پاکستان میں ایک طرف دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو دوسری جانب عام انتخابات بھی قریب آتے جارہے ہیں ، ملک میں انتخابات کے پر امن انعقاد کے لیئے امن و امان کی مثالی صورت حال قائم ہونی چاہیئے، تاکہ کسی کے لیے بھی انتخابات موخر کرانے کا کوئی جواز نہ نکل سکے،اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے سکیورٹی فورسز تیار ہیں ،لیکن ملک میں جس تیزی سے دہشت گردی کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں، یہ عام انتخابات کے انعقاد کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہیں۔
ملک میں بڑھتی دہشت گردی سے انکار کیا جاسکتا ہے نہ ہی عام انتخابات کے انعقاد میں تعطل کیا جاسکتا ہے ، کیو نکہ ایک طرف عدالت عظمیٰ کے واضح احکا مات ہیں تو دوسری جانب الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کے ساتھ شیڈول کا بھی اعلان کر چکا ہے اور دہشت گردی کے ما حول میں الیکشن کوئی پہلی بار نہیں ہورہے ہیں ، اس سے قبل متعدد بار ایسے ہی ماحول میں الیکشن ہوچکے ہیں ،اس بار کو نسی ایسی مختلف دہشت گردی ہورہی ہے کہ الیکشن ہی ملتوی کر نے پر زور دیا جارہا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، مولانا فضل الرحمن کے قافلے پر بھی حملہ ہوا ہے،لیکن محکمہ داخلہ نے ایک عجیب سا اعلان کیا ہے کہ انتخابی عمل کے دوران سیاسی سرگرمیوں کو مکمل سیکورٹی فراہم کی جائے گی، جبکہ ہر حال میں سیکورٹی کی فراہمی وزارت داخلہ کی ہی ذمہ داری ہے، اس کا اعلان کرنے کی کیا ضرورت ہے، دوسری جانب جے یو آئی کے رہنما مولانا فضل الرحمن کے قافلے پر حملے کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے،ہر پہلو سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آیا کوئی اتفاقی واقعہ یا حادثہ ہے، کوئی افواہ ہے یا واقعی کوئی ہدف تھا؟اگر دیکھا جائے توہر صورت میں ہی انتخابات کے حوالے سے تشویش کا پہلو ہے، یہ افواہ بھی کئی روز سے گردش کررہی ہے کہ انتخابات ملتوی کرانے کے لیے کچھ معروف سیاسی شخصیات کو بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے، ایک طرف وزارت داخلہ ہائی الرٹ کی نشاندہی کررہی ہے تو دوسری جانب سیکورٹی کی فراہمی کے دعوئے بھی کیے جار ہے ہیں ،لیکن اگر خدانخواستہ کوئی سانحہ ہو گیا تو پھروزارت داخلہ اور تمام سیکورٹی کے ذمے دار ٹی ٹی پی اور غیر ملکی ہاتھ پر الزام ڈال کر خود ہاتھ جھاڑ کر بیٹھ جائیں گے،اس لیے انتخابات سے پہلے انتخابات محفوظ بنانے کے زبانی کلامی دعوئوں کے بجائے ٹھوس عملی اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔نگران حکومت بار بار واضح پیغام دے رہی ہے کہ انتخابات کا انعقاد یقینی ہے، اس میں کوئی تاخیری حربہ اختیار نہیں کیا جائے گا، نگران حکومت کے ساتھ عدلیہ اور اعلیٰ فوجی قیادت بھی ایسا ہی پیغام دیے رہی ہے ،الیکشن کمیشن نے بھی کہا ہے کہ امن و امان کی صورتحال الیکشن کے انعقاد میں رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے،حکومت، عدلیہ اور فوج کے واضح پیغامات کے باوجود انتخابات کے بارے میں غیر یقینی کیفیت کا سوال بدستور سیاسی اشرافیہ کے حلقوں میں زیربحث ہے، جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ کہیں نہ کہیں دال میں کچھ کالا ہے اور کہیں پس پردہ کسی متبادل نظام کے بارے میں بھی سوچ بچار ہو رہی ہے۔دراصل انتخابات سے قبل تمام تر خدشات کی بنیاد ہمارا کمزور سیاسی نظام ہی رہا ہے، جو کہ کسی بھی وقت کسی بھی حادثے کا شکار ہو سکتا ہے، اگرچہ ہمارے ہاں یہ عزم شدومد سے ظاہر کیا جارہا ہے کہ اب غیر آئینی تبدیلی کے تمام راستے بند کر دئیے گئے ہیں،یہ عزم ماضی میں تواتر سے ظاہر کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی دہرایا جارہا ہے، لیکن سیاسی نظام میں تعطل پیدا ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہو سکتا ہے، اس بار دہشت گردی کو ہی جواز بنا کر کوئی غیر سیاسی قدم اُٹھایا جاسکتا ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ملک میں دہشت گردی اور امن و امان کی صورتحال بڑا چیلنج ہے، جو کہ انتخابات کے پر امن انعقاد میں رکاوٹ بن سکتا ہے، دہشت گردی کے خاتمے کا کوئی فوری حل بھی دکھائی نہیں دیے رہا ہے ،اس کی بڑی وجہ حکومت اور دوسرے ریاستی اداروں کی ناکامی ہے، لیکن اسے جواز بنا کر انتخابات میں تاخیر مسائل کا حل نہیں ہے،بلکہ مزید مسائل بڑھانے کے مترادف ہو گا، اس کے باوجود انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے کے بہانے ڈھونڈے جارہے ہیں ، نت نئے جواز تراشے جارہے ہیں، دہشت گردی کو بھی جواز بنایا جارہا ہے۔
کیا اس طرح انتخابات سے راہِ فرار حاصل کر کے بہتری کی جانب بڑھا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے ،اگر چہ انتخابات اور اس کا کوئی بھی نتیجہ فوری طور پر ملک میں تبدیلی نہیں لا سکے گا، لیکن انتخابات سے گریز مسائل حل کرنے کی بجائے اور زیادہ گھمبیر بنا دے گا،جمہوریت میں انتخابات ہی تبدیلی کا واحد راستہ ہوتے ہیں اور اس کو ہی اپنے سیاسی نظام کی بنیاد بنانا چاہیئے، جمہوریت کی مضبوطی کا بڑا تعلق داخلی اصلاحات سے ہے تو اس کی طرف پیش رفت ہونی چاہئیے، ہم جب کہتے ہیں کہ ساری ہی جماعتیں بڑے مسائل اور مشکلات کو حل کرنے میں ناکام ہوئی ہیں تو اس کا متبادل راستہ بھی انتخابات ہی ہوتے ہیں، ایک شفاف انتخابی عمل ہی عوامی سیاسی قیادت لانے میں مدد گار ثابت ہوسکتاہے۔
0 60 4 minutes read