کالم

انتخابات ، اشتہارات اور الیکشن کمپین

اشتہار کا لفظ تو ہم سب بچپن سے سنتے ہیں وہ اس لیے کہ چھوٹا بڑا سب ٹیلی ویژن پر اشتہارات دیکھتے ہیں ۔ اشتہار کے فوائد بھی بہت ہیں ، اور نقصانات بھی اشتہار کے بغیر کوئی بھی چیز مارکیٹ میں ترقی نہیں کرتی ۔ اب ظاہری بات ہے کہ کسی نئی چیز کی بارے میں عوام کو علم نہ ہو تو وہ مارکیٹ میں کیسے مشہور ہوگی ۔ اشتہارات عوام ڈراموں، ٹاک شو اور مختلف قسم کے پروگراموں میں ضرور دیکھتے ہیں۔ اگر کوئی اشتہار عوام نہ دیکھے تو پھر اس اشتہار کا کوئی فائدہ نہیں ۔یہ تو اس لیے نشر ہوتا ہے تاکہ لوگ دیکھے اور پروڈکٹس کی پروموشن ہوجاے، مطلب مشورہ ہوجاے اگر میڈیا کی بات کریں تو جس طرح گاڑی پیٹرول کے بغیر نہیں چل سکتی اسی طرح میڈیا بھی اشتہارات کے بغیر نہیں ۔ اگر میں کہوں کہ اشتہارات "فیول آف میڈیا” ہیں تو غلط نہیں ہوگا ۔ پھر اشتہار کی بہت سے اقسام ہیں ۔ اور ہر میڈیا چینل کا اپنا ایک ایجنڈا ہوتا ہے وہ اسی قسم کے اشتہارات کی تشہیر کرتا ہیں ۔ بل بورڈز یہ بھی اشتہار کی تشہیر کا ایک ذریعہ ہے ۔ اشتہارات کے بغیر ” میڈیا آرگنائزیشنز ” نہیں چل سکتے کیونکہ یہ ذریعہ معاش ہے ۔ اگر آج کے دور میں ہم پرائیویٹ چینلز کے اشتہارات کو ایک نظر دیکھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے وہ اشتہار نہیں بلکہ ایک عجیب چیز ہوتی ہے سوچ رہا تھا کہ موجود دور کے اشتہارات کے شروع میں چینلز یا ایڈورٹائزنگ کمپنی یہ لکھیں کہ اٹھارہ سال سے کم عمر بچے یہ نہ دیکھے تو بہتر ہوگا لیکن اس کے ساتھ ذہن میں دو باتیں پیدا ہوئیں ۔ کہ ٹی وی پر جو اشتہارات چل رہے ہیں اس کا تو میرے پاس یہی حل ہے لیکن بازاروں میں جو بڑے بڑے بل بورڈز لگے ہوئے ہیں ان کا کیا ہوگا ۔ اور اگر بدقسمتی سے یہی ہوا جو میری خواہش ہے تو ریٹنگ کیسے بڑھے گی کچھ دنوں پہلے دوستوں کے ساتھ گاڑی میں سفر کررہا تھا تو ایک ایسا اشتہار ” بل بورڈز ” دیکھا تو میں ششدر ہوگیا کہ اگر کوئی بچہ جب امی یا ابا کے ساتھ یہ دیکھے گا تو وہ کیا سوچے گا ۔ اس بات کا تو کسی کو پتا نہیں کہ لیکن میں بتاتا ہوں کہ اشتہارات میں خواتین بطور شو پیس استعمال ہوتی ہیں ، اور سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ دیکھنے والے اس قسم کے اشتہارات بہت شوق سے دیکھتے ہیں ، وہ کس لیے دیکھتے ہیں اس پر بات کرنا غیر مناسب ہے ۔ انتخابات میں کم وقت باقی ہیں ۔ آپ لوگوں کو سڑکوں اور بازاروں میں مختلف قسم کے سیاسی اشتہارات دیکھنے کو ملے گے ۔ وہی سیاست دان جو پانچ سال میں اپنے علاقے میں پانچ مرتبہ بھی نہیں گئے تھے ، آج کل انھوں نے بھی اپنے علاقوں کا رخ کردیا ہیں ۔ جس طرح شروع میں اشتہارات کے بارے میں لکھا ۔ سیاسی اشتہارات یعنی ” پولیٹیکل ایڈورٹائزمنٹ ” جسے کسے کہتے ہیں انتخابات سے دو تین مہینے پہلے جب سیاسی بندہ پانچ سال بعد اپنے علاقے میں جاتا ہے ، اور علاقے میں غریب آدمی کا دروازا کھٹکھٹاتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ میں دعا کے لیے آیا ہوں چار سال پہلے جو آپ کا بیٹا مر گیا تھا ۔ اس کے علاہ جب الیکشن کے دنوں میں یہ سیاستدان ٹیلی ویژن پر مختلف قسم کے ٹاک شو میں حریف سیاستدان یا سیاسی جماعت کی بارے میں بولتے ہیں کہ انھوں نے پانچ سالہ اقتدار یا حکومت میں کچھ نہیں کیا کوئی ترقی یافتہ کام نہیں کیا میں جب وزیراعظم یا وزیر اعلی بنو گا تو میں فلاح منصوبہ شروع کرونگا ، پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرونگا اور خاص کر نوجوانوں کو نوکری دونگا ۔ انتخابات قریب ہیں ، اور ٹیلی ویژن پر سب پاکستانی اس قسم کی گفتگو ہر وقت سنتے ہیں ، اب یہ باتیں سیاسی اشتہارات یعنی ” پولیٹیکل ایڈورٹائزمنٹ ” کی زمرے میں آتی ہیں ۔ یہ پاکستان کی ایک تاریخ ہے اور ہر پانچ سال بعد یہ تاریخ دہرائی جاتی ہے ۔ ہر پانچ سال بعد ہمارے ملک پاکستان کے سیاستدان اس قسم کی گفتگو جلسوں ، گلی محلوں اور ٹیلی ویژن پر کرتے ہیں ایک اٹھ کر دوسرے کو نیچا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسرا اس سے بھی زیادہ چالاک ہوتا ہے ۔ وہ اٹھ کر اس کے غلط کاموں اور پالیسیوں پر باتیں شروع کرتا ہیں ۔
اس طرح اگر پروپیگنڈہ کی بات کریں تو اس میں تحریک انصاف پہلے نمبر ہے کیونکہ ان کی سوشل میڈیا ٹیم کافی مضبوط اور وسیع ہے ۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان جیل میں ہے بات غلط نہیں ہے ، لیکن صرف ایک بندہ جیل میں ہے باقی تو سب باہر ہے ۔ جو فیک نیوز پھیلاتا ہے ، فیک ویڈیوز ، پروپیگنڈہ اور سوشل میڈیا خاص کر ایکس ” ٹویٹر ” پر غلط ٹرینڈز چلاتے ہیں ان کو بھی قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا اور ان سے پوچھ گچھ کرنا بہت ضروری ہے دوسری بات کہ عمران خان جیل میں ہے ان کو ویسے نمائش کے لیے بند نہیں کیا ہے بلکہ اپنی غلطیوں کی وجہ سے پابند سلاسل ہیں لیکن جس نے عمران خان کو پاکستان اور پاکستانی عوام پر مسلط کیا تھا ۔ وہ کھلے پِھر رہے ہیں ، ان کو بھی قانون کے کٹہرے کھڑا کرنا بہت ضروری ہے ۔ الیکشن سے پہلے میرے خیال میں یہ کام بہت ضروری ہے تاکہ جو لوگ میرا مطلب سیاست دان جس کا یہ خیال ہے کہ عمران خان کی طرح ہم بھی وزیر اعظم بنے گے کہ اس کا یہ خواہش کبھی پوری نہ ہوجاے ورنہ عمران کی شکل میں ایک دوسرا عمران پانچ سال کے لیے ملک و قوم پر مسلط ہوگا ۔ موجودہ دور میں ملک پاکستان جس صورتحال سے گزر رہا ہے وہ بہت برا ہے الیکشن کمیشن نے تو انتخابات کا علان کردیا ہیں ، ملک میں الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی زمہ داری ہے ، لیکن شفاف انتخابات موجودہ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
یہ بھی پاکستان کی تاریخ میں شامل بلکہ سالوں سے رواج چلتا آرہا ہے جب کوئی سیاسی جماعت الیکشن میں کامیاب ہو جاتا ہے ، تو مخالف سیاستدان اور اس کی پوری پارٹی تنقید شروع کرتی ہے کہ ان کو اسٹیبلشمنٹ نے منتخب کیا ، ہم یہ الیکشن نہیں مانتے اس میں دھاندلی ہوئی ہے اور مختلف قسم کے جواز پیش کرتے ہیں ۔ اس مرتبہ بھی وہی گفتگو الیکشن کے بعد شروع ہوگی بلکہ ابھی سے نظر آرہا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ایک دائرے میں چکر لگا رہے ہیں ۔ اس دائرے کو تھوڑا کر اس سے باہر نکلنا اور اصل حقائق کو جاننا بہت ضروری ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر پاپلورٹی کی بات کریں تو اس وقت قومی سطح پر دو جماعتیں پہلے نمبر پر پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسرے نمبر پر پاکستان مسلم لیگ ن پاپلور ہے ۔ بہت سے تحریک انصاف والے یہی کہتے ہیں کہ نہیں پاکستان میں صرف پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان پاپلور ہے اور ووٹ بھی زیادہ ہے پہلی بات تو یہ ہے ۔ اس بات کو ایک زاویے سے درست مانتے ہیں وہ یہ ہے کہ پاکستان اور پاکستان سے باہر عمران خان سوشل میڈیا پر بہت زیادہ
پاپلور ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں اگر پی ٹی آئی سپورٹرز پاپولرٹی کی بات کر رہی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں عمران خان پاپولر ہے لیکن سوشل میڈیا پر کیونکہ ان کے سپورٹرز صرف اس کو دیکھتے ہیں کہ خان کی فیسبک اور ایکس” ٹویٹر” پر فالوورز زیادہ ہیں یا ان کا جو سوشل میڈیا ٹیم جو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتا ہے دوسرے سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ان پر زیادہ ویوز اور لائیکس آتے ہیں تو سوشل میڈیا کی حد تک عمران خان پاپلور ہے۔ فیصلہ آپ لوگ کرہں جو سیاسی پارٹی ان لائن جلسہ کرتی ہے سوال پیدا نہیں ہوتا کہ وہ پاپلور ہے لیکن شاید وہ لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اب بھی صرف عمرانی جمہوریت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button