کالم

” 2024ء سے وابستہ امیدیں”

20 ویں صدی کے 24 ویں برس نے دستک دے دی ہے، نیا برس کیسا ہوگا؟ زہن کو اطراف سے خدشات ‘ وسوسوں ‘ اندیشوں اور انجانے خوف نے گھیرا ہوا ہے کیا آنے والے برس میں روٹی 25 اور چائے کا کپ 60 روپے کا ہی رہے گا۔ ہے کوئی ماہر معاشیات جو اس سوال کا جواب دے سکے؟ آپ وزارت خزانہ اور اقتصادی امور سے متعلقین کی پندو نصحتیں سنیں، معاشی اعشاریے دیکھیں ‘ جادوگری سے مزین اور اسٹاک ایکسچینج سے جڑے اتار چڑھاؤ دیکھیں آپ کو معاشرتی اور عوامی زندگی ”جنت ” نظر آئے گی۔ خلیل جبران کا ایک درد بھرا جملہ سارے کے سارے معاشی اعدادوشمار اور معاشی اندازے زمین بوس کر دیتا ہے ،مغربی سکالر کہتے ہیں !! ”جس کے گھر میں بھوک کا بسیرا ہو اور جس کی جیب خالی ہو آپ نے اس مجبور سے اصول’ قاعدے ‘ قانون اور ضابطے کی بات نہیں کرنی”اب 14 اگست 1947ء کو معرض وجود میں آنے والی ریاست کے باشندوں کی طرف نظر دوڑائیں: 24 کروڑ افراد میں سے 12 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ 5 کروڑ نونہال ایسے ہیں جو آج بھی سکول ایجوکیشن سے محروم ہیں۔ دو کروڑ 87 لاکھ گریجویٹس نوکریوں کیلئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔2023ء میں اعلی تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد میں مزید کمی آگئی ہے ۔ ہم یہاں ایچ ای سی کا تعلیمی گوشوارہ پیش کر دیں تو پریشانی بڑھ جائے گی۔ سابق آئی جی مرحوم ناصر درانی کہا کرتے تھے کہ روزگار کی عدم فراہمی نے نوجوان ذہنوں کو ”بیمار” کر دیا ہے، نفسیاتی مریض سے بے راہ روی اور جرائم سمیت کچھ بھی کرنے کی توقع ہے۔ پاکستان بھر کی جیلوں میں قیدیوں کو دیکھ لیں آپ کو زیادہ تعداد نوجوان نسل کی ملے گی ۔یہ ہے کہ قائداعظم کا وہ پاکستان جس کیلئے77 برس قبل تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی گئی…یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ معاشی زندگی دراصل معاشی مسئلے کا دوسرا نام ہے اور یہ جملہ جاندار مخلوق میں بقائے حیات اور وسائل زندگی کے حصول کے فطری جذبے کی صورت میں موجود ہے نباتات میں نشو ونما کا احساس بھی اسی فطری جذبے کی ایک صورت ہے انسانوں میں بھی معاشی مسئلہ ایک عالم گیر حیثیت رکھتا ہے اسے فرد ،خاںداں قوم اور اقوام عالم میں برابر اہمیت حاصل ہے دنیا کے وجود سے ہی انسان معاشی مسئلہ سے دو چار دکھائی دیتا ہے اور انسان ہمیشہ روزی کا متلاشی رہا ہے اور روزی کے حصول کے لئے اس نے ہر حربہ استعمال کیا یے اسلامی نقظہ نظر روزی کمانا انسانی زندگی کا ایک اہم مسئلہ ہے لیکن اس کے نزدیک معاشی مسئلہ صرف معاشی نہیں بلکہ بیک وقت معاشرتی دینی اور اخلاقی ایمیتیوں کا حامل ہے اور دور حاضر میں تو اسے سیاسی اہمیت بھی حاصل ہو گئی ہے انسان آج تک اس مسئلہ کو حل کر نے کے لئے کوشاں ہے اور اس نے اصل اہمیت کو نظر انداز کر کے دولت کی فراوانی حاصل کی سائنسی و ایٹمی ترقی سے وسائل میں کثرت کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے آرام و آسائش کا سامان جمع کیا مگر انسانیت کا معاشی مسئلہ حل نہ کر سکا اور نہ انسانوں کو خوشحالی نصیب ہوئی کیا یہ حقیقت نہیں کہ وسائل و ذرائع کی اس دنیا میں 22افریقی ممالک کے لاکھوں انسان بھوکوں مر رہے ہیں اس گھمبیر صورت حال کے پیش نظر اگر یہ کہا جائے کہ ایک مخصوص طبقے کو چھوڑ کر آج بھی انسان مجموعی طور پر بھوک اور معاش کا شکا ر ہے اس اہم معاشی مسئلہ کا حل یہ ہے کہ اسکو صرف روٹی ،مکان اور کپڑا کا مسئلہ نہ سمجھا جائے اور نہ یہ محض دولت کمانے کا مسئلہ ہے اس کو تمام انسانی مسائل۔ کا حصہ قرار دیا جائے اور اس کی اہمیت معاشی سیاسی اور مذہبی و اخلاقی مسائل کی روشنی میں متعین کی جائے ۔ رسول محتشم ۖنے انسانوں کو معاشی مسئلے کے حل کے ضمن میں کسب حلال کا درس دیا خدمت خلق اور رفاء عامہ کے کاموں کی طرف رغبت دلائی ۔دین کی معاشی زندگی اور تعلیمات کی روشنی میں انسان بہتر زندگی گزار سکتا ہے۔ ہادی کل عالم ۖ کی مبارک معاشی زندگی کی اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ ذاتی ضروریات پر دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دی جائے کیونکہ ضرورت مند کی امداد اصل معاشی زندگی ہے ہمارے نبیۖ نے اعلیٰ مقاصد کی تکمیل کے سلسلے میں وسائل نعاش کو اختیار فرمایا مگر آپۖ نے انہیں کبھی مقصود زندگی نہ بنایا آپ ۖنے ہمیشہ اپنی معاشی کوششوں کو افراد معاشرہ کی فلاح و بہبود کے لئے صرف کیا اور ذاتی سرمایا مسلمانوں کی بھلائی پر صرف کیا کسب حلال کے ذریعے ہی معاشی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ رفاء عامہ اور لوگوں کے مفادات کو ترجیح دی جائے ۔ آج بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنا شروع کر دیں تو اپنے معاشی مسائل کے گرداب سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں ۔کہاں ہے منصوبہ بندی’ کہاں ہے پانچ ‘ دس یا پندرہ سالہ معاشی پروگرام؟ دوسری طرف انتقام’ بدلہ’ حسد اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانا قومی سیاست بنتی جارہی ہے!!
کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں
ہزاروں ہیں شکوے کیا کیا بتاؤں
قوم کی غیر معمولی حالات میں نیا برس مبارک، اس سوا ہمارے پاس کہنے کو کچھ نہیں !

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button