
ڈاکٹر محمد حمید اللہ ہمارے عہد کی ایک یگانہ روزگار شخصیت تھے۔ عظیم اسلامی اسکالر اور سیرت نگار، نویسی میں قرآن کے مترجم، انگریزی اور عربی، فارسی اور فرانسیسی میں پونے دو سو کتابوں کے مصنف لیکن سادگی اور عجزو انکساری میں اپنی مثال آپ۔ 19 فروری 1908 کو حیدر آباد دکن کے ایک علمی و مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اس وقت کے رواج کے مطابق گھر پر حاصل کی۔ اعلی تعلیمی مدارج جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن میں طے کیے اور ایل ایل بی کے علاوہ ایم اے فقہ کی اسناد حاصل کیں۔ جرمنی کی بون یونیورسٹی سے 1932 میں اسلام کے بین الاقوامی قانون پر اثرات کے موضوع پر 9 ماہ کی قلیل مدت میں اپنا تحقیقی کام مکمل کرکے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی، جبکہ اس کورس کی مدت 2 سال تھی۔ پھر اگلے برس ہی انہوں نے عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں اسلامی سفارت کاری کے عنوان سے تحقیقی مقالہ تحریر کیا جس پر فرانس کی سوربورن یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ حیدر آباد دکن واپس آکر اپنے علمی و تحقیقی مشاغل میں مصروف تھے کہ 1947 میں برصغیر کی تقسیم عمل میں آگئی۔ حیدر آباد دکن ایک مسلمان ریاست تھی لیکن اس میں اکثریت ہندوئوں کی تھی۔ بھارت نے یہ بہانہ بنا کر اس پر فوج کشی کی اور ریاست حیدر آباد دکن پر قبضہ کرلیا۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے لیے یہ صورت حال ناقابل قبول تھی وہ فوری طور پر فرانس ہجرت کرگئے اور وہاں کی عارضی شہریت اختیار کرکے اپنے علمی و تحقیقی کام میں مصروف ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب 50 سال سے بھی زیادہ عرصہ فرانس میں رہے لیکن اپنی عارضی شہریت کو مستقل شہریت میں بدلنا پسند نہ کیا۔ وہ خود کو لاوطن کہتے تھے اور فرانس کو اپنا عارضی ٹھکانہ قرار دیتے تھے۔ فرانس تو اب بہت بدل گیا ہے اور اس کی حکمران قیادت میں اسلام کے خلاف انتہا پسندی آگئی ہے لیکن جب ڈاکٹر حمید اللہ نے اسے اپنا ٹھکانہ بنایا فرانس اس وقت ایسا نہ تھا، وہاں کی حکومت مسلمان اہل علم کی قدر کرتی تھی، اس نے ڈاکٹر حمید اللہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان کی شرائط پر انہیں فرانس میں قیام کی اجازت دی۔ ڈاکٹر صاحب اپنی کتابوں کی رائلٹی اپنی ذات پر خرچ نہیں کرتے تھے، انہیں جو بھی آمدن ہوتی اور نقد تحائف و عطیات ملتے وہ انہیں اسلامی اداروں کو دے دیتے تھے۔ اس طرح بظاہر ان کے گزارے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ فرانس کی حکومت نے ایجنسیوں کی رپورٹ پر ان کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد ان کے لیے پنشن (گزارہ الائونس) مقرر کردی جسے ڈاکٹر صاحب نے بہ امر مجبوری قبول کرلیا۔ وہ جب تک فرانس میں رہے اسی پنشن سے قوت لایموت حاصل کرتے رہے اور کسی آمدن کو ہاتھ نہیں لگایا۔ڈاکٹر محمد حمید اللہ کو اردو، انگریزی، فرانسیسی، عربی اور فارسی پر عبوری حاصل تھا۔ انہوں نے ان زبانوں میں پونے دو سو کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔ سیرت پاک ان کا پسندیدہ موضوع تھا، انہوں نے اس کے مختلف پہلوئوں پر تحقیق کی اور کتابوں کے ڈھیر لگادیے۔ ڈاکٹر صاحب کا سب سے اہم علمی کارنامہ قرآن پاک کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ ہے۔ جس کے اب تک 20 سے زیادہ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اسے پڑھ کر لاکھوں نہیں تو بلامبالغہ ہزاروں فرانسیسی باشندوں نے ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور اسلامی معاشرے کا حصہ بن گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے سیرت پاک کی کئی کتابیں بھی فرانسیسی میں تحریر کیں۔ انہیں ترکی زبان پر بھی مکمل عبور حاصل تھا، وہ ہر سال ترک اہل علم کی دعوت پر ترکی جاتے اور استنبول میں تین ماہ قیام کرکے مختلف اسلامی موضوعات پر لیکچر دیتے تھے۔ پاکستان میں ان کی رشتے داری تھی۔ ڈاکٹر صاحب اپنے رشتے داروں سے ملنے نہایت راز داری سے پاکستان آیا کرتے تھے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی تھی۔ جنرل ضیا الحق برسراقتدار آئے تو انہوں نے بہت اصرار کرکے ڈاکٹر صاحب کو پاکستان بلایا اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ان کے خطبات کا اہتمام کیا۔ وہ تقریبا 2 ہفتے پاکستان میں مقیم رہے اور اہل علم، طلبہ و طالبات کو مختلف اسلامی موضوعات پر خطبات سے نوازا اور سامعین کے سوالوں کے جوابات دیے۔ ان خطبات میں صدر جنرل ضیا الحق بھی ایک سامع کی حیثیت سے شریک ہوتے رہے۔ بعد میں انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو حکومت پاکستان کی طرف سے 10 لاکھ روپے کا عطیہ پیش کیا جو موجودہ زمانے کے اعتبار سے 10 کروڑ سے کم نہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اسی وقت یہ عطیہ بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد کی لائبریری کو دے دیا۔ بہاولپور کی یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے بھی خطبات کے اختتام پر ڈاکٹر صاحب کو ایک خطیر رقم بطور نذرانہ پیش کی۔ ڈاکٹر صاحب نے اسی وقت یہ رقم اسی یونیورسٹی کے اسلامی و عربی شعبے کو دے دی۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ 2002 میں 94 سال نہایت پاکیزہ زندگی گزار کر راہی ملک عدم ہوئے۔ انااللہ واناالیہ راجعون۔
تو یہ تھے ڈاکٹر محمد حمید اللہ۔ اپنی مثال آپ، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی (انہیں اب مرحوم لکھتے قلم لرزتا ہے) نے ان کے خطوط کا ایک مجموعہ مکاتیب محمد حمید اللہ کے عنوان سے مرتب کیا ہے جو ڈاکٹر صاحب نے اپنے ایک مخلص دوست محمد طفیل کے نام لکھے ہیں۔ محمد طفیل کا تعلق پاکستان سے ہے وہ 1957 میں بین الاقوامی سروس کے لیے منتخب ہوئے اور آخری ملازمت انہوں نے یونیسکو پیرس میں کی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پیرس ہی میں مقیم رہے اور یہیں انہیں ڈاکٹر حمید اللہ کے قریب آنے اور ان سے رشتہ دوستی استوار کرنے کا موقع ملا۔ مزیدار بات یہ ہے کہ دونوں ایک ہی شہر میں رہتے تھے اور اس زمانے میں (جو 1970 کی دہائی کا زمانہ ہے) پیرس جیسے جدید شہر میں ٹیلی فون کی سہولت بھی عام تھی لیکن ڈاکٹر صاحب چونکہ اونچا سنتے تھے اس لیے انہوں نے اپنے فلیٹ میں جو چوتھی منزل پر واقع ایک کمرے پر مشتمل تھا ٹیلی فون نہیں لگوایا تھا اور خط و کتابت کے ذریعے دوستوں سے رابطہ رکھتے تھے۔ محمد طفیل کے ساتھ بھی ملاقات کبھی کبھار ہی ہوتی، البتہ خطوط کے ذریعے رابطہ برقرار رہتا تھا۔ محمد طفیل ڈاکٹر صاحب کو خط لکھتے اور ڈاکٹر صاحب بلاتاخیر اس کا جواب دیتے۔ محمد طفیل ان جوابی خطوط کو جمع کرتے رہے جو ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو ان کے ایک دوست فیاض احمد شیخ کی وساطت سے دستیاب ہوئے اور انہوں نے مزید اضافے کے ساتھ ان کی اشاعت کا بیڑا اٹھالیا۔
خطوط نویسی کی روایت اردو ادب میں بہت پرانی ہے، اب تو موبائل اور انٹرنیٹ سروس نے اس روایت کا بالکل خاتمہ کردیا ہے ورنہ اردو لٹریچر میں اب بھی مشاہیر کے خطوط کو ادبِ عالیہ کا درجہ حاصل ہے