قارئین! محمد علی جناح جیسی شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔لیکن جب بھی ان جیسی شخصیات نے جنم لیا تو پھر رہتی دنیا تک انہوں نے اپنے انمٹ نقوش چھوڑے۔محمد علی جناح کو قائد اعظم کے لقب اور بابائے قوم کے لقب سے پاکستانی رہتی دنیا تک یاد رکھیں گے۔آج ملک بھر میں ان کی 147ویں برسی ملی جوش و جذبے سے منائی جا رہی ہے۔انسان ہر روز جنم پاتے ہیں ،دار فانی کو کوچ کر جاتے ہیں۔لیکن ہزاروں میں کوئی ایک ایسا ہوتا ہے جس کے مقدر میں اللہ نے بڑائی اور عظمت لکھ دی ہوتی ہے۔بابائے قوم بھی انہی میں سے ایک ہیں۔انہوں نے چو مکھی جنگ لڑ کر بالآخر وطن عزیز حاصل کیا۔ ایک طرف انگریز کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور معاملہ فہم قیادت دوسری طرف ہندوئوں کی مکاری اور چالاکی۔ اس کے باوجود اس مرد جری نے انگریز کی جدت اور ہندوئوں کی مکاری کو پائوں تلے روند کر اپنے رفقاء کی مدد سے پاکستان کو دنیا کے نقشے میں لایا۔لارڈ مائونٹ بیٹن کا یہ اعتراف کہ اگر مسلمانوں کے پاس محمد علی جناح نہ ہوتا تو پاکستان کبھی نہ بنتا ،قائد کی اعلیٰ سیاسی سوچ کا مدلل ثبوت ہے۔ نہرو کا یہ بیان کہ اگر مسلم لیگ کے پاس سو گاندھی ہوتے اور کانگریس کے پاس ایک قائد اعظم تو کبھی بھی پاکستان نہ بنتا بھی قائد کے مدبرانہ سیاسی رویے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بابائے قوم نے پاکستان ایسے ہی نہیں حاصل کیا ،یوں سمجھئے انہوں نے شیر کی کچھار سے کوئی شے ہاتھ ڈال کے لائی ہے۔ بابائے قوم محمد علی جناح کا نہ صرف پاکستان بلکہ ملت اسلامیہ پر احسان ہے کہ انہوں نے اسلمی مملکتوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کے لئے شب و روز محنت کا نتیجہ پاکستان کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔بابائے قوم 25دسمبر1876کو ایک چمڑے کے تاجر مسٹر پونجا جناح کے ہاں تولد پذیر ہوئے۔ پیدائش سے ہی بابائے قوم کمزور جسامت کے مالک تھے۔ لیکن ان کے عزم اور حوصلے اس قدر ارفع تھے کہ بڑے بڑے سیاستدان ان کی سیاسی بصیرت کا اعتراف کرتے ہیں۔بابائے قوم نے سیاست کا آغاز کانگریس سے کیا۔لیکن جب انہوں نے محسوس کیا کہ کانگریس تو محض ہندئوں کی جماعت ہے تب انہوں نے 1916ء میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ قائد کو ہندو مسلم سفیر بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن ہندوئوں کی مسلسل ہٹ دھرمی سے دل برداشتہ ہو کر قائد برطانیہ چلے گئے۔ اس کے بعد مسلم زعماء خصوصاً علامہ اقبال نے زور دے کر قائد کو واپس ہندوستان بلایا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ انگریز اور ہندوئوں کا مقابلہ یہی مرد جری کر سکتا ہے۔ واپس آ کر بابائے قوم نے مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی اور اس کی از سر نو جدید خطوط پر تشکیل کی۔بابائے قوم 9134ء کو ہندوستان واپس آئے اور اقبال کے خواب کی تعبیر جو انہوں نے 1940ء میں لاہور کے مقام پر قرارداد لاہور کے نام سے پیش کی اس کی تکمیل کے لئے مصروف کار ہو گئے۔ہندوئوں نے اس قرارداد کو قرارداد پاکستان کہنا شروع کردیا۔ حالانکہ اس وقت تک پاکستان کا لفظ ابھی استعمال نہیں ہوا تھا۔ ہندوئوں کے اس متعصبانہ رویے نے قائد کے حوصلے مزید بلند کئے اور وہ پاکستان کے حصول کے لئے متحرک ہو گئے۔انہوں نے نہرو رپورٹ کے جواب میں چودہ نکات پیش کر کہ ہندوئوں اور انگریزوں کو ایک بند گلی میں مقید کر دیا۔1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے مسلم اکثریتی علاقوں میں سو فیصد نشستیں حاصل کر لیں جس پر کانگریس کے حامیوں نے فرقہ وارانہ اور لسانی تعصب کو فروغ دینا شروع کر دیا۔ یہ بھی ایک طرح سے مسٹر جناح کی کامیابی تھی،کہ انہوں نے مسلمانوں کو ہندوستان کی ایک بڑی قوم ثابت کیا۔اب قائد اعظم نے کھل کر پاکستان کے حصول کی جدوجہد شروع کر دی۔ اور اس کے نتیجے میں ہزاروں مشکلات کے باوجود بالآخر انگریز وں نے پاکستان کے مطالبے کو تسلیم کر دیا۔ابتداء میں مسلمانوں کی معاشی بدحالی،لاکھوں پناہ گزینوں کی آباد کاری ،داخلی اور خارجی مسائل کے علاوہ تحفظ وطن کی خاطر بابائے قوم نے بحیثیت گورنر جنرل انتہائی حد تک کاوش کی۔ اسی کے نتیجے میں آج ہم آزاد اور خود مختار وطن کے باسی کہلاتے ہیں۔ ورنہ شائد آج تک ہم ہندوئوں کے ظلم و جبر کا شکار رہتے۔قائد اعظم نے ملت کو کام،کام اور صرف کام کی تلقین کر کہ لٹے پھٹے پاکستان کا حلیہ بدل ڈالا۔انہوں نے اتحاد،ایمان اور نظم و ضبط کا پیغام قوم کے سپرد کیا۔ بابائے قوم کی جائے پیدائش وزیر مینشن سندھ(کراچی) جو کہ اس وقت کا بمبئی تھا ہے۔ سکول ریکارڈ کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش 20اکتوبر 1875ء ہے۔ لیکن انہوں نے خود 25دسمبر کی تصدیق کی ہے۔ شروع میں آپ کا نام محمد علی جناح بھائی رکھا گیا جو بعد میں مختلف ہئیتیں اختیار کرتے کرتے محض محمد علی جناح تک محدود ہو گیا۔آپ پونجا جناح کے سات بچوں میں سے سب سے بڑے تھے۔ پہلے پونجا جناح گجرات میں قیام پذیر تھے لیکن محمد علی جناح کی پیدائش کے بعد آپ کراچی منتقل ہو گئے۔قائد کے دادا محترم کا نام جناح میلگجی تھا۔قائد کے تین بھائی اور تین بہنیں تھیں۔ آپ کی مادری زبان گجراتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ اردو،انگریزی اور سندھی زبانوں پر عبور حاصل کر چکے تھے۔بابائے قوم ایک بے چین طالب علم تھے۔ انہوں نے کئی درسگاہوں سے اپنی علمی تشنگی دور کی۔آپ نے سولہ سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان جامعہ بمبئی سے پاس کیا۔1982ء میں آپ برطانیہ روانہ ہوئے۔ لیکن اس سے قبل آپ نے والدہ کی خواہش پر ایمی بائی سے شادی کی۔اسی دوران آپ نے برطانیہ سے صرف 19سال کی عمر میں قانون کی اعلیٰ ڈگری حاصل کر کہ سب سے کم عمر قانون دان ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ساتھ ہی ساتھ آپ سیاست میں دلچسپی لینے لگے۔ سیاست میں آپ دادا بھائی اور فیروز شاہ مہتہ سے متاًثر تھے۔ اسی دوران آپ انگریزوں کے نظام حکومت سے متنفر ہوئے اور ہندوستان پر انگریز کی حکومت کو بلا جواز قرار دیا اور اس کی کھل کر مذمت کی۔آپ کے انگلستان میں قیام کے دوران پونجا جناح کا کاروبار خسارے میں چلا گیا۔اسی وجہ سے آپ بمبئی آ گئے اور وکالت شروع کر دی۔ کچھ ہی عرصے میں آپ ہندوستان کے نامی گرامی وکیل بن گئے۔ خاص طور پر آپ نے سر فیروز شاہ کے سیاسی مقدمے کی پیروی کی۔ 1905ء میں آپ نے بمبئی ہائی کورٹ میں یہ مقدمہ دائر کیا اور جیت اپنے نام کر دی۔ اس کے بعد آپ نے مالا بار ایک مکان تعمیر کروایا جس کا نام ،،جناح ہائوس،، رکھا۔محمد علی جناح کی مقبولیت کی وجہ سے ہندوستان کے ایک سیاسی رہنما بال گنگا دھر کی توجہ قائد کی جانب مبذول ہوئی اور انہوں نے قائد کو قانونی مشیر مقرر کیا تا کہ انگریز کی جانب سے دائر کئے گئے مقدمات کا دفاع کیا جا سکے۔1896ء میں بابائے قوم نے انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی۔ یہ اس وقت ہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی۔لیکن مسٹر جناح نے دیگر لوگوں پیروی کرنے کے بجائے ہندوستان پر انگریزوں کا تعلیم،ثقافت،سماج اور صنعت پر اثر کو زیادہ اہمیت دی اور ڈائریکٹ آزادی کی بات نہیں کی۔جناح ساٹھ رکنی مرکزی مشاورتی کونسل کے رکن بن گئے۔ لیکن یہ کونسل زیادہ فعال نہ تھی۔اس کے باوجود جناح کم عمری کے شادی کے قانون اور مسلمانوں کے وقف کے حق میں کام کرتے رہے۔انہیں کاوشوں کے نتیجے میں سندھرسٹ کمیٹی قیام میں لائی گئی۔پہلی جنگ عظیم میں قائد نے ہندوستانیوں کی تائید کی۔ لیکن جنگ کے بعد مہاتما گاندھی کی مخالفت کے باوجود آپ 1906ء میں مسلم لیگ میں شامل نہیں ہوئے۔لیکن جب پانی سر سے اوپر چڑھنے لگا تو آپ نے1913 ء میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور 1916ء کو مسلم لیگ کے صدر منتخب کئے گئے۔ اسی دوران آپ نے تاریخ ساز میثاق لکھنؤ کی کاوشوں
میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔انگلستان میں رہنے کی وجہ سے قائد وہاں کے سیاسی نظام سے متأثر تھے۔ان کے نزدیک آزادی کا صحیح راستہ آئینی اور قانونی ہتھیاروں کو استعمال کرنا تھا۔ ان کے فلسفے اور خیال کے مطابق آزادی کا مطالبہ انڈین نیشنل کانگریس اور ہوم رول لیگ کی جانب سے کیا جانا چاہئے تھا۔
اسی دوران مسلم لیگ نے خوب ترقی کی اور قائد کی کوششوں کے نتیجے میں مسلمان مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہونا شروع ہو گئے۔ اب قائد ہندوستان میں دو قوموں کا وجود منوانے میں جت گئے۔ اور آخر کار میثاق لکھنؤ میں ہندوئوں نے مسلمانوں کو قوم کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ یہ قیام پاکستان کی جانب پہلی سیڑھی تھی جو قائد نے انتہائی فہم و فراست سے عبور کی۔اس معاہدے پر 1916ء میں دونوں فریقین نے دستخط ثبت کئے۔پھر 1929ء میں قائد نے نہرو رپورٹ کے جواب میں چودہ نکات پیش کئے جو پاکستان کے حصول میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
1940ء کے بعد ملت کے پاسباں تپ دق کا شکار ہو گئے۔ اس وقت ان کی بہن فاطمہ جناح قائد کی خدمت کرتی رہیں۔ اس وقت کے لارڈ مائونٹ بینٹین نے قائد کی بیماری کے دوران کہا کہ وہ جانتا تھا کہ جناح مرنے والے ہیں اسی لئے انہوں نے تین جون کے منصوبے کو قبل از وقت تکمیل کیا۔ قائد اعظم مورخہ 11ستمبر 1948 ء کو 10:20منٹ پر انتقال کر گئے۔ ان کو کراچی میں سپرد خاک کیا گیا۔
ان کی وفات کے بعد پاکستان کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین بنے اور سپیکر اسمبلی کا نیا عہدہ تخلیق ہو ا جو آغا تمیز الدین نے سنبھالا۔قائد اعظم کو بانی پاکستان کہا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ان کے چند کارہائے نمایاں کا اجمالی ذکر ضروری ہے۔پہلی بات کہ قائد اعظم کو ہندو مسلم سفیر کہا جاتا ہے۔ جسے ہندو بھی تسلیم کرتے ہیں۔قائد اعظم نے ہندوستان کے حقوق کی خاطر 1916ء میں ہوم لیگ رول کی
نمائندگی کی۔انہوں نے 1919ء میں مانٹیگو چیمسفورڈ کے ساتھ مل کر دستوری اصطلاحات نافذ کیں۔1919ء میں ہی قائد نے رولٹ ایکٹ پاس کیا۔گاندھی جی نے جب تحریکیں چلائیں تو قائد نے ان کی مخالفت کی۔اور تحریک عدم تعاون پیش کی۔
1924ء میں قائد نے میثاقء لکھنؤ کی بحالی کی بھرپور کوشش کی۔وہ کانگریس سے اس قدر بیزار ہو چکے تھے کہ 1938ء میں انہوں نے ایک خطاب کے دوران کہا کہ میں حیران ہوں کہ میری خود داری کو کیا ہو گیا تھا کہ میں کانگریس سے صلح و مفاہمت کی بھیک مانگا کرتا تھا۔قائد گول میز کانفرنس کے بعد چار سال تک برطانیہ ہی رہے اور واپس آ کر انہوں نے 1934ء میں مسلم لیگ کی دوبارہ شیرازہ بندی کی۔قائد نے 1937ء میں رام راج کے خلاف سخت جدو جہد کی۔قائد نے کانگریس کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور کئے۔ لیکن بالآخر مایوس ہو کر قرارداد لاہور پیش کی گئی۔قائد نے انتہائی سیاسی بصیرت کے ساتھ 1942ء میں کرپس کے ساتھ مذاکرات کئے۔جب ہندوستان چھوڑ دو تحریک چلی تو قائد نے کمال عقلمندی سے مسلمانان ہند کو سہارا دیا۔جون 1945ء میں قائد نے دو ٹوک جدا گانہ انتخاب کا مطالبہ کر دیا۔متحدہ ہندوستان کے آخری سال قائد نے کابینہ مشن کا سنبھل سنبھل کہ منہ توڑ جواب دیا۔
جب قائد ہر طرح سے مایوس ہوگئے تو انہوں نے ملت کی پاسبانی کے لئے راست قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اور جدوجہد میں تیزی لائی۔اسی کے نتیجے میں ریڈیو ہندوستان سے جب 13اگست کی رات ٹھیک بارہ بجے انائونسر کی آواز گونجی کہ قائد کی قیادت میں مسلمانوں نے نیا ملک پاکستان حاصل کر لیا ہے تو مسلمانوں کی خوشی دیدنی تھی۔اور بابائے قوم نے ملت کی پاسبانی کا حق کما حقہ ادا کر کہ دکھایا۔ اللہ قائد محترم کو کروٹ کروٹ جنت کی راحتیں نصیب فرمائے۔
بابائے قوم —- زندہ باد پاکستان—- پائندہ باد