
اسلام میں بچوں کی تربیت اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، اور ہماری اولاد اس نظام کا جز لا ینفک یعنی اس کا بنیادی حصہ ہیں۔ اولاد کی تربیت ماں اور باپ دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ جب تک دونوں فریق اپنی اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طریقے سے نہیں نبھاتے، اولاد کی صحیح تربیت نہیں ہوسکتی۔ بعض علما کے نزدیک، دونوں میں باپ کی تربیت ماں کی تربیت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔بچوں کی تعلیم وتربیت کا حقیقی آغاز پہلے گھر سے شروع ہوتا ہے۔ والدین کو اپنے بچوں کوگھروں کے اندر ایک بہتر ماحول کی تشکیل کے ذریعے اپنے بچوں کو نیک کردار اور ادب و آداب کی تعلیم دینی چاہیے۔ بچوں کو اخلاق سکھانے کے لیے والدین کے طور طریقے، عادات، عوامل اور الفاظ بچوں کے اذہان پر دیرپا اثرات مرتب کرتے ہیں۔ رسول اللہ نے بچوں کے ساتھ محبت کی ایک بڑی ہی روشن مثال قائم کی۔ وہ اپنے نواسوں پر محبت نچھاور کیا کرتے تھے۔ ایک حدیثِ مبارکہ کے مطابق نبی اکرم نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بوسہ دیا۔ اس وقت آپ کے پاس اقرع بن حابس تمیمی بھی بیٹھے تھے وہ بولے: (یا رسول اللہ!) میرے دس بیٹے ہیں میں نے تو کبھی ان میں سے کسی کو نہیں چوما۔ اِس پرآپ نے اس کی طرف دیکھ کر فرمایا: جو رحم
نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ (صحیح بخاری)
اللہ رب العزت نے فرمایا (المال والبنون زین الحیا الدنیا) ترجمہ: مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی زینت ہیں۔ ہماری اولاد ہی ہمارا سرمایہ ہیں، ان میں ہمیں اپنا کل نظر آتا ہے۔ کسی بھی قوم کے مستقبل کا دارومدار اسی جدید نسل پر منحصر ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو والدین اپنی تمام ترسرگرمیاں ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور ان کی اولین ترجیح اپنی اولاد ہوتی ہے۔ والدین کا باہمی پیاراور محبت، خیال اور تحفظ ہی بچے کے پھلنے پھولنے کا ضامن ہوتا ہے۔ جب بچہ ٹین ایج کی عمرکو پہنچتا ہے تو والدین کی ذمہ داریوں میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے۔ اس عمر میں بچہ اسکول، محلے اور معاشرے میں دوستیاں قائم کرتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی اس عمر میں ان کے دوست بنیں اور انہیں صحیح راستے کی رہنمائی کریں۔
بچوں کی شخصیت پر گھر کے ماحول کا بہت گہرا اثر ہوتا ہے ۔ بچے کی شخصیت کی تعمیر میں باپ اور دیگر قریبی رشتے دار بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے درمیانی طبقے میں خاندانی نظام آج بھی بڑی حد تک موثر ہے اوراچھے اخلاقی اقدار آج بھی وہاں نظرآتے ہیں۔ لہذا یہ کہنا کہ سارامعاشرہ خرابی کی طرف جارہا ہے،درست نہیں ۔
رزقِ حلال بچوں کی تربیت میں بہت معاون ہوتا ہے۔ ہمیں بچوں پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں اچھے اور برے کی پہچان لازما بتانا ہوگی۔ ان تمام باتوں پر عمل کرکے ہی ہم خود کو اچھے والدین ثابت کرسکتے ہیں اور اچھا اور برائیوں سے پاک معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
والدین گھریلو کام کاج میں ہاتھ بٹانے اور روازنہ نماز ساتھ پڑھنے کے لیے بچوں کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں۔ والدین کو پتہ ہو کہ ان کا بچہ کس قسم کے ہم عمر حلقے میں اٹھتا بیٹھتا ہے اور بچے کی ہر دن کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھیں۔ ہمارے معاشرے میں بچوں پر تشدد کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر ضروری ہے کہ بچوں کو بڑی احتیاط کے ساتھ اس خطرے کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے۔ اور یاد رکھا جائے کہ ہماری اولاد اللہ کی دی ہوئی امانت ہیں، اور امانت میں خیانت کرنا مرد مومن کا شیوہ ہرگز نہیں ہے۔سمیرا انور لکھتی ہیں کہ بچے من کے سچے اور کھرے ہوتے ہیں ان کے چھوٹے چھوٹے دماغ بہت کچھ سوچتے اور سمجھتے ہیں۔ ہم اکثر کہتے ہیں کہ بچے ہیں، انھیں کیا معلوم، لیکن یہی ہماری غلط فہمی ہے کیوں کہ ان کے مشاہدے کی حِس بہت تیز ہوتی ہے۔بچوں کی نفسیات سمجھنے کے لیے والدین کو بہت تگ و دو کی ضرورت ہے۔ یہی وقت ہوتا ہے جب ہم اپنے بچوں کو صحیح غلط اور اچھے برے کی تمیز سیکھاتے ہیں۔
اگر ہم بچوں کی عادات کے حوالے سیبات کریں تو عادت کامطلب طبیعت ،مزاج ،سرشت، خاصہ، خاصیت، طور،طریقہ،انداز،چال چلن،خصلت،خوجیسے معنوں میں لیا جاتا ہے۔جس طرح ایک پٹا ہوا ٹریک بہت سے لوگوں کے ساتھ چلنے سے بنتا ہے، اسی طرح ہماری عادتیں، اچھی یا بری، بار بار چلنے سے بنتی ہیں۔ وہ انسانی کردار کا حصہ ہیں۔ انہیں بنانا یا اپنانا تو بے حدآسان ہے لیکن توڑنا یا چھوڑنا،ترک کرنا انتہائی مشکل ہے۔ اچھی عادتیں انسان کو اچھا بناتی ہیں اور بری عادتیں انسان کو برا بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور یہی عادات بچوں کی زندگی اور ان کے معاشرے میں رہن سہن کے طریقہ کا ر کا تعین کرتی ہیں۔
یہ واقعی حقیقت پر مبنی کہا گیا ہے "ایک سوچ بو، اور ایک سچ بولنے سےآپ ایک عمل کاٹتے ہیں؛ ایک عمل بواور عادت کاٹو۔ عادت ڈالو اور کردار کاٹو۔ کردار بواور تقدیر کاٹو۔ بہترین اوراچھی عادات سب سے مشکل کام کو انجام دینے میں آسانی پیدا کردیتی ہیں۔ ہمیں اچھی عادتیں بنانے کے لیے تکلیف اٹھانی چاہیے۔ جوانی اچھی عادتیں بنانے کا وقت ہے۔
ہمارے ذہن پھر موم کے ہوتے ہیں ان میں لچک ہوتی ہے اور اسے کسی بھی طرح سے ڈھالا جا سکتا ہے۔ ہمیں ایسی عادتیں پیدا کرنی چاہئیں جو مضبوط کردار اور مردانگی کو فروغ دیتی ہوں۔
ہمیں صنعت کی عادات، ایمانداری، جلد اٹھنا، روزانہ ورزش، اپنے اساتذہ اور والدین کی فرمانبرداری، اخلاقی ہمت، قوت ارادی، ثابت قدمی، امید اور عمل کرنے کی صلاحیت، عمل کرنے، خیالات کو عملی شکل دینے کی عادت ڈالنی چاہیے۔
ایک بار جب ہم یہ موقع کھو دیں گے، تو بعد میں اپنے ذہنوں کو درست سمت کی طرف موڑنا مشکل ہو جائے گا۔ عمر کے ساتھ ساتھ ہمارا دماغ سخت ہو جاتا ہے اور اس کے بعد اس پر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا اور کوئی تاثر بھی نہیں ملتا۔ ہم کوشش کر سکتے ہیں. جوانی میں اچھی عادات کی نشوونمازندگی میں کامیابی کو یقینی بناتی ہے۔
کچھ والدین اپنے بچوں کے حوالے سے حد سے زیادہ مرعوب ہوتے ہیں۔ وہ اپنی طرف سے چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں کو بے نتیجہ سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں اور انہیں صحیح راستے پر ڈالنے کی قطعاکوشش نہیں کرتے۔ لیکن یاد رکھیں کہ جو ایک غلطی کو نظر انداز کرتا ہے وہ دوسرے کے کمیشن کو دعوت دیتا ہے۔
لہذا ایک بری عادت کو کلی میں ڈال دینا چاہیے ورنہ یہ بیماری کی طرح بڑھ کر لاعلاج ہو جائے گی۔ عظیم افلاطون نے ایک بار ایک بچے کو گری دار میوے سے جوا کھیلنے پر ڈانٹا تھا۔ بچے نے جواب دیا، تم مجھے معمولی سی بات پر ڈانٹ رہے ہو اس پر افلاطون نے سنجیدگی سے کہا عادت کوئی معمولی بات نہیں۔ عادت اچھی ہو یا بری، کردار کی بنیاد ہوتی ہے اور انسان کو معاشرہ اس کی عادات و اطوار کے مطابق پرکھتا ہے۔ ایک بار عادت بن جانے کے بعد، ہم عملی طور پر اس کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ لہذا ہمیں صرف اچھی عادتیں ہی پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ لہذا، کردار کی تعمیر کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مطلوبہ عادات پیدا کی جائیں۔ انسان کو صرف وہی عادتیں پیدا کرنی چاہئیں جو انسان کی خواہش ہوتی ہے۔ عادات کے ابتدائی بیج یقینا بچے کے اپنے بڑوں کی نقل کرنے کے رجحان سے بوئے جاتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ بڑے لوگوں کو چھوٹے بچوں سے پہلے اپنے رویے کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔