اسلام آباد (نیوزڈیسک) سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے سی ڈی اے سے مارگلہ ہلز میں غیر قانونی تعمیرات پر مفصل رپورٹ طلب کرلی۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بنچ نے مارگلہ ہلز میں غیر قانونی تعمیرات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت نجی ہوٹل کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ عدالت کے حکم پر ہمارے ریسٹورنٹ کو گرا دیا گیا، مارگلہ ہلز میں اب بھی 134 کے قریب ہوٹل، ریسٹورنٹس اورکھوکھے موجود ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کہتے ہیں خود کھائیں گے اور نہ کسی کو کھانے دیں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مارگلہ ہلز پروٹیکٹڈ ایریا ہے، مارگلہ ہلز میں ہر قسم کی تعمیرات کو غیر قانونی قرار دیا گیا، ابھی کتنی غیر قانونی تعمیرات مارگلہ ہلز میں باقی ہیں؟ میونسپل کارپوریشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مارگلہ میں 80 سے 132 تعمیرات باقی ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا سپریم کورٹ کا آرڈر صرف نجی ہوٹل کے لیے تھا، عدالت نے مارگلہ ہلز میں تعمیرات کے حوالے سے اصول طے کر دیا ہے، سی ڈی اے اپنا کام کیوں نہیں کرتا۔ ڈی جی ماحولیاتی ایجنسی نے بتایا کہ مارگلہ ہلز میں ابھی 50 سے زاہد کھوکھے چل رہے ہیں جو مارگلہ ہلز میں ماحولیاتی مسائل کا سبب بن رہے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سی ڈی اے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کیوں کر رہا ہے؟ وکیل میونسپل کارپوریشن نے کہا کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں اسلام آباد کلب بھی آجاتا ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ 1960 کے ماسٹر پلان میں سپریم کورٹ بھی مارگلہ نیشنل پارک میں تعمیر ہوئی جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سی ڈی اے پہلے مارگلہ ہلز کے اطراف میں غیر قانونی تعمیرات کو دیکھ لے، مارگلہ ہلز کے اطراف سے فارغ ہوکر پھر سی ڈی اے سپریم کورٹ کو دیکھ لے۔ ڈی جی سی ڈی اے نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی احکامات میں کھوکھوں کو گرانے سے روک دیا گیا تھا جس پر جسٹس امین الدین خان نے ہدایت کی کہ رپورٹ دیں مارگلہ ہلز میں کتنے کھوکھے موجود ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بات مارگلہ ہلز کی ہوتی ہے آپ سپریم کورٹ اور اسلام آباد کلب چلے جاتے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جتنی بربادی خیبر پختونخوا میں مارگلہ ہلز میں ہوئی سوچ نہیں سکتے، ناران جاکر دیکھیں وہاں کیا حال ہے۔
0 1,177 2 minutes read