کالم

بے نظیر بھٹو۔۔پاکستانی عورت کے لئے مثال

کسی کو کیا پتہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو ننھی منی بچی جسے پنکی کہتے تھے وہ دنیا میں دختر مشرق بن جائے گی۔ بھٹو صاحب کہا کرتے تھے کہ ،، میری بیٹی اندرا گاندھی سے بڑی لیڈر بنے گی،،۔ ان کی یہ بات کس قدر سچ ثابت ہوئی کہ پنکی نے نہ صرف پاکستان کی سیاسی تاریخ اور رویوں کو نئی جہت عطا کی بلکہ مغربی ممالک اور پورے عالم میں سیاست کے افق پر چوہدویں کا چاند بن کر ابھری۔بھٹو صاحب کی پنکی نے پاکستان کو دنیا بھر میں متعارف کروایا اور جمہوریت کی خاطر اپنی جان قربان کر ڈالی۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان آ رہی تھی ،تو غیر ملکی ایجنسیوں نے انہیں خطرات سے آگاہ کر دیا تھا کہ پاکستان میں حتیٰ کہ آپ کی جان بھی جا سکتی ہے۔ لیکن بھلا قائد عوام کی بیٹی عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر کیسے اپنے باپ کے نقش قدم پر نہ چلتی۔ محترمہ نے بغیر کسی خطرے کی پرواہ کئے علیٰ الا علان یہ کہا تھا کہ وہ پاکستانی عوام کی خاطر اپنی جان قربان کر سکتی ہیں ،مگر ان پر ظلم و ستم ہوتا نہیں دیکھ سکتیں۔بھٹو صاحب کی ننھی پنکی اندرا گاندھی سے تو واقعی بڑی سیاسی لیڈر بنی لیکن ظالموں نے پاکستان کی ترقی کو برداشت نہ کیا اور انہیں بھی ان کے باپ کی طرح نا کردہ گناہ کے جرم کی پاداش میں شہید کر دیا۔ بی بی کو جسمانی طور پر تو بیوقوفوں نے مار ڈالا ،لیکن لوگوں کے دلوں سے ان کی عقیدت شائد کبھی بھی نہ ختم ہو سکے۔بی بی 21جون 1953ء کو سندھ میں پیدا ہوئیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیمLady Jennings Nursery School اور Convent of Jesus and Mary سکولز کراچی سے حاصل کی۔بعد میں انہیں مری کے ایک دارےJesus and Maryمیں داخل کروایا گیا۔دو سال تک انہوں نے Rawalpindi Presentation Convent میں بھی تعلیم حاصل کی۔انہوں نے پندرہ برس کی عمر میں او لیول پاس کیا اور ہاورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔انہوں نے ہاورڈ یونیورسٹی سے سیا سیات میں ماسٹر کیا اور پھر وہ آکسفورڈ میں داخل ہو گئیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے بے نظیر بھٹو نے معاشیات،فلسفہ اورسیاسیات میں ایم اے کیا۔ بی بی آکسفورڈ کی مقبول ترین پاکستانی نژاد طالبہ تھیں۔ بے نظیر بھٹو 1977ء کو برطانیہ سے پاکستان آئیں۔لیکن ان کے پاکستان پہنچتے ہی دو ہفتوں کے اندر ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کو جیل بھیج دیا اور ملک میں مارشل لاء لگا دیا اور ساتھ ہی ساتھ محترمہ کو بھی نظر بند کر دیا۔اپریل 1979ء میں قتل کے ایک متنازعہ کیس میں سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنا دی۔ اس کے تین برس بعد تک ملک میںضیاء کا مارشل لاء برقرار رہا اور پھر جنرل ضیاء کی ایماء پر ہی جمہوری ڈرامہ رچایا گیا۔یہ جمہوریت کو بحال کرنے کی پہلی کاوش تھی جو محترمہ نے غلام مصطفیٰ کھر کے سپرد اے آر ڈی کا اتحاد بنا کر 1981ء میں شروع کی۔ غلام مصطفی کھر اس کاوش سے دستبردار ہو گئے لیکن لوگوں نے اپنے طور پر بحالی جمہوریت کے لئے کاوشوں میں کمی نہ آنے دی۔1983 ء میں بی بی کو جیل سے رہا کر کہ جلا وطن کر دیا گیا۔بی بی جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد 1986ء میںکراچی اائر پورٹ میں ان کا فقید المثال استقبال ہوا۔تاریخ شاہد ہے کہ اسی روز بی بی پنکی سے اندرا گاندھی سے عظیم عورت بن گئیں۔اور ذوالفقار علی بھٹو کے خوابوں کو تعبیر مل گئی۔1987ء میں نواب شاہ کے جاگیر دار حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی زرداری سے بی بی رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔اسی دوران 17اگست کو جنرل ضیاء طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے اور جمہوریت کے دروازے پر بیٹھا اژدھا ہٹا ،جس کی وجہ سے باب جمہوریت کھلا۔ سینٹ کے چئیرمین غلام اسحٰق خان کو عبوری صدر بنا دیا گیا اور عام انتخابات کا اعلان16نومبر 1988ء کے لئے کر دیا گیا۔ان انتخابات میں دختر مشرق کی جماعت نے واضح اکثریت حاصل کی اور اسلامی تاریخ میں کم عمر ترین وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو منتخب ہو گئیں۔محترمہ کو جمہوری مدت پوری کرنے سے پہلے اگست 1990ء میں برطرف کر دیا گیا۔پھر دو اکتوبر کو الیکشن ہوئے جس میں نواز شریف بر سر اقتدار آئے۔1993 ء میں نواز شریف کو بھی بر طرف کر دیا گیا اور اکتوبر 93ء میں دوبارہ الیکشن ہوئے جس میں پیپلز پارٹی کی قائد محترمہ بے نظیر دوسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔لیکن ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس وقت کے صدر فاروق احمد خان لغاری نے 1996ء کو پھر بر طرف کر دیا۔بی بی نے اقتدار سنبھالتے ہی سکھوں کی علیحدگی کی تحریک خالصتان بند کروائی جو ضیاء دور میں شروع کی گئی تھی۔بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کو بھی قتل کر دیا گیا اور بے نظیر کو ایک دفعہ پھر جلا وطن کر دیا گیا۔بے نظیر بھٹو نے دوبئی میں سکونت اختیار کی۔وہاں انہوں نے اپوزیشن جماعتوں سے مل کر ARD کی بنیاد رکھی۔بے نظیر بھٹو نے نواز شریف کے ساتھ مل کر پرویز مشرف کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔ لندن میں 14مئی 2006ء کو میثاق جمہوریت پر نواز شریف اور بے نظیر نے ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے کے معاہدے پر دستخط کئے۔28مئی کو جنرل مشرف اور بی بی کے درمیان ایک ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد ساڑھے آٹھ سال کی جلا وطنی کے بعد بی بی 18اکتوبر کو وطن واپس پہنچیں تو کراچی ائر پورٹ پر ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔بی بی کا قافلہ شاہراہ فیصل کے قریب سے گزر ہا تھا تو زور دار دھماکے ہوئے جس میں ایک سو پچاس افراد شہید ہو گئے۔اسی دوران دضتر مشرق اپنے بچوں سے ملنے دبئی گئیں تو جنرل مشرف نے 3نومبر کو ملک میں ایمر جنسی نافذ کر دی۔ اس پر بی بی دوبارہ پاکستان تشریف لائیں۔بی بی نے ایمر جنسی کے خاتمے،ٹی وی چینلز پر سے پابندی ہٹانے اور جمہوریت کی بحالی کے لئے حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔انہوں نے ججز کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت انتخابات کے لئے مختلف جماعتیں میدان میں اتر چکی تھیں۔ بی بی نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔آج دختر مشرق ہم میں موجود نہیں لیکن ان کی تاریخی تقریر کے وہ الفاظ جو انہوں نے لیاقت باغ میں 27دسمبر 2007ء کو کی تھی میرے دماغ کے کسی کونے میں سرگوشیاں کر رہے ہیں۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں،،آپ کا اور میرا ملک خطرے میں ہے،سوہنی دھرتی مجھے پکار رہی ہے،ہم دہشت گردوں کے آگے ہتھیار نہیں ڈالیں گے،قبائلی علاقوں میں ہمیشہ سبز ہلالی پرچم لہراتا رہے گا،پاکستان کے لئے میرے والد کو شہید کر دیا گیا۔۔۔ میرے دو بھائی مار دئیے گئے،میرے شوہر کو جیل میں رکھا گیا،مجھے پارٹی قیادت سمیت ختم کرنے کی کوشش کی گئی،میری ماں کو سڑکوں پر لاٹھیاں ماری گئیں،لیکن ہم موت سے نہیں ڈرتے،ہم عوام کی طاقت سے انتہاء پسندوں کو شکست دیں گے اور پاکستان کا پرچم ہمیشہ بلند رکھیں گے،،۔بھٹو صاحب کو اپنی پنکی کی صلاحیتوں کا بخوبی ادراک تھا۔ اسی وجہ سے انہوں نے1977ء میں آئینی پٹیشن دائر کرتے ہوئے ضیاء الحق کو لکھا تھا کہ،،پاکستان کے کسی بھی حلقے سے میری بیٹی کے مقابلے میں الیکشن لڑ کر دیکھ لو ،مجھے یقین ہے کہ نہ صرف وہ تمہیں شکست دے گی بلکہ تمہاری ضمانتیں بھی ضبط کرا دے گی،آئو میرے اس چیلنج کو قبول کرو، تم ایک ،،مومن،، ہو اور میں ایک ،،مجرم،، پھر ایک مجرم کی بیٹی سے کیوں ڈرتے ہو؟،،بھٹو صاحب کو اپنے بیٹوں سے زیادہ اپنی بیٹی پر اعتماد تھا۔
وہ جانتے تھے کہ بے نظیر بھٹو نڈر،بہادر،ذہین،بلند حوصلہ اور کبھی ہمت نہ ہارنے والی خاتون ہے۔ اسی لئے انہوں نے محترمہ کو اپنا سیاسی جانشین بنایا۔
دختر مشرق کی خوبصورت آنکھیں کبھی باپ کی موت پر نم ہوتی اور کبھی ایک بھائی کے دیار غیر میں مارے جانے پر۔ کبھی ان آ نکھوں میں کراچی میں قتل ہونے والے بھائی کے لئے آنسو ابھر آتے اور کبھی شوہر کی اسیری پر یہ آ نکھیں نمناک رہتیں۔کبھی اپنے ماں کے زندہ درگور ہونے پر اور کبھی اپنی مٹی اور عوام سے جدائی اور جلا وطنی کے غم میں ان کی آنکھیں اشک بہاتیں۔لیکن انہوں نے کبھی بھی اس کا اظہار نہیں کیا اور آمریت کے خلاف نبرد زما رہیں۔جنرل ضیاء کے خلاف محاذ آراء ہونے والی بی بی نے اپنے باپ کے مشن کو جاری رکھنے کا عزم صمیم کیا اور بھٹو صاحب کی پنکی کو وقت نے نڈر،بہادر،جمہوریت کی علمبردار اور چاروں صوبوں کی زنجیر بنا ڈالا۔وقت کے بدلتے ہوئے دھارے نے پنکی کو میدان سیاست کی ،،بی بی،، اور ملک کی عظیم سیاستدان بنا ڈالا۔
27دسمبر2007کو جب دختر مشرق لیاقت باغ میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کے بعد واپس جا رہی تھیں تو پیپلز یوتھ کے نوجوانوں نے ان کے حق میں نعرہ بازی شروع کی تو ان بد قسمت ساعتوں میں بی بی نے کارکنوں کو جواب دینے کے لئے گاڑی کا سن روف کھول کر ہاتھ ہلائے ،اسی اثناء میں ایک فائر ہوا اور ساتھ ہی ایک خود کش دھماکہ بھی۔ دختر مشرق اور چاروں صوبوں کی زنجیر کو بے گناہ مار دیا گیا۔بی بی کو جنرل ہسپتال لے جایا گیا لیکن گھائو گہرے تھے۔ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ خالق حقیقی سے جا ملیں۔27دسمبر ملکی تاریخ کا وہ المناک دن ہے ،جب ملکی بقاء اور لوگوں کے دلوں میں وطن کی محبت ابھارنے،سلطانی جمہور کا پیغام دینے،اور چاروں صوبوں کو یکجا کرنے والی عظیم خاتون اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں۔انہیں اپنے والد کی قبر کے قریب گڑھی خدا بخش میں منوں مٹی تلے دفن کر دیا گیا۔اور پاکستان کی تاریخ کا سنہری سیاسی باب ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button