مالدیپ کے نو منتخب صدر ڈاکٹر محمد معیزو نے کہا ہے کہ ہمارا جھکاﺅ کسی ایک ملک کی طرف نہیں ہوگا، ہم ”پہلے مالدیپ“ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر سب کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ میرے لئے سب سے زیادہ اہم ملک اور قوم کے مفادات ہیں،کسی ایک ملک کی طرف جھکاﺅ ہمارے ملک کے مفاد میں ہے اور نہ ہی خطے کے مفاد میں ہے۔ان خیالات کااظہار انہوں نے ایک انٹرویو میں کیا
انہوں نے کہا” پاکستان مالدیب کی خارجہ پالیسی کےلئے بہت اہم ہے۔ بھارت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بنیادی طورپر مالدیپ میں بھارتی فوجیوں کی موجودگی کی وجہ سے گزشتہ پانچ سال مالدیپ کی خارجہ پالیسی کا زیادہ ترجھکاﺅ بھارت کی طرف رہا جس سے مالدیپ کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
بات جب مالدیپ کو خارجہ پالیسی سے درپیش چیلنجز کی ہو تو میرے خیال میں سابق حکومت کی خارجہ پالیسی کی حکمت عملی مالدیپ کے عوام کی امنگوں کے مطابق نہیں تھی۔انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالدیپ کے عوام چاہتے ہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی کاجھکاﺅ کسی ایک مخصوص ملک کی طرف نہیں ہونا چاہئے۔
ایک سوال کہ بھارت کو مالدیپ سے اپنی فوجوں کے انخلاءکےلئے کہنے سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تناﺅ پیدا ہوگا جس پر مالدیپ کے صدر نے کہا کہ بھارت کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی کیونکہ انہوں نے نئی دہلی کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ مالدیپ سے ان کی فوجوں کو ہٹانے کا کہہ کر وہ کسی دوسرے ملک کو اس کی جگہ لینے نہیں دیں گے۔انہوں نے کہا” مالدیپ میں ایسی کوئی صورتحال پیدا نہیں ہوگی کہ کسی بھی ملک کی فوج کو ہمارے ملک میں تعینات کیا جائے۔
مالدیپ کی نئی حکومت کو درپیش اہم چیلنجز کے بارے میں ان کہنا تھا کہ مالدیپ کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں ایک چیلنج معاشی صورتحال ہے۔ انہوں نے کہا” ملک کا ہر شخص مقروض ہے جبکہ فی کس جی ڈی پی توقع سے بہت کم ہے۔ ہمیں سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرتے ہوئے معیشت کو متنوع بنانا ہوگا۔اس لئے معیشت کی بحالی اور ترقی بالخصوص آمدن میں اضافہ ایک بڑا چیلنج ہے “