کالم

ایوارڈ حاضر ہے

پاکستان میں موسم سرما کے جوبن پر آتے ہی خودساختہ ادبی تنظیموں کی ہوس شہرت کے جذبے میں نئی امنگ نے جنم لیا ہے اور ہر طرف ایوارڈ تقریب کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ مختلف تنظیموں کے مختلف سربراہان و ذمہ داران نے اپنی اپنی رنگ بازی دکھانی شروع کر دی ہے اور اپنے اندر کی شہرت کی بھوک مٹانے کے لیے نت نئے طریقوں سے اپنے کرتب دکھانے کے لیے ”ایک شام تین مہمان””اخبار سیگمنٹ سندپروگرام””روبرو ادیب سلسلہ ”ادبی ایوارڈ /میڈل/ اسنادتقریب وتربیتی کنونشن””کتاب ایوارڈو میلہ جیسے مختلف ناموں سے ادبی تقریبات کا اہتمام کرکے ”علم و ادب ایوارڈ”بانٹ رہے ہیں۔ ہر تنظیم کی کوشش ہے کہ ان کانام زیادہ ہو اوران کا جادو سر چڑھ کر بولے،اس لیے ایسے کارنامہ ہائے انجام دے رہے ہیں کہ ان کی سوچ اور عقل پہ ماتم کرنے کو دل کرتا ہے۔ایک تنظیم کے ذمہ دار ایک غیرمعروف ،ڈمی اور صرف اور صرف پی ڈی ایف اخبار۔۔۔۔۔جوصرف پی ڈی ایف فائل تک محدود ہے کے چیف ایڈیٹر ہے اور شہرت کا اتنا بھوکاہے کہ اپنی شہرت کے لیے ایسا طریقہ ایجاد کر رکھاہے جو پوری دنیا صحافت میں ایک مذاق سمجھا جاتا ہے۔پوری دنیا میں راقم الحروف پھر کہہ رہاہے کہ پوری دنیامیں پوری دنیا کے کسی اخبار میں ایسا نہیں ہوتا،جس طرح یہ موصوف صحافت کا جنازہ نکال رہے ہیں۔یہ موصوف دنیا میں واحد چیف ایڈیٹر ہیں جن کا اخبار طاق صفحات میں بنتاہے اورپھر ہر کالم ہرافسانہ ہرنظم ہرغزل ہرشعر ہرمضمون کے عنوان کے دونوں اطراف اپنی اخبار کی پیشانی لگا کر پتانہیں اپنی کس شہرت کی بھوک کو مٹارہے ہیں؟؟؟کیا آپ نے دنیامیں،راقم الحروف کا پھر چیلنج ہے کہ آپ نے دنیا میں اس طرح کی ڈرامہ بازی دیکھی ہے؟؟؟کیا آپ کو کسی اخبار میں ایسی شعبدہ بازی دکھائی دی ہے؟؟؟کیا پوری دنیا میں میدان صحافت میں کوئی ایسا اخبار ہے کہ جو کالم،غزل،نظم،افسانہ،کہانی،شعرکے عنوان کے دونوں اطراف اپنی پیشانی لگاتاہو؟؟؟اگر نہیں دیکھاتواِن موصوف کے اخبار کے روپ میں یہ عجیب و غریب اور انوکھاعجوبہ بھی وا ٹس ایپ گروپس میں دکھائی دے گا۔ اپنی ایوارڈ تقریب بارے”ایوارڈ لو” مہمات بھی شروع کیے ہوئے ہیں اور اس بابت قارئین اور لکھاریوں کو ترغیب دینے کے لیے بے ربط و غیر متعلقہ باتیں کررہا ہے اور ایسے ایسے سبز باغ دکھانے میں مصروف ہیں کہ جیسے ان کی تقریب کے انعقاد کے بعد علم و ادب کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہر طرف ادب کی آبیاری کرے گا اور اپنے تیئں اخباری فضول سند سیگمنٹ پھلجھڑیاں بھی چھوڑے ہوئے ہیں۔ایک تنظیمی صاحب کا عالم یہ ہے وہ ایک ساتھ ادبی تربیتی ورکشاپ،ایوارڈ،شیلڈ اسناد تقریب،کتاب فراڈ شواور کتاب بیچ میلہ سجانے کی بھرپور تمنا رکھتے ہیں۔ایک اورعلمی وادبی نام نہاد تنظیم کے کرتا دھرتاکتب ایوارڈ تقریب جھڑی لگانے کے چکر میں لکھاریوں سے کتابیں اکٹھی کرنے کے لیے اِدھر اُدھر گھوم پھررہے ہیں۔ہر ایک اِسی فکروسوچ میں غلطاں چکرچکر کاٹتا،گھن چکر بنا ہوا ہے۔ لکھاریوں کو پھنسانے کے لیے نئے نئے طریقے سوچ رہے ہیں۔گھوم پھر کر شکاری اپنے شکار تلاش کر رہے ہیں۔تھوڑی سی خواری ضرور ہے مگر جھوٹی شہرت کے شائق ہیں سو یہ لوگ شکار پھنسانے کے لیے دانہ ڈال رہے ہیں۔دعوے ہزار ہیں اور کام کی بات ایک بھی نہیں ہے۔ایسی تقریب کا عالم یہ ہے کہ علمی وادبی تقریب کم،اپناآپ سنوار زیادہ لگتی ہے۔تقریب کے ذریعے اپنا نام اونچا لے جانے کی کوشش کرتے ہیںبھلا حقیقی کام اور تقریبات سے حاصل کردہ نام کا مقام سے کیا واسطہ۔بھئی تقریب کی بات آئی تو کیا کمال کی ایوارڈ تقریب ہوتی ہے کہ بیشتر تو انٹری/ رجسٹریشن فیس کے گرد ہی گھومتی اور لکھاریوں کو گھماتی نظر آتی ہے۔کچھ تنظیمیں جن کے ذمہ داران کہتے ہیں کہ ہم خود سے ہی سب کرتے ہیں بھی کیا کمال کرتے ہیں کہ ان کے کیا کہنے، سستی کتابیں مہنگی چھاپ کر اپنی تقریب کے پیسے انہی میں سے نکال کرخوب ڈرامہ کرنے والی بات ہے۔ان جیسوں کے دیئے ایوارڈ،میڈل،شیلڈ اور اسناد کی بھی کیابات ہے کہ علم و ادب جینوئن لکھاریوں پرکم اور اپنے مدح سراؤں،ساتھیوں اور گاہک افراد پر زیادہ گرتے ہیں۔ملک بھر میں پھیلے ہوئے علم و ادب افراد میں سے زیادہ تر اپنے من پسند، جی حضوری کے دلدادہ، سلیکٹڈ،اک ایوارڈ اور، چاپلوس افراد کے ہی گرد گھومتے ہیں۔اصلی یا نقلی دونوںکوایوارڈْ/ میڈل ، شیلڈ دے کر اپنا احسان مند بنا کر اپنے لیے شہرت اور عزت سمیٹنے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ اب تو لوگ اِن ایوارڈز،میڈل،شیلڈ کی حقیقت بھی جان چکے ہیں۔کیاعجیب بات ہے کہ علم وادب کا اتنا ہی کال پڑ گیا ہے کہ یہی چندگنے چنے افراد ہی ایوارڈ تقریب کے لیے رہ گئے ہیں۔کیا دیگر ٹیلینٹڈ اور قابل افراد اس کے اہل کیوں نہیں بنتے ہیں۔کتنی تعجب کی بات ہے کہ کہنے کو تو ادیبوں کے رہنما بنے بیٹھے ہیں مگر جینوئن اور اصلی ادیب پاس سے بھی نہیں گزرتے ہیں چند ایک ہمنواافراد لیے،ساتھ میں مختلف پاکستانی ڈراموں میں جن، جنات،جادو گرودیگر کردار نبھانے والے فنکاراورعلم وادب تقریب میں شگریٹ پیتے،حرص و ہوس کے مارے فلم سٹار لیے پھرتے ہیں۔افسوس اگر یہ ادب ہے تو ایسے ادب پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔محترم ادیب بہن بھائیو!خود ساختہ تنظیمات کے خودساختہ افراد نام نہاد علم و ادب ایوارڈ میلہ لگائے بیٹھے ہیں۔آؤ حسب خواہش،حسب توفیق اس میں حصہ ڈالو،کچھ لکھو کہ ایوارڈ آپ کے نام بھی پکاراجائے اور آپ بھی کہہ سکیں کہ مجھے بھی ادبی ایوارڈ چاہیے۔۔۔۔۔تو دیر کس بات کی،اِدھر اُدھر سے کسی پہلے سے مرتب کتاب کی نقالی کیجئے،زیادہ کتابیں پڑھیں اور ایک کتاب بنادیں، ایوارڈ حاضر ہے۔گلی محلے،چوکوں چوراہوں،سڑکوں،بازاروں پر بیٹھے لوگوں سے پوچھ گچھ کرکے خودساختہ علاقائی تاریخ مرتب کرو، ایوارڈ حاضر ہے۔ہیلمٹ پر لکھیں،سموگ پر لکھیں،ساگو دانہ پر لکھیں، حکمت کے نسخوں پر لکھیں،ہومیو پیتھک مواد اٹھالو،بچوں کی چھٹیوں پر لکھیں،ایوارڈ حاضر ہے۔ بچوں کو پڑھانے /بزم ادب کے نام پر کرکٹ میچ آپس میں کھلوا کر اُس میچ پر لکھو،روزانہ لکھتے چلو، 128 صفحات کی کچھ ہی عرصے میں کتاب بن جائے گی،ایوارڈ حاضر ہے۔قائداعظم کی جدوجہدتحریک پاکستان،شاعرمشرق علامہ اقبال کی شاعری پر کالم،کچھ اِن کے حالات پر لکھو،ایوارڈ حاضر ہے۔حکمت و طب پر خلط ملط یا الٹے سیدھے مشاہدات پر مبنی کتاب لکھو، ایوارڈ حاضر ہے۔زمانے بھر کی الٹی سیدھی باتوں پر چند مضمون لکھو،ایوارڈ حاضر ہے۔محلے میں کرکٹ میچ کرواؤ،ان کے رنز،چوکوں چھکوں،آؤٹ پر 100 صفحات کی کتاب مرتب کرو،ایوارڈ حاضر ہے۔اور تو اور کسی بھی موضوع پر کوئی بھی کتاب لکھیں،ایوارڈ حاضر ہے نیز اپنی اپنی تنظیم بنائیں،مردو زن کا میلہ لگائیں،سب کو اکٹھا کریں،شہرت بھی ملے گی عزت بھی اور سب سے بڑی بات ایوارڈ حاضر ہے کیونکہ تخلیقی و تحقیقی کام وادب توہم کب کا دفن کر چکے ہیں۔وہ شوبز،کرکٹ میچز، سیاسی و دینی تاریخی کتب کی کاپی پیسٹ کر کے ہی ایوارڈ تو کسی نہ کسی بہانے خود ساختہ تنظیمات کے خود ساختہ کرتادھرتاؤں سے سستی شہرت کے خواہاں ادیبوں کو مل رہے ہیں۔
تاریخ میں ضرور لکھا جائے گا کہ یہ بھی ادب کی کتنی بڑی ادبی تنظیمات کی خدمات تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button