کالم

وہ بھی کیا وقت تھا

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ یہ شوشل میڈیا نہ تھا تو زندگی کتنی خوب صورت اور پر سکون تھی لوگ ملکی صورتحال سے اپنے آپ کو باخبر رکھنے کے لیے اخبار پڑھتے تھے ریڈیو سنتے تھے ۔ لوگ خاص کر نوجوان نسل لائبریری میں جاتے ، وہاں پر کتابیں پڑھتے تھے ۔ اس وقت کے لوگوں کا لیٹریچر کے ساتھ محبت تھا ، مصنفین شوق سے لکھتے تھے کیونکہ پڑھنے والے تھے اور مصنف کے ذہن میں بھی یہ خیال تھا کہ میں جو کچھ لکھ رہا ہوں اس کو پڑھنے والے بھی موجود ہیں ۔ امریکی ناول نگار ” جان چیور ” نے کہا تھا I can not write without a reader. It’s precisely like a kiss you can’t do it alone. ” میں قاری کے بغیر نہیں لکھ سکتا۔ یہ بالکل ایک بوسے کی طرح ہے جسے آپ اکیلے نہیں کر سکتے” اگر لکھنے کی بات کریں تو مصنف اور قاری کا ایک گہرا رشتہ ہوتا ہے ، کیونکہ جس وقت قاری تحریر ، افسانہ ، ناول ، کالم جو کچھ بھی پڑھتا ہے تو زیادہ پڑھنے کے بعد دونوں قاری اور لکھاری کا سوچ ایک ہوجاتا ہے ۔ قاری آسانی سے مصنف کی سوچ اور خیالات کو سمجھ سکتا ہے ، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ قاری اتنی گہرائی میں جاتا جہاں پر دونوں کے خیالات کچھ حد تک ایک ہوجاتے ہیں ۔ جس نے کتابیں پڑھیں ہو ان کو یہ بہتر پتا ہوگا ۔ کوئی بھی کتاب پڑھنے کے لیے انسان کو تنہائی اور خاموشی درکار ہوتی ہے ۔ تب ہی وہ آسانی سے مصنف کی لکھی ہوئی باتوں کو سمجھ سکتا ہے ۔ کتاب پڑھنا اور اس کو سمجھنا آسان کام نہیں ہے ، پرانے زمانے میں جب لکھاری جو کچھ لکھتا تھا تو اس کو پڑھنے والے بھی موجود تھے ۔ اور باقاعدہ تحریر پڑھ کے ان کو ای میل یا خط کے ذریعے اپنا کومنٹس یا رائے بھی بھیجتے تھے ۔ لیکن اچانک ایک تیز ہوا آئی ، اور اس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا آج ہر کسی کے ہاتھ میں موبائل فون ہے ، اور اسی پانچ انچ کی الیکٹرانک آلے نے انسان کی زندگی تبدیل کر دی ۔ پرانے زمانے میں لوگ حجروں میں بیٹھتے تھے ۔اپنے بزرگوں سے کچھ سیکھتے تھے اس زمانے کے لوگوں میں عزت ، ادب اور احترام تھا ، لیکن وہ لوگ آج کے دور میں بہت کم ہے ۔ اسی طرح اگر ڈرامے کی بارے میں بات کریں تو ایک وقت تھا کہ شام کی وقت گھر میں سب مل کر ٹیلی وژن پر ڈرامہ دیکھتے تھے نوجوان نسل کی ہاتھوں میں موبائل کی جگہ کتاب یا مگیزین ہوتا تھا ایک پیار کا رشتہ نوجوانوں اور کتاب کی درمیان تھا ۔ کچھ وقت پہلے ایک بڑے عمر کی شخص سے گفتگو کر رہا تھا انھوں نے اپنے جوانی کے بارے میں بتایا کہ میں جب جوان تھا ۔ میرے دور میں ریڈیو سنے کا مزہ ہی الگ تھا لوگ بہت شوق سے ریڈیو پروگرامز سنتے تھے ۔ بازار میں ہر دوکاندار کی پاس ریڈیو ہوتا تھا اور وہ پروگرامز کے وقت یاد رکھتے تھے کہ اس وقت یہ یہ پروگرام نشر ہوگا ۔ اس میں تفریح اور حالات حاضرہ کے پروگرامز ہوتے تھے کرنٹ افیر پر سینر اور قابل تجزیہ نگار گفتگو کیا کرتے تھے انھوں نے بتایا کہ سنے والوں کی یہ خواہش ہوتیں تھیں کہ کس طرح ہم ان لوگوں سے ملے جو پروگرامز کرتے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ جب میں خود ریڈیو سنتا تھا تو میرے دل و دماغ میں یہ خواہش پیدا ہوتا تھا کہ یہ بات کرنے والا کس طرح ہوگا میں ان سے کیسے ملوں گا انھوں نے کہا کہ جب فون پر بات کرنے کا موقع ملتا تھا تو میں بہت خوش ہوتا کہ چلو کال پر تو بات ہوئی ایک دن ملے گے بھی ۔ انھوں نے کہا کہ جب ہم شادی بیاہ یا بازار میں جاتے تھے اور وہاں پر باتوں سے ہم ریڈیو پروگرام میزبان کو پہچانتے اور پھر ان کے قریب جاتے اور خوشی خوشی ان سے پوچھتے کہ آپ ریڈیو پر پروگرام کرتے ہو اس طرح ان کے ساتھ ہماری بات چیت ہوتی تھی ۔ ایک پیار و محبت کا رشتہ ہمارا اور انکے کے بیچ میں تھا ۔ لیکن آہستہ آہستہ ہوا نے حالات کا رخ بدلا اور سوشل میڈیا میدان میں آیا اس نے بہت کم وقت میں بہت ترقی کر لی اور لوگ اس سوشل میڈیا جیسے لاعلاج مرض میں مبتلا ہوئے اس سوشل میڈیا کی وجہ سے نوجوانوں نے کتاب زمین پر رکھ دیا اور موبائل کو جیب میں رکھا اسی طرح لائیرریوں و کتابوں کو چھوڑ کر سوشل میڈیا پر ناچنا شروع کیا آج کا نوجوان غم و خوشی ہر وقت موبائل میں مصروف رہتا ہے دکھ کی بات یہ کہ ہمارے بچے اور بچیاں بولتیں ہیں کہ وہ پرانہ زمانہ ختم ہوگیا یہ نیا دور ہے یعنی ماڈرن دور اب یہاں پر ایک بنیادی سوال میرے زہن میں بھی ہے اور شاید یہ کالم پڑھنے والوں کی ذہن میں بھی پیدا ہوگا یہ تو سب کو معلوم ہے کہ پرانے زمانے کے شادی بیاہ میں طوائفیں رات کو حجروں میں مردوں کے سامنے ناچتی تھیں اور شادی والے ان کو پیسے دیتے تھے آج کے دور میں نوجوان لڑکیاں جب سوشل میڈیا پر ناچتی ہے تو ہر ذی شعور شخص کے دل و دماغ میں سوال پیدا ہوگا کہ جس کو یہ لڑکیاں ماڈرنزم کہتی ہے کیا یہ ماڈرنزم ہے ؟ پرانے وقتوں میں لڑکیاں اور لڑکے کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے جاتے تھے اور ان میں یہ احساس ہوتا تھا کہ میری زندگی اور تعلیم کے ساتھ میری فیملی کی بہت ساری امیدیں جڑی ہوئی ہیں وہ شوق سے پڑھتی تھی اور اپنی فیملی کا نام روشن کرتی تھی وہ کسی کی بڑی گاڑی ، گاں ، پیسوں اور کاروبار سے متاثر نہیں ہوتی بلکہ ان کی نظریں ہمیشہ اپنی منزل کی طرف ہوتیں تھیں لیکن آج ایسا نہیں ہے میرے خیال میں آج یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اکثریت لڑکیاں اور لڑکے صرف عشق و محبت اور عیش و عشرت کے لیے جاتے ہیں آج کل کی لڑکیاں یونیورسٹیوں میں ڈانس کرتیں ہیں اور پھر اس کو اپنی سوشل میڈیا اکانٹ پر اپلوڈ کرتی ہے کہتی ہے کہ ہماری فالوورز بڑھے اور زیادہ سے زیادہ لوگ سوشل میڈیا پر مجھے دیکھے صرف دو سیکنڈ کی لیے میں مان لیتا ہوں کہ آپ کو بہت سے لوگوں نے دیکھا آپکی ویڈیوز کو بہت سے لوگوں نے پسند بھی کیا آپ کو کمنٹ سکشن میں یہ بھی بتایا کہ آپ بہت خوب صورت ہے حسین و جمیل ہے آپکی ڈھیر ساری تصارفیں بھی کی لیکن یہاں سوالات پیدا ہوتے ہیں ایک کہ اس کیا ہو جائے گا ؟ دوسرا کہ آپ تعلیمی ادارے میں کیوں آتی ہے یہ کام تو گھر میں بھی ہوسکتے ہیں اگر دیکھا جائے تو یہ بھی میری نظر میں نفسیاتی بیماریوں میں سے ایک ہیں کہ کوئی اپنی بیڈ روم سے لے کر کھانے اور کپڑوں تک دوسروں کو دکھاتے ہیں ۔ کہ میرے ساتھ یہ ہے میرا مرتبہ سب سے بڑا ہے میرے ساتھ سب کچھ ہے لیکن میرے نزدیک ان سے جاہل شخص دنیا میں نہیں ۔ یہ بھی ایک مسلہ ہے ہمارے صحافیوں کو سیاسیات پر باتیں کرنے سے فرصت نہیں ملتی ورنہ اس پر بات کرنا بھی ضروری ہے اگر ہم اس مسلے کی گہرائی میں جائے تو اس میں قصوروار والدین بھی ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے بچوں کو کھلا چھوڑا ہیں والدیں کو چاہیے کہ مہینے میں ایک بار تعلیمی ادارے میں جاے اور اپنے بچوں کے متعلق ان کے اساتذہ کرام سے پوچھے کہ میرا بیٹا یا بیٹی کلاس میں آتی ہے یا نہیں والدین کا حق ہے کہ گھر میں بھی بچی سے تعلیم بارے میں پوچھے اور اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ان سے بات چیت کریں ان سے یہ مسلہ آہستہ آہستہ کم ہو جائے گا آج کل تک ٹاک بہت عام ہے اور روکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہر کوئی چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ٹک ٹاک بناتا اور استعمال کرتا ہے اس لاعلاج مرض میں اکثریت پاکستانی اور خاص کر نوجوان طبقہ مبتلہ ہے ٹک ٹاک کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آیا کچھ روز قبل صبح کے وقت پبلک ٹرانسپورٹ میں جارہا تھا تو میرے ساتھ سیٹ پر ایک نوجوان بیٹھا تھا کالج یونیوفام بھی پہنا تھا اور ہاتھ میں موبائل تھا ٹک ٹاک دیکھ رہا تھا اور کان میں بلو ٹوتھ بھی لگایا تھا تقریبا تیس منٹ بعد میں بس سے اترنے والا تھا تو آگے لڑکیاں کچھ بیٹھی اور کچھ کھڑی تھیں اکثریت لڑکیوں کے ساتھ سکول بیگ تھیں جب میں نے دیکھا تو کچھ لڑکیاں کھڑے کھڑے موبائل فون استعمال کرہی تھیں خیر جب میں بس سے نیچے اترا سوچ رہا تھا کہ یہ پاکستان کا مستقبل ہے
یہ خاک تعلیم حاصل کریں گی جو بندہ یا بندی کی دن کی شروعات ٹک ٹاک سے ہوتی ہے تو وہ بندہ یا بندی کالج یا یونیورسٹی میں کیسے پڑھائی کریں گی ۔ موجودہ دور میں نوجوان نسل احساس کمتری کا شکار ہے وہ کہتا ہے کہ میرے کالج میں فلاح بندے کے پس مہنگا فون ہے میرے پاس کیوں نہیں ہے میرے پاس وہی چالیس ہزار کا فون ہے اسی طرح لڑکیاں بھی اس بیماری میں اپنے آپ کو مبتلا کرتیں ہیں کہ میری سہیلیاں روز چھٹی کی بعد اچھے ریسٹورنٹ میں جاتیں ہیں لیکن میرے پاس نہ پیسے ہیں اور نہ کوئی امیر لڑکا مجھ سے دوستی کرتا ہے اسی طرح بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی لڑکے کے والد محترم کی گاڑیوں کی بارگین ہوتا ہے وہ روز مختلف قسم کی گاڑی میں آتا ہے اس سے لڑکے اور لڑکیاں متاثر ہوتیں ہیں کہ دیکھو ان کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ یہ روز مختلف گاڑی میں آتا جاتا ہے لیکن ہمارے پاس کچھ نہیں ہے ایسے میں زیادہ تر لڑکیاں و لڑکے ذہنی بیماری کی شکار ہوتے ہیں پھر وہ نہ پڑھنے میں دلچسپی لیتا ہے نہ سبق شوق سے پڑھتا ہے لیکن ان لوگوں کو حقیقت کا پتہ نہیں چلتا جب معلوم ہوتا ہے تو کچھ نہیں ہوتا تو لڑکیوں کو چاہیے کہ کسی سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ خود ایک ایسا اچھا کام کریں تعلیمی میدان میں مقابلہ کریں ۔ کہ پھر یہ لوگ جو ہر وقت کسی کی بھی دولت ، کاروبار اور گاڑیوں سے متاثر ہوتے تھے اور ان کے پیچھے بھاگتے تھے ہر وقت ان کی گیت گاتے تھے وہ ایک دن ضرور اپنے اس کاموں پر افسوس کرینگے لیکن ان کے پاس وقت نہیں ہوگا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button