سیاستدانوں، سیاسی کارکنوں اور سیاسی جماعتوں کا منصب ہی سیاست کرنا ہے اور یہ عیب نہیں، ایک بہترین جمہوری عمل ہے۔ جدید جمہوری نظام میں سیاست ہی وہ شاندار عمل ہے جس سے مختلف طبقات کے درمیان اختلافات کو کم کیا جاتا ہے، ہم آہنگی پیدا کی جاتی ہے اور تبدیلی کے عمل کو پُرامن طریقہ سے آگے بڑھایا جاتا ہے۔سیاست ہی عوام کی امنگوں کے اظہار، حکومت اور عوام کے درمیان بامقصد رشتہ قائم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ لفظ سیاست ہوسِ اقتدار اور سازش کرنے کا نام نہیں۔ سیاسی جماعتیں ایوان سے پہلے سیاسی میدان میں فعال ہوتی ہیں۔ اپنے سیاسی نظریہ اور قومی ایجنڈا پر عوام سے رجوع کرتی ہیں۔ستم ظریفی یہ کہ سطور بالا میں بیان کی گئی جمہوریت پاکستان میں ہے ہی نہیں۔ اقتدار کے کھیل کا ایک ایک ورق عبرت انگیز ہے ووٹ کا تقدس پامال ہوتا ہے، سیاستدان موقع پرستی اور مفاد پرستی سے صرف بَرسرِاقتدار آنا چاہتے ہیں۔ جس سیاسی جماعت کیاسٹیبلیشمنٹ سے تعلقات اچھے ہوتے ہیں تو تاثر قائم کیا جاتا ہے کہ وہ بَرسرِاقتدار آ رہے ہیں۔ اس یقین پر الیکٹیبلز بھی فوری طور پر اس جماعت میں آ جاتے ہیں۔ اسی تاثر پر 2013 میں مسلم لیگ(ن) اور 2018 میں پی ٹی آئی بَرسرِاقتدار آئیں۔ لیکن طاقت، جاہ و حشم اور شان و شوکت کی کوئی انتہا نہیں ہوتی اقتدار ہاتھ آنے پر بہترین تعلقات، ہم آہنگی، مراسم اور قربت اپنی حیثیت کھو دیتے ہیں۔ جو پُشت پر ہوتے ہیں آنکھیں پھیر لیتے ہیں پھر صدا بلند ہوتی ہے”مجھے کیوں نکالا” لیکن جب سہولت کاری میسر ہوتی ہے اس وقت ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس ہی نہیں ہوتا۔ اب اسٹیبلشمنٹ سے کیسا گلہ، جب سیاستدان خود ہی عوام اور نظریہ پر اعتماد کرنے پر تیار نہیں۔ ہماری سیاست کا معاملہ کچھ یوں ہے جیسے کیکڑوں کے بارے کہا جاتا ہے کہ انہیں شکار کر کے کسی ڈبہ یا جار میں ڈالا جاتا ہے تو اس پر ڈھکن دینے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ جب کوئی کیکڑا باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور کامیابی کے نزدیک پہنچتا ہے تو دوسرا کیکڑا اس کی ٹانگ کھینچ لیتا ہے اس طرح سب ہی باہر بھی نکلنا چاہتے ہیں مگر کامیاب کوئی نہیں ہو پاتے۔ ہماری سیاست کی نفسیات کچھ ایسی ہی ہے۔ سب کیکڑوں کی طرح سوچتے اور عمل کرتے ہیں سیاسی جماعتیں بیک وقت ظالم بھی ہیں اور مظلوم بھی ہیں۔ جو اقتدار میں ہیں وہ ظالم ہیں اور جو باہر ہیں وہ مظلوم ہیں۔ یہاں یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کی تاریخ اس عمل و فکر سے بہت مختلف ہے۔ اس طرزِ سیاست میں ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی ہے، میر شاہنواز بھٹو، میر مرتضی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے قتل بھی تاریخ کا حصہ ہیں سب کچھ ہونے کے باوجود انکی جماعت موجود ہے۔ان کے مخالفین جو دنیا فانی سے رخصت ہوئے کسی کی سیاسی حیثیت قائم نہیں۔ آج جو جماعتیں مقبول ہیں وہ شخصیات کی بدولت ہیں نواز شریف اور عمران خان کی ذات ہی جماعت ہے اور ان کا مقابلہ اس دنیا سے رخصت ہوئے بھٹو سے بھی ہے۔
قارئین کرام! 2002 میں راو سکندر اقبال، چوہدری نوریز شکور، فیصل صالح حیات، آفتاب احمد شیر پاو، ڈاکٹر شیر افگن خان نیازی، وصی ظفر جیسے نام پی پی پی کی ٹکٹ پر کامیاب ہو کر مشرف کے اقتدار کو دوام پخشنے کے لیے (ق) لیگ میں چلے جاتے ہیں تو پھر صرف جنرل مشرف پر ہی کیوں تنقید کریں۔ جنرل مشرف کو وردی میں منتخب کروانے کا اعلان کرنے والے آج پی ٹی آئی کے صدر ہیں۔ کوئی سوال نہیں کرتا کہ آپ تب غلط تھے یا آج قوم کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے سیاسی معاملات میں ناکامی پر اداروں پر چڑھ دوڑنا ہماری سیاسی تاریخ ہے۔ ایک وقت میں آرمی چیف قوم کا باپ ہوتا ہے اور پھر اسی آرمی چیف کو چوکیدار قرار دے دیا جاتا ہے۔ اداروں اور عہدوں کے وقار اور اہمیت کو بھی مدِنظر نہیں رکھا جاتا۔ عدالت سے فیصلہ حق میں آجائے تو انصاف کی فتح اور اگر فیصلہ خلاف آئے تو بُغض سے بھرے جج کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ ووٹ کو عزت دو یہ نعرہ بھی صرف حق میں پڑنے والے ووٹوں کے لیے ہے مخالف ووٹ اور ووٹر کی کوئی عزت نہیں۔ ان رویوں اور عمل سے جمہوریت کیسے چل سکتی ہے۔ سیاست میں مداخلت پر تنقید تو تب جائز ہے جب سیاست کی جائے۔ ہمارے یہاں سیاست کا اول و آخر مقصد ہی اقتدار کا حصول ہے۔ پی ٹی آئی سے منحرف ہو کر راجہ ریاض اپوزیشن لیڈر بنتے ہیں اور ساتھ ہی مسلم لیگ(ن) کی ٹکٹ سے آئندہ الیکشن لڑنے کا ارادہ بھی ظاہر کر دیتے ہیں ایسے میں شہباز شریف کی حکومت اور راجہ ریاض کی اپوزیشن کی کیا اخلاقی حیثیت رہ جاتی ہے۔ اس سے قبل جنوبی صوبہ محاذ والے نواز شریف سے الگ ہو کر عمران خان کے پاس آ گئے۔ پی ٹی آئی کا وقت ختم ہوتے ہی سیاسی استحکام کے لیے آگے بڑھ گئے۔اب یہ کونسی سیاست ہے اور کیسی جمہوریت۔۔۔۔؟ ووٹ حاصل کرنے کے لیے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اور اقتدار کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتے ہیں۔ شیخ رشید اور فواد چوہدری جیسے کرداروں کو سیاسی رہنما تسلیم کرنا جمہوریت کے ساتھ کھلا مذاق ہے۔ سب ہی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت چاہتے ہیں اور حمایت نہ ملنے پر نظریاتی ہو جاتے ہیں۔ حقیقت کو تسلیم کریں تو نظریہ صرف اقتدار ہے۔اقتدار کے سامنے اقدار اور جمہوری اصول بے معنی ہیں۔سب ہی ووٹ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں اور سب ہی مخالفین کو سیاسی مقابلہ پر دیکھنا بھی نہیں چاہتے۔ اسٹینلشمنٹ سے دوری پر کھڑی جماعتیں منصفانہ انتخابات کا مطالبہ کرتی ہیں اور لاڈلے اپنی کامیابی کی امید پر سب کچھ برداشت کرتے ہیں۔ یہ دائرے کی سیاست ہے یہاں چہرے بدلتے ہیں کردار نہیں بدلتے، اس لیے کونسا بیانیہ اور کونسی سیاسی جماعت اینٹی اسٹیبلشمنٹ سب اقتدار کا کھیل ہے ایسا کھیل جس میں عوام نہیں۔ عوام کے مسائل کا حل نہیں، اقتدار اور بس اقتدار، عیار اور مکار رہنما اور عوام بے یار و مدد گار،ایک انتخاب لاڈلا بن کر لڑتے ہیں دوسرے میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بناتے ییں اگر سیاست دان سنجیدہ ہوتے تو ادارے کیوں نہ اپنی آئنیی حدود میں رہتے۔ سیاستدانوں کی جب اپنی کوئی حدود نہیں پھر ایسے سیاسی رہنماوں سے کیسی امید کہ وہ آئین کی بالادستی پر یقین کرتے ہیں۔ پاکستان میں کوئی اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں سب اپنی سی وی اٹھائے اپنی باری کے چکر میں عوام کو چکر دیتے ہیں۔ یہ ہیں ہماری سیاست کے تلخ حقائق انہیں تسلیم کریں اور پھر کسی ادارے یا شخصیت پر تنقید کریں۔ جمہوریت تو تب بتدریج آئے گی جب سیاسی رہنما اور جماعتیں اقتدار کی خواہش کے ساتھ آئین پر عمل کرنے پر بھی تیار ہوں گی۔ اپنے منشور پر انتخابی عمل میں شریک ہوں گی، اداروں کے خلاف نہ ہی کوئی منفی تاثر قائم کریں اور نہ پھیلائیں۔ یہ ادارے ہی ریاستِ پاکستان کے وجود کی ضمانت ہیں اور عوام ان اداروں پر اعتماد کرتے ہیں
۔ اپنا عمل سیاسی رکھیں اور آئین کی سر بلندی کے لیے آئین کی پاسداری کرتے ہوئے اداروں سے آئینی حدود میں رہنے کا مطالبہ کریں۔سیاسی جماعتیں اور سیاستدان ایک دوسرے کو راستہ دیں گے تو مداخلت کا راستہ خود بخود بند ہو جائے گا۔
0 58 5 minutes read