کالم

لیول پلئنگ فیلڈ تمام جماعتوں کا حق

تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلئنگ فیلڈ دینا بہت ضروری ہے یعنی تمام سیاسی جماعتوں کو برابری کی سطح پر موقع دینا چاہیے کہ وہ پوری آزادی سے انتخابات میں حصہ لے سکیں۔ ان کے لیے کسی بھی طر ح کی رکاوٹ پیدا کرنا انتخابات کو انتخابات سے پہلے ہی مشکوک بنانا ہے ۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر رکھنے کے لیے اختیار کیے جانے والے تمام تر حربے انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ جب وہ ایک سیاسی جماعت ہے تو پھر اسے پورا موقع دینا چاہے یا تو پھر اس پر کچھ ایسے الزامات ہوں جن کی وجہ سے اسے سیاسی جماعتوں کی فہرست سے ہی نکال دینا چاہیے پھر چاہے اسے انتخابات سے باہر رکھیں یا سیاست سے ہی آؤٹ کر دیں لیکن اس کے لیے بھی تو کوئی ٹھوس شواہد ہونے چاہئیں ۔ محض پسند و ناپسند کی بنیاد پر کسی جماعت کو سیاست سے باہر کرنا یا حیلوں بہانوں سے کسی جماعت کے لیے انتخابات میں رکاوٹیں ڈالنا کسی بھی طرح قابل تعریف نہیں ہو سکتا۔2018کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کو انتخابات سے باہر رکھنے کے لیے کئی طرح کے حربے اختیار کیے گئے ، اس وقت ان کے لیے طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی تھی۔ ان کے قائد کو تو پہلے ہی تاحیات نااہل قرار دیا جا چکا تھا جو اس وقت جیل میں تھے لیکن باہر بھی ہوتے تو نااہلی کی وجہ سے انتخابات میں حصہ نہ لے پاتے ۔ ان کے دیگر رہنماؤ ں اور پارٹی عہدیداران کو کالز پر دھمکیاں دی جاتی تھیں اور ساتھ ہی ان پر تحریک انصاف میں شمولیت کے لیے دباؤڈالا جاتا تھا ۔ جماعت کے دیگر اہم رہنما جیسے مریم نواز اور کیپٹن صفدر بھی جیلوں میں ہونے کے باعث انتخابات میں حصہ نہ لے سکے۔ یوں مسلم لیگ ن اس وقت مکمل طور پر انتقام کے نشانے پر تھی ۔ اب 2024کے انتخابات میں وہی سب کچھ دہرایا جا رہا ہے ۔ کہانی ہو بہو وہی ہے لیکن کردار مختلف ہیں ، اس وقت جنہیں نوازا جا رہا تھا وہ اب جیلوں میں ہیں ۔ ان پر مختلف قسم کے مقدمات درج ہیں، ان کے کئی رہنما جیلوں میں ہیں ۔ ان کی پارٹی کے بانی بھی نااہل ہو چکے ہیں اور پارٹی کی چیئرمین شپ بھی ان سے لے لی گئی ہے اسی طرح ان کے رہنماؤں کو بھی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور پارٹی چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے جس کی وجہ سے کئی رہنما پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور جو ابھی پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں انہیں بھی مختلف طریقوں سے تنگ کیا جا رہا ہے ۔ کاغذات نامزدگی چھیننے کے کئی واقعات رونما ہوئے اگرچہ اتنے نہیں ہوئے جتنا سوشل میڈیا پر بتایا گیا لیکن ہوئے تو ضرور۔ اسی طرح کاغذات نامزدگی مسترد کر نے کے بھی بہت سے واقعات پیش آئے وہ رہنما جن کے پہلے کبھی اپنے حلقوں میں کاغذات نامزدگی مسترد نہیں ہوئے اس بار ہوگئے ۔ بہر حال تمام انتخابات میں کوئی ایک جماعت انتقام کا نشانہ بن رہی ہوتی ہے اور اس کے لیے انتخابا ت میں حصے لینے سے رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہوتی ہیں ۔ یہ بات انتخابات کو مشکوک بناتی ہے جس کی وجہ سے تمام انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ بلکہ اب تو سیاسی جماعتوں کی اداروں کی طرف سے طرفداری اور دیگر جماعتوں کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرنے سے عوام پر بھی واضح ہو چکا ہے کہ انتخابات میں ہوتا کیا ہے ۔ کئی لوگوں کو ہم کہتے ہیں کہ انتخابات میں ایسے امیدوار کو ووٹ دیں جس میں فلاں فلاں خصوصیات پائی جاتی ہوں یا وہ دیندار ہو تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ووٹ دینے سے کیا ہو گا نتائج تو پہلے سے تیار ہیں صرف انتخابات کا ڈرامہ رچانا باقی ہے۔ بات تو ان کی درست ہے اور ادارے سیاسی جماعتوںکے ساتھ جس قسم کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں وہ اس تاثر کو مزید تقویت دے رہا ہے کہ انتخابات میں عوام کے ووٹوں کی بجائے اداروں کی مرضی امیدواروں کا انتخاب کرتی ہے۔ لہٰذا تمام جماعتوں کو برابری کی سطح پر انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دیاجانا چاہیے کسی جماعت کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرنا اس جماعت کے ساتھ ہی نہیں بلکہ پورے ملک اور عوام کے ساتھ زیادتی اور مذاق ہے ۔ سیاسی جماعت کو پوری طرح انتخابات میں حصہ لینے اور اس کے ووٹر کو اپنی آزاد مرضی سے اس جماعت کو ووٹ دینے کا موقع دیا جانا چاہیے ۔ اگر اپنی مرضی سے ہی لوگوں کو عوام پر مسلط کرنا ہے تو پھر کھل کر کیجیے ، یہ انتخابات کا ڈرامہ اور اس پر بے تحاشا پیسے کا خرچ کس لیے ؟ کم از کم عوام کا وقت اور روپیہ تو برباد نہ کیا جائے۔ لیکن اگر یہ جمہوری ملک ہے تو پھر اس میں تمام سیاسی جماعتوں کو آزاد چھوڑا جائے تاکہ وہ اپنی مرضی سے الیکشن کمپین کریں اور ووٹرز اپنی مرضی سے جس امیدوار یا جماعت کو چاہیں منتخب کریں اسی پر اداروں کو کامیاب ہونے والی جماعت کو اقتدار منتقل کر دینا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button