزا ایڈووکیٹ نے سردیوں کی ایک شام کو یادگار بنانے کے لیے دوستوں کے اعزاز میں ایک فش پارٹی کا اہتمام کیا جس میں راقم(یاورعباس) کے علاوہ حافظ اسراراحمد شیخ ، عبدالرحمن ساہی ، وحید حسین بٹ ، محمد اعظم کھوکھر ، زمرد اعجاز ، پیر غلام انصر علی چشتی ، محمد یونس ، محمد افضال رانجھا، سلیم اشرف شریک ہوئے ۔ ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی اور گردونواح کے حالات و واقعات سے بات ملکی سیاست تک جا پہنچی ۔فش پارٹی کیا یوں لگ رہا تھاکہ پارلیمنٹ کا اجلاس چل رہا ہوکیونکہ وہاں مسلم لیگ ن ، مسلم لیگ ق ، پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی ، جماعت اسلامی اور کچھ آزاد خیال دوست بھی موجود تھے سبھی ایک دوسرے کے نظریات پر اپنے نظریہ کو سچ ثابت کرنے کے چکر میں ایک دوسری جماعتوں کے رہنمائوں کو خوب آڑے ہاتھوں لے رہے تھے باتوں سے لگ یوں ہی رہا تھا کہ شاید کسیبڑے جج کو یہاں آکر تاریخ دینا پڑے گی کیونکہ حتمی فیصلہ توعدالت نے 14مئی کو کے پی کے اور پنجاب کے انتخابات کا بھی کیا تھا جسے مانا نہیں گیا تھا ۔ انتخابات کا موسم ہو اور سیاسی گفتگو نہ ہو یہ تو ممکن نہیں ہے ، اگرچہ موسم سردی کا ہے مگر سیاسی ماحول گرم ہے ، پہلے پہل عورتیں صرف تندوروں پر سارے دن کی ڈائری اور شہر کی صورتحال سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتیں تھیں جبکہ مرد حضرات اکثر نائی کی دکان پر بیٹھ کر ادھر اُدھر کی نہ صرف خبریں حاصل کرتے تھے بلکہ تبصرے بھی خوب کرلیا کرتے تھے لیکن سوشل میڈیا کے بعد ہر آدمی ملکی سطح کی سیاست سے بخوبی علم رکھتا ہے اور اپنے اپنے خیالات و نظریات کے مطابق ہر واقع کی تشریح کرتا ہے ، مارشل لاء لگانے والے جرنیلوں کے علاوہ لوگوں کو پتہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ آج کل آرمی چیف کون ہے ، چیف جسٹس آف پاکستان کون ہے ، چیف الیکشن کمشنر کون ہے ، نگران وزرائے اعظم کے تو نام اتنے مشکل ہوتے تھے کہ سادہ لوح لوگوں کی زبان پر ان کا پورا نام چڑھتا ہی نہیں تھا مگر آج گلی کوچے کے مزدور سے لے کر دکاندار، ریڑھی بان غرض کہ ہر طبقہ کے لوگ نہ صرف ان عہدوں پر براجمان لوگوں کے نام جانتے ہیں بلکہ ان کی سیاسی وابستگی ، ذہنی صلاحیت اور ماضی کے کردار پر ایسے تبصرے کررہے ہوتے ہیں جیسے ان لوگوں کو بچپن ان کے ساتھ ہی گزرا ہو، یہی وجہ ہے کہ شاید جب ماضی میں حکومتیں توڑی جاتیں تھیں تو لوگ جانے والے سے اس قدر اظہار ہمدردی نہیں رکھتے تھے بلکہ عوام کو اُن کا جو چہرہ دکھایا جاتا عوام کسی نہ کسی حد تک یقین کرلیتے اور انتخابات میں ان کے مخالف لوگوں کو برسراقتدار لے آتے مگر یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ جسے اقتدار سے نکالا گیا عوام اس کے ساتھ کھڑی ہوگئی اور 40سالوں سے حکومتیں کرنے والی پارٹیاں یکجا ہوکر بھی عوامی ہمدردی سمیٹنے اور پی ٹی آئی کو شکست دینے ناکام نظر آ ئیں ۔ یہ تبصرے محفل میں بیٹھے مختلف دوست کررہے تھے ۔ مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم میں موجود دیگر جماعتوںنے 2018ء میں عمران خاں کو اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلہ ہونے کا طعنہ دیا اور لاڈلے کو لانے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا پھر ساڑھے تین سال تک اس کے خلاف واویلا کرتے رہے بالاخر پی ڈی ایم جماعتوںنے عوامی پذیرائی نہ ملنے پر لاڈلے کو مائنس کر کے خود لاڈلہ بننے کا فیصلہ کیا جو موثر ثابت ہوااور انتخابات کا انتظار کیے بغیر عدم اعتماد کے ذریعے انتقال اقتدار پرامن طریقے سے تو ہوگیا مگر عوام اور ریاست ایک دوسرے کے سامنے اس قدر کھڑے ہوگئے کہ بالآخر 9مئی کا سانحہ رونما ہوگیا ، پھرکیا تھا کہ ساری سیاست ہی بدل گئی، پی ٹی آئی کی حکومت بنتے دیکھ کرجو غول در غول ادھر اُدھر سے اُڑ اُڑکر 2018ء میں اقتدار کی شاخوں پر آبیٹھے تھے وہ گرفتاری کے بعد اُڑان بھرتے اور قید تنہائی سے نجات پاجاتے ۔ 9مئی کے حقیقی ملزمان چاہے وہ کوئی بھی ہوں ان کو کڑی سے کڑی سز املنی چاہیے مگرپوری پارٹی کو پابندی لگائے بغیر سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہ دینا بھی جمہوری اقدام نہیں ہے کچھ دوستوںنے تو کہا کہ پاکستان میں جمہوری کلچر کو فروغ دینے کے لیے سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت قائم کرنا ہوگی اور اس کے بعد سیاستدانوںکو محض اقتدار کے لیے چوردروازے اپنے اوپرخود بند کرنے ہوںگے اور پارلیمنٹ میں جانے کے لیے عوام کے ووٹ کو طاقت دینا ہوگی پھر ملک میں جمہوریت کی حقیقی روح نظر آئے گی ، مضبوط عوامی حکومت ہی ہمارے معاشی ، اقتصادی ، اور سیاسی بحرانوں پر قابو پا سکتی ہے۔ گجرات کی سیاست میں چوہدری برادران کا ذکر نہ ہو تو سیاسی بات آگے ہی نہیں بڑھ سکتی ، گزشتہ 4دہائیوںسے چوہدری برادران ہی گجرات کے اقتدار کے مالک رہے ہیں اگرچہ مسلم لیگ ن سے نوابزادہ خاندان ، چوہدری عابد رضا کوٹلہ ،حاجی محمد ناصر، پیپلزپارٹی کے چوہدری قمر زمان کائرہ ، میاں فخر مشتاق پگانوالہ اور ان کے خاندانوںنے کافی مقابلہ کیامگر اس کے باوجود چوہدری برادران ہر دور میں اقتدار کے ایوانوں میں نمایاں مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے رہے ، عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے معاملے پر چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کی راہیں جدا جدا ہوگئیں مگر چوہدری پرویز الٰہی عمران خاں کے ساتھ لگ کر وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے اور چوہدری شجاعت حسین نے شریف برادران کے ساتھ اتحاد کر کے اپنے بیٹے چوہدری سالک حسین کو وفاقی وزیر بنالیا ، یوں چوہدری برادران دو دھڑوں میں بٹ جانے کے باوجود دونوں طرف سے اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور انتخابات کے موقع پر گجرات میںمقابلہ چوہدری برادران کا آپس میں ہی متوقع ہے مگر کمال ہوشیاری سے ق اور ن لیگ کے حلقہ این اے 64، پی پی 31، پی پی 32میں اتحاد کے نتیجہ میں گجرات شہر اور ضلعی ہیڈ کوارٹر سے مسلم لیگ ن کو کمزور کر دیاہے ۔ ضلعی حکومت گجرات کی جانب سے چوہدری سالک حسین کو دئیے جانے والے پروٹوکول اور فنڈز کی تقسیم پر پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن ، جماعت اسلامی احتجاج کرتی رہتی ہے ۔ کچھ دوستوںنے انتخابات کو ٹوپی ڈرامہ کہا تو کچھ نے کہا کیا ماضی میں ایسا ہی نہیںہوتا آیا لہٰذا باری کا انتظارکریں چیخ وپکار مت کریں ۔ گفتگو ابھی بام عروج پر تھی کہ فش ٹیبل پر آپہنچی ، سب دوستوںنے خوب دعوت اُڑائی اورپیر غلام انصر علی چشتی نے دعائے خیر کروائی ۔ملکی سلامتی اور عوامی خوشحالی کے لیے خصوصی دعائیں کروائی گئیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button