کالم

آزادکشمیر کے سول پنشنرز اور حکومت آزادکشمیر کی سرد مہری

اللہ کا شکر ہے کہ آزادکشمیر کے پنشنرز سکیل 1 سے 22 کی رجسٹرڈ تنظیم ایک عرصہ سے کام کر رہی ہے۔ رجسٹریشن کا کام گل زمان قاصد (مرحوم) اور ان کی ٹیم نے انجام دیا تھا۔ وہ ہمارے تا حیات صدر رہے۔ انہوں نے ایک ایسی بنیاد مہیا کی جس سے رہنمائی حاصل کر کے بزرگوں کے مسائل آگے لائے جا سکتے ہیں۔ وہ بڑے باکمال تھے۔ اللہ تعالیٰ گل زمان قاصد (مرحوم) اور ان کے مرحومین ساتھیوں کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور جو حیات ہیں اللہ تعالیٰ ان کو حفظ و امان میں رکھے۔ آزادکشمیر میں بیوہ بیٹی کی پنشن پاکستان کے مغائر چند ماہ سے بند کر دی گئی ہے جس سے ساڑھے تین صد (350) کے قریب خواتین متاثر ہو گئیں۔ اب بیوہ بیٹی کہاں جائے۔ یہ ظلم عظیم ہے۔ نا انصافیاں آپ کو لے کر ڈوب جائیں گی۔ کسی کی آہ اگر لگ گئی تو لگ پتہ جائے گا۔ چونکہ مظلوم کی آہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں۔ بہانہ یہ کیا کہ پاکستان کا آرڈر انڈورس نہیں کیا گیا۔ یہ ایک سازش ہے اور ہم نے اگر اسے بے نقاب کیا تو پھر منہ چھپانے کو جگہ نہ ہو گی۔ آزادکشمیر نے کبھی بھی پنشن میں اپنے طور پر ایک روپے کا اضافہ نہیں دیا جو کچھ وفاق اور پنجاب میں اضافہ ہوتا ہے ملتا ہے اور رقم بھی حکومت پاکستان دیتی ہے۔ اب پنشن بیوہ بیٹی کی بند کرنا انتہائی افسوسناک ، شرمناک اور خوفناک ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ گزشتہ سال کا تین ماہ کا بقایا بحساب 10% پاکستان کے چاروں صوبوں اور جی بی و عسکری پنشنرز کو دیا گیا۔ آزادکشمیر کے پنشنرز محروم ہیں۔ تین وزیراعظم آزادکشمیر بدل گئے۔ ہماری بات کوئی نہیں سنتا۔ آزادکشمیر حساس مشکل اور کٹھن خطہ ہے اور ہمارے زیادہ تر حلقہ جات سیز فائر لائن سے جا ملتے ہیں۔ اور اس پار آپ کا منفی پیغام جاتا ہے۔ تیسرا گرانٹ آف میڈیکل کا تھا جس سے یہاں کے بزرگ پنشنرز محروم ہیں۔ ہم نے کبھی کوئی ایسا مطالبہ نہیں کیا جس کی جوازیت نہ ہو۔ الحمدللہ آج کل لینٹ آفیسران کا ہمارے ساتھ ہمدردانہ رویہ ہے۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ تقریباً ان سب لینٹ آفیسران سے ہماری بات ہوئی۔ یہ حوصلہ افزا ہے لیکن اس خرابی کی منظوری جناب وزیراعظم نے دینی ہے۔ جو جائز مسائل کیوں نہیں حل کر رہے ہیں؟ عالیجاہ! ویلفیئر ممالک میں 60 سال سے اگر کوئی بھی زیادہ عمر کا ہو جائے اسے پنشن ملتی ہے۔ مفت علاج ، سفر میں سہولیات اور سینئر سٹیزن کی مراعات حاصل ہوتی ہیں۔ ہمارے بزرگ پنشنرز خواتین و حضرات کو پریشان کیا جاتا ہے اور بلا وجہ جائز مسائل میں رکاوٹ پیدا کی جاتی ہے۔ جو ملازم ریٹائر ہو کر پنشن حاصل کرتا ہے وہ باعزت ریٹائرمنٹ شمار ہوتی ہے اور اس خدمت کا صلہ جو اس نے جوانی کی توانائیاں ریاست کے لئے انجام دی ہیں یہ اس لئے پنشن کے طور ملتی ہے۔ اب ایک چوکیدار جس کے ذمے سرکاری بلڈنگ کی حفاظت کرنا تھی وہ چالیس سال تک خبردار خبردار کرتا رہا اور اس نے حفاظت کی۔ اس کا یہی فرض تھا نہ کہ اس نے کشمیر کو فتح کرنا تھا۔ آج کل اخبارات میں ترکی کے بزرگ پنشنرز کی ایک خبر آئی ہے جو میڈیا میں بڑی اہم ہے۔ کہ بزرگ پنشنرز نے حکومت ترکیہ کو دھمکی دی کہ ہماری پنشن میں اضافہ کریں اگر ایسا نہ ہوا تو ہم بیس سالہ لڑکیوں سے شادی کریں گے اور حکومت کو پچاس سال تک پنشن دینا پڑے گی۔ اس پر حکومت ترکیہ نے پنشن میں 40% اضافہ کر دیا۔ ہمارے ہاں بھی بزرگوں کے کان کھڑے ہو گئے ہیں۔ بہر کیف دوسرا ایک اہم مسئلہ بھارتی ریاست ہریانہ میں 75 سال کی عمر کے درختوں کو 2750 (دو ہزار سات صد پچاس) روپے ماہوار انڈین گورنمنٹ پنشن دے گی۔ اس سکیم کا نام ”پران وایو دیوتا بوجنا” ہے۔ ہماری کرنسی تین روپے اور انڈیا کی 1 روپیہ ہے۔ اس سکیم سے تو ماحولیات کے حوالے سے زبردست پذیرائی ملے گی۔ ویسے بھی مجھے بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں اکثر ہزاروں میل تک سڑکوں کے کنارے پھلدار درخت لگے ہوئے ہیں۔ ویسے بھی ایک پچاس سالہ درخت کی Worth 193250 ڈالر ہے۔ جس میں لکڑی کی قیمت شامل نہیں۔ کاش کہ کوئی چارہ گری ادھر بھی ہوتی۔ ہمیں لیپہ ویلی میں سروس کرنے کا موقع ملا جہاں پر بے پناہ بندوبستی رقبہ جات پر کاغذی اخروٹ کے درخت تھے ہم نے اس کی وجہ پوچھی معلوم ہوا کہ پہلے لوگ بچے کے پیدا ہونے پر اس کے نام ایک اخروٹ لگا لیتے تھے یعنی بوٹا لگ گیا۔ اچھا وہاں سے اخروٹ کا وسیع کاروبار ہم نے دیکھا۔ اخروٹ سے جو گریاں نکال کر پاکستان کی منڈیوں میں فروخت ہوتی تھیں یوں ہزاروں لوگوں کا کاروبار اس سے چلتا تھا۔ اخروٹوں سے گریاں نکالنے میں خواتین و حضرات ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔ جیسے لیتری کی طرح ہوتا تھا۔ اب شاید موبائل کے اس جدید دور میں وہ رسمیں ترک ہو چکی ہوں گی۔ یہ انقلاب ایسے نہیں آتے یہ سبز انقلاب کسی گہرے فلسفے کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر ہماری حکومتیں کوئی ایسے پراجیکٹ تیار کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم پانی کے ان ذخیروں کو محفوظ کر کے ان سے بے پناہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ آج کل Climate Change اور دیگر سنگین ماحولیاتی مسائل پیدا ہو چکے ہیں۔ اس ملک میں پنشن بوجھ نہیں ہے کرپشن بوجھ ہے۔ آپ تو انسانوں کو دینے سے تنگ ہیں۔ دنیا اب درختوں کو پنشن دے رہی ہے۔ آجکل دنیا میں آئی ٹی کی وجہ سے ایک گائوں میں تبدیلی ہو چکی ہے جس سے آپ فوری معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ گھر بیٹھے ہوئے۔ ہمارے ہاں آج کل بند رقبہ جات جہاں شجرکاری کامیاب ہوتی ہے آگ لگا کر خاکستر کر دیتے ہیں اور ملزمان نامعلوم ہوتے ہیں۔ ان کو پکڑیں۔ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تحریک آزادی کے اس بیس کیمپ میں جہاں جلسہ کابینہ جھنڈیاں اور جھنڈے موجود ہیں اور ہر موڑ پر ہوا میں لہراتی نظر آتی ہیں۔ اسلام آباد کی سڑکوں میں تو شب و روز یہ تماشا رواں دواں نظر آتا ہے۔ یہ دیانت اور امانت کے سرخیل Pany Wise Pound Foolish کے محاورہ کی عملی تصویر نظر آتے ہیں۔ اس چھوٹے سے خطہ میں جہازی سائز کابینہ دیانت اور امانت کا منہ چڑاتی نظر آتی ہے۔ چالیس لاکھ عوام پر توبہ توبہ۔ پھر امانت و دیانت کا لاحقہ بھی سرپر ہے۔ حکومت آزادکشمیر سے گزارش ہے کہ وہ ان جائز مسائل کے حل میں بزرگ پنشنرز کو مزید امتحان میں نہ ڈالیں۔ جس سے کوئی غلط پیغام اس بیس کیمپ سے باہر جائے اور ندامت کا ساماں مہیا ہو۔ اس دنیا میں کئی فرعون اور کئی عادل آئے اور گئے۔ انصاف پسندوں کو یاد رکھا جاتا ہے۔ ان جائز مسائل کا اگر حل نہ ہوا تو قہر درویش برجان درویش کے مصداق بزرگوں اور خواتین کو ان یخ بستہ دنوں میں سڑکوں پر آنا ہو گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button