
ترجمہ: کنزالعرفان
اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم پرہیز گار بن جاو۔
تفسیر: صراط الجنان
{ تِب علیم الصِیام: تم پر روزے فرض کیے گئے۔} اس آیت میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے۔شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہم بستری سے بچا جائے۔(خازن، البقر، تحت الآی: ، )
روزہ بہت قدیم عبادت ہے:
اس آیت میں فرمایا گیا جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ بہت قدیم عبادت ہے۔ حضرت آدم علیہِ الصلو والسلام سے لے کر تمام شریعتوں میں روزے فرض ہوتے چلے آئے ہیں اگرچہ گزشتہ امتوں کے روزوں کے دن اور احکام ہم سے مختلف ہوتے تھے ۔ یاد رہے کہ رمضان المبارک کے روزے 10 شعبان 2 ہجری میں فرض ہوئے تھے۔ (در مختار، کتاب الصوم، / )
روزے کا مقصد:
آیت کے آخر میں بتایا گیا کہ روزے کا مقصد تقوی و پرہیزگاری کا حصول ہے۔ روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے جس سے ضبط ِنفس اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبط ِ نفس اور خواہشات پر قابو وہ بنیادی چیز ہے جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رکتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے:و اما من خاف مقام ربِہ و نہ النفس عنِ الہو() فاِن الجن ہِی الماو() (نازعات: ،)
ترجمہ کنزالعِرفان: اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضِی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم نے فرمایا: اے جوانو! تم میں جوکوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی استطاعت نہیں وہ روزے رکھے کہ روزہ قاطعِ شہوت ہے۔(بخاری، کتاب النکاح، باب من لم یستطع البا فلیصم، / ، الحدیث: ) بے شک اللہ پاک کا بہت بڑا احسان ہے کہ حکمتوں، فضیلتوں، سعادتوں، رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ رمضان المبارک امت مسلمہ کو عطا کیا گیا۔ ماہ رمضان المبارک تلاوت قرآن پاک، جنت کے حصول اور جہنم سے نجات کا مہینہ، صبر و برداشت کا مہینہ، ایک دوسرے سے خیر خواہی، صدقات و خیرات، اپنے آپ کو سنوارنے سدھارنے اور تربیت کا مہینہ بھی ہے کہ اس میں (سحری سے افطاری تک) اللہ جل جلالہ کی نافرمانی سے اجتناب اور احکام شریعت پر پابندی سے قدرتی طور انسان کے اندر برداشت استعداد اور استقامت پیدا ہوتی ہے کہ وہ باقی اوقات اور مہینوں میں احکام شریعت پرکار فرما رہتا ہے۔ نماز تراویح میں وہ بیس رکعت سنت مکدہ نماز ہیں جو رمضان المبارک کے مہینے میں پڑھی جاتی ہیں عشا کی فرض کے بعد ہر رات میں، مسئلہ: تراویح کا وقت عشا کے فرض پڑھنے کے بعد سے لے کر صبح صادق کے نکلنے تک ہے۔(ہدایہ) مسئلہ: تراویح میں جماعت سنت کفایہ ہے کہ اگر مسجد کے سب لوگوں نے چھوڑ دی تو سب گنہگار ہوئے اور اگر کسی نے گھر میں تنہا پڑھ لی تو گنہگار نہیں۔(ہدایہ و قاضی خاں) مسئلہ: مستحب یہ ہے کہ تہائی رات تک تاخیر کریں اور اگر آدمی رات کے بعد پڑھیں تو بھی کراہت نہیں۔(درمختار و بہار شریعت) مسئلہ: تراویح جس طرح مردوں کے لئے سنت مکدہ ہے اسی طرح عورتوں کے لئے سنت مکدہ ہے اس کا چھوڑنا جائز نہیں، مسئلہ: تراویح کی بیس رکعتیں دو دو رکعت کرکے دس سلام پھیرے۔ اس میں ہر چار رکعت پڑھ لینے کے بعد اتنی دیر تک آرام لینے کے لئے بیٹھنا مستحب ہے جتنی دیر میں چار رکعتیں پڑھی ہیں اس آرام کرنے کے لئے بیٹھنے کو ترویحہ کہتے ہیں (عالمگیری) مسئلہ: تراویح کے ختم پر پانچواں ترویحہ بھی مستحب ہے اگرچہ لوگوں پر پانچواں ترویحہ گراں ہو تو نہ کیا جائے۔(عالمگیری وغیرہ) تراویح میں اختیار ہے کہ چپ بیٹھا رہے یا کچھ کلمہ و تسبیح و قرآن مجید و درود شریف پڑھتا رہے اور تنہا تنہا نفل بھی پڑھ سکتا ہے جماعت سے مکروہ ہے (قاضی خاں) مسئلہ: جس نے عشا کی نماز تنہا پڑھی اور تراویح جماعت سے تو وتر تنہا پڑھے۔(درمختار) اگر عشا کی فرض نماز جماعت سے پڑھی اور تراویح تنہا پڑھی تو وتر جماعت میں شریک ہوسکتا ہے، جس کی کچھ رکعتیں تراویح کی باقی رہ گئیں کہ امام وتر کے لئے کھڑا ہوگیا تو امام کے ساتھ وتر پڑھ لے پھر باقی ادا کرے جبکہ فرض جماعت سے پڑھ چکا ہو تب اور یہ افضل ہے اور اگر تراویح پوری کرکے وتر تنہا پڑھے تو بھی جائز ہے (عالمگیری) مسئلہ: لوگوں نے تروایح پڑھ لی اب دوبارہ پڑھنا چاہتے ہیں تو تنہا پڑھ سکتے ہیں جماعت کی اجازت نہیں (عالمگیری) ایک امام دو مسجدوں میں تراویح پڑھانا ہے اگر دونوں میں پوری پوری پڑھائے تو ناجائز ہے اور اگر مقتدی نے دونوں مسجدوں میں پوری پڑھیں تو حرج نہیں مگر دوسری میں وتر پڑھنا جائز نہیں جب کہ پہلی میں پڑھ چکا ہو، تراویح مسجد میں جماعت سے پڑھنا افضل ہے اگر گھر میں جماعت سے پڑھی تو جماعت چھوڑنے کا گناہ نہ ہوگا مگر وہ ثواب نہ ملے گا جو مسجد میں پڑھنے کا تھا، بیمار کی نماز: جو شخص بیماری کی وجہ سے کھڑا نہ ہو سکتا ہو وہ بیٹھ کر نماز پڑھے۔ بیٹھے بیٹھے رکوع کرکے یعنی آگے کو خوب جھک کر سبحان ربی العظیم کہے اور پھر سیدھا ہو جائے اور پھر سجدہ کیا جاتا ہے ویسے سجدہ کرے اور اگر بیٹھ کر بھی نماز نہیں پڑھ سکتا تو چت لیٹ کر پڑھے اور اس طرح لیٹے کہ پاں قبلہ کی طرف ہوں اور گھٹنے کھڑے رہیں اور سر کے نیچے تکیہ وغیرہ کچھ رکھ لے تاکہ سر اونچا ہو کہ منہ قبلہ کے سامنے ہو جائے اور رکوع اور سجدہ اشارہ سے کرے یعنی سر کو جتنا جھکا سکتا ہے اتنا تو سجدہ کیلئے جھکائے اور اس سے کچھ کم رکوع کیلئے جھکائے۔ اسی طرح دائیں یا بائیں کروٹ پر بھی قبلہ کو منہ کرکے پڑھ سکتا ہے۔