ملک میں عام انتخابات کے حوالے سے گہما گہمی جاری ہے ،ایک طرف کاغذ ات نامزدگی کا عمل مکمل ہونے کے ْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْبعد سے سکروٹنی جاری ہے تو دوسری جانب سیاسی رہنما ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے ایک سے بڑھ کر ایک بیانات دیے رہے ہیں ،جو کہ ایسی معیوب بات بھی نہیں ہے ، ہرالیکشن کے دوران ایسے ہی حربے استعمال کیے جاتے رہے ہیں ،اس بار بھی وہی پرانے سبز باغ اور سنہرے خواب دکھائے جارہے ہیں ،لیکن اب عوام کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایک باشعور ووٹر کی حیثیت سے سوچیں ،پرکھیں اور جس پارٹی یا اُمیدوار کو اپنے مسائل کے حل کا اہل سمجھتے ہیں ،انہیں ایوان اقتدار تک پہنچانے کیلئے اپنے ووٹ کا درست استعمال کریں ،کیو نکہ باشعور قومیںاپنے ووٹ کے ذریعے ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہیں۔
یہ ایک نہایت خوش آئند بات ہے کہ ملک کچھ تاخیر سے ہی سہی ، عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے، اس وقت ملک جن مسائل میں گھرا ہے، ان کا حل ایک مستقل اور منتخب حکومت ہی فراہم کرسکتی ہے ،لیکن یہ اس وقت ہی ممکن ہوسکتا ہے کہ جب تمام سیاسی جماعتیں انتخابی عمل میں بغیر کسی روک ٹوک کے حصہ لیں ،تاکہ عوام اپنے ووٹ کے ذریعے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے اپنے نمائندگان منتخب کرسکیں،اگر انتخابی عمل میں مائنس پلس کا ہی کھیل کھلا جاتا رہے گااور کسی ایک کیلئے میدان صاف اور دوسرے کیلئے خراب کیا جاتا رہے گاتو پھر انتخابی عمل بے مقصد ہو کر رہ جائے گا ،اس انتخابی عمل کی کوئی ساکھ ہو گی نہ ہی اس کے نتائج کو کوئی مانے گا۔
اس بارعوام آزادانہ شفاف انتخابات چاہتے ہیں ،عوام چاہتے ہیں کہ اُن کے ووٹ سے ہی اُن کے نمائندے اقتدار میں آکر اُن کے مسائل حل کرٰیں ،عوام آزمائے کو ہی بار بار آزمانے سے تنگ آچکے ہیں ، عوام نئے لوگ لانا چاہتے ہیں ،مگر عوام کے پاس کوئی دوسری چوائس ہی نہیں چھوڑی گئی ہے، اس لیے مجبوری میں آزمائے ہووؤں کو ہی آزمانا پڑتا ہے،پیپلزپارٹی نے بھٹو کے زمانے میں روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا،جو کبھی پورا ہوانہ ہی کبھی پورا کر نے کی کوشش کی گئی ہے ،اس کے باوجود پیپلزپارٹی تین مرتبہ اقتدار میں آتی رہی ہے ،مسلم لیگ(ن) نے بھی عوام سے خوشحالی کے بہت سے وعدے کئے ہیں ،جوکہ ہمیشہ ادھورے ہی رہے ہیں، تاہم وہ بھی تین مرتبہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیںاور اب د دونوں ہی چوتھی بار اقتدار میں آنے کیلئے پورا زور لگا رہے ہیں۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ اس ملک میں آزمائے ہوئے بار ہا اقتدار میں آکر ناکام ہوئے ہیں ،اس کے باوجود بضد ہیں کہ انہیں ایک بار پھر موقع دیا جائے تو سب کچھ بدل کر رکھ دیں گے ، یہاں ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر خوشنما خواب دکھانے میں لگا ہے اور طاقت ور حلقے بھی ان کی ہی پشت پناہی کررہے ہیں، اس صورتحال میں عوام جائیں تو کہاں جائیں، عوام کے پاس کوئی دوسری چوائس ہی نہیں چھوڑی گئی ہے ، عوام کو ان میں سے ہی کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کیا جارہاہے، سیاسی جماعتوں کو ہی کچھ خوفِ خدا کرنا چاہئے،عوام کی محرومیوں سے بار بار کھیلنے کی بجائے حقائق سامنے رکھتے ہوئے ایسا لائحہ عمل سامنے لانا چاہئے کہ جس کے ذریعے ملک وعوام کو مسائل کی دلدل سے باہر نکالا جاسکے ،مگر یہاں کسی کے پاس کوئی پلان ہے نہ ہی نیا پلان بنانے کی اہلیت و صلاحیت رکھتے ہیں،بس عوام کو ایک بار پھرجھوٹے دعوئوںکے سہارے ہی بے وقوف بنایا جارہا ہے۔
یہ عوام کی بد قسمتی رہی ہے کہ انہیں بار بار بہکانے اور بہلانے والوں کے ہی سپردکیاجاتارہاہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پاتے ہیں ، اگر ملک میں ایک بار انتخابات کا عمل شفاف اور جمہوری اقدار کے مطابق ہوجائے تو پورا سیاسی نظام مضبوط بنیاد پراستوار ہو سکتا ہے، یہ نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن کی بھی تو ذمہ داری ہے کہ ہر صورت انتخابات کے عمل کو شفاف اور غیر جانبداری کے ساتھ ممکن بنائے، محض زبانی کلامی دعوے کافی نہیں، شفافیت اور غیر جانبداری نظر بھی آنی چاہیئے ، لیکن موجودہ انتخابی ماحول میں ایسا کچھ بھی غیر جانبدارانہ دکھائی ہی نہیں دیے رہا ہے ،اس میں مقتدر اہ کا کردار سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، اُن کی ہی پشت پناہی جانبدارانہ رویئے کی حوصلہ افضائی ہورہی ہے ،اگر ان کی پسند و ناپسند کی بنیاد پراقتدار میں آنے اور جانے کا سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا اور بے سہاروں کو ایسے ہی سہارا دیا جاتا رہا تواس کے نتائج ریاست و عوام کیلئے پہلے کبھی سود مند رہے ہیں نہ آئندہ سود مند رہیں گے نہ ہی ایسے انتخابات سے سیاست پر چھائے بے یقینی کے بادل چھٹ پائیں گے۔
0 48 3 minutes read