
وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھامیں پارلیمانی میٹنگ میں کہہ چکی ہوں کرپشن پر میری زیرو ٹالرینس ہے میری کوشش ہے کہ عوام سے رابطے کے لیے ہیلپ لائنز کھلی ہوں ہر پروجیکٹ پر عوام کا فیڈ بیک اور تجاویز سنوں گی ہم عوام کے خادم ہیں مراعات لے کر نہیں بیٹھ سکتے۔قارئین کرام! وطنِ عزیز میں لفظ کرپشن کا استعمال بالکل اسی طرح زبان زدِ عام ہے جس طرح خود کرپشن عام ہے۔ کرپشن (بدعنوانی) کا لفظ خراب، ٹوٹے ہوئے اور عیبی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مشہور فلسفی ارسطو اور بعد میں سسرو نے اِسے بدعنوانی(کرپشن) کے معنوں میں استعمال کیا۔ یعنی رشوت لینا، اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر کسی دوسرے کا وہ کام کرنا جس کا وہ اہل نہیں ہے۔ کرپشن یعنی بدعنوانی کا لفظ آج کل سیاست میں بہت زیادہ استعمال کیا جانے لگا ہے کرپشن کے مختلف پیمانے ہیں۔ نچلی سطح سے لے کر حکومتی بلکہ بین الاقوامی سطح تک کرپشن کی جڑیں پھیل چکی ہیں بین الاقوامی معاملات میں بھی اس کے شواہد ملتے ہیں۔ چھوٹی موٹی کرپشن میں نوکری پیشہ افراد اپنے افسران کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے موقع بے موقع تحائف پیش کرتے رہتے ہیں۔ یا پھر ذاتی تعلُقات سے کام لے کر اپنے چھوٹے چھوٹے کام نکلوا لیتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر کرپشن حکومتی عہدیداروں تک جا پہنچتی ہے۔ بڑے بڑے ٹھیکے منظور کروانا مختلف اہم اور ذمّہ داری والے کاموں کے لائسنس حاصل کرنا۔ ایسی اشیاء کے لائسنس حاصل کرنا جس کی مانگ زیادہ اور ترسیل میں کمی ہو جس کی ذخیرہ اندوزی کر کے منہ مانگے پیسے وصول کرنا۔ بڑے بڑے عہدوں پر یا حکومتی شعبوں میں ملازمت حاصل کرنے یا مہیّا کرنے پر بھاری رشوت کا لین دین کرنا یہ سب بڑے پیمانے کی کرپشن میں شامل ہے۔ حکومتی محکموں میں پبلک کے ٹیکس کا پیسہ جو مختلف ترقّیاتی، فلاحی اور اصلاحی کاموں کے لیے مختص ہوتا ہے اس کے ذمّہ داران خُرد بُرد کر کے اس فنڈ کا ایک بڑا حصّہ ہضم کر جاتے ہیں۔ پاکستان کے ہر منصوبے کے پیچھے منصوبہ ساز کا اپنا مالی یا ذاتی فائدہ اور مفاد چھپا ہوتا ہے۔ موٹر وے کے منصوبے ہوں، بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں سے معاہدے ہوں، رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ایمنسٹی اسکیم دینے کا معاملہ ہو، رنگ روڈ کا منصوبہ ہو یا راوی اربن ڈیویلپمنٹ پروگرام، اورنج، بلیو یا ریڈ لائن، پشاور بی آر ٹی یا مالم جبہ پروجیکٹ، سب میں کرپشن کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کرپشن کا لفظ زیادہ تر سیاسی قیادت سے منسوب کیا جاتا ہے جب کہ دیگر کرپشن کے سَرخیل خود کو معصوم اور ایماندار سمجھتے ہیں۔ کرپشن کے الزامات پر سیاسی رہنماوں پر کیسز بنائے جاتے ہیں لیکن یہ کیسز سیاسی معاملات کو سلجھانے اور حکومتی بندوبست کے لیے ہی استعمال ہوتے آئے ہیں، سزا تک بات نہیں پہنچتی سب بری ہوئے اور سب ہی کرپٹ سمجھے جاتے ہیں۔ کیسز بنانے والے اور بریت کا راستہ نکلنے والے سب بری الزمہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کرپشن ایک وسیع معنی رکھنے والا لفظ ہے جس میں ہر وہ برائی شامل ہے جس کا منفی اثر معاشرے کے دوسرے انسانوں پر پڑتا ہو۔ وزیراعلی پنجاب مریم نواز کے بیان کو کسی نے سنجیدہ نہیں لیا اسکی بنیادی وجہ مائنڈ سیٹ ہے جس کا ذکر سطورِ بالا میں کیا گیا ہے اوپر سے لیکر نیچھے تک ہر سطح پر کرپشن کا بازار گرم ہے۔کلکرک سے لیکر اعلی بیورو کریٹس تک، منصوبہ سازوں سے ٹھیکدار تک سب اس حمام میں ننگے ہیں۔ کرپشن کے خلاف بولنا سب چاہتے ہیں لیکن اسے ختم کرنا کسی کے بس کا کام نہیں۔سڑک کنارے کھڑا ایک ٹریفک پولیس اہلکار جس کی جیب میں رشوت کی رقم موجود ہوتی ہے وہ بھی کیمرہ کے سامنے کرپشن کے خلاف اور رزقِ حلال پر اظہارِ خیال بڑے شوق سے کرتا ہے۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں تو سننے کے حد تک درست ہی ہیں مگر حقاِئق سب جانتے ہیں لیکن کہنے میں کیا ہرج ہے ۔۔۔بول کے لب آزاد ہیں تیرے مقامی سطح پر کرپشن عجب کرپشن کی غصب کہانیاں اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز پر سامنے آتی رہتی ہیں لیکن ان کیسز کی تحقیات اور انجام کیا ہوتا ہے اہم سوال یہ ہے اگر کرپشن پر زیرو ٹالرنس ہوتی تو کیا معاملات بہتر نہ ہوتے۔۔۔۔؟وزیراعلی پنجاب مریم نواز کے علم میں لانے کے لیے ضلع کونسل اوکاڑہ میں مبینہ طور کروڑوں روپے کی میگا کرپشن کا سیکینڈل صحافی شیخ شہباز شاہین منظر عام پر لائے ہیں، یہ وزیراعلی پنجاب مریم نواز کے لیے ٹیسٹ کیس ہے دیکھتے ہیں کہ اب اس پر تحقیقات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اضلاع کی سطح پر ہونی والی کرپشن اور بے ضابطتگوں پر مقامی میڈیا خاموش ہی رہتا ہے کیونکہ یہاں صحافت سے وابستہ شخصیات خود صحافت کے ساتھ ٹھیکیدار بن چکے ہیں۔ سب چلتا ہے، مقامی سیاسی قیادت سے وابستہ سیاسی کارکن بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں اداروں میں سیاسی مداخلت کی وجہ ساتھیوں کو نوازانا اور اپنے معاملات کو بہتر انداز میں چلانے کی روش ہے۔ صحافی شیخ شہباز شاہین نے روایت سے ہٹ کر جرأت کا مظاہرہ کیا اور ضلع کونسل اوکاڑہ میں 500 ملین کی مبینہ کرپشن کو بے نقاب کیا۔ ضلع کونسل اوکاڑہ کے چیف آفیسر اور فنانس آفیسر مبینہ طور پر بینک چیکس پر چیئرمین کے جعلی دستخطوں کے ذریعے رقم نکلواتے رہے۔ کاغذی منصوبہ جات پر سرکاری رقم خرچ ہوئی۔ سب کچھ ہوتا رہا مگر یہ کیسے ممکن ہے ضلعی انتظامیہ اور صحافی بے خبر ہوں۔۔۔؟ شیخ شہباز شاہین نے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کا حق ادا کر دیا اب وزیراعی پنجاب مریم نواز کا امتحان ہے کہ وہ کرپشن پر ایکشن لیتی ہیں یا بیانات سے ہی کرپشن ختم کرنے کا عزم رکھتی ہیں۔اس ٹیسٹ کیس سے سب واضح ہو جائے گا، ذمہ داراران کے تعین کے ساتھ کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے اور جرات کا مظاہرہ کرنے پر صحافی شیخ شہباز شاہین کی تعریف کرنا ضروری ہے۔ راقم الحروف تو عرصہ دراز سے ایسے صحافیوں کی نشاندہی اور ان پر تنقید کرتے آ رہے ہیں جو صحافت اور ٹھیکیداری ایک ساتھ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ہم ضلعی آفسیران سے دور ہیں سرکاری ملازمین کی ترجمانی اور اسکی قیمیت وصول کرنا صحافت نہیں یہ ٹھیکیداری ہی ہے۔ بڑے شوق سے افسران کے ساتھ تصاویر بنوانے اور لگانے کی خواہشات اور عمل کرپشن کو تحفظ دینے کا چلن ہے صحافت کا تقاضا نہیں، عام آدمی بھی صحافی اور ٹھیکیدار میں فرق سمجھے کل کبھی بُرا نہیں ہوتا سارے صحافی ایسے نہیں تمام آفیسر اور سیاست کرپشن کے سرپرست نہیں، بات صرف اتنی سی ہے تحقیقات مثبت انداز میں ہونی چاہیئے اور ملوث کرداروں کو بے نقاب کیا جائے انکا تعلق بھلے کسی بھی شعبہ سے ہو بیانات اور سیاسی انتقام کا چلن بدلنا ہو گا اگر کرپشن پر حکومت کی زہرو ٹالرنس ہے۔ کرپشن ہر سطح ہر جگہ پر سرایت کر چکی ہے اسکے خلاف شیخ شہباز شاپین جیسی جرات کا مظاپرہ کرنا ہو گا۔ صوبائی حکومت صوبے سے کرپشن کے خاتمے کیلئے عام آدمی کے شانہ بشانہ رہے گی
تو عوام میں کرپشن کے خلاف شعور اُجاگر ہو گا اور سوچ بدلے گی۔ مساوات، شفافیت، عدل و انصاف اور میرٹ کا بول بالا ہی بہتر طرزِ حکمرانی کی اصل روح ہیں۔ کرپشن ایک معاشرتی برائی ہے اور معاشرتی برائیاں ہی معاشروں کی تباہی کا سبب بنتی ہیں۔ معاشرتی برائیوں کو روکنے کیلئے ہم سب نے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ وزیراعلی مریم نواز نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ صوبے سے کرپشن کے خاتمے تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی جس کے لیے ضلع کونسل اوکاڑہ ٹیسٹ کیس ہے۔ اب اس پر کیا ایکشن ہوتا ہے اور عوام کیا کیا امید کرتے ہیں عوام پر چھوڑ دیتے ہیں۔