کالم

کسی کا آلہ کارنہیں وطن پرستی

کوئی دورائے نہیں کہ حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے کسی نوعیت کی پابندی دیکھنے میں نہیں آئی امن و امان کو یقینی بنانے کے ساتھ اِس امر کو بھی یقینی بنایا گیا کہ ووٹر آزادرضی سے رائے دے سکیں جس کا نتیجہ ہے کہ انتخابی نشان بلا چھن جانے کے باوجودپی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اُمیدواراتنی بڑی تعداد میں منتخب ہوئے کہ دونوں بڑی جماعتوں کے اُمیدوارں پر برتری حاصل مل گئی ہے یہ ایسی صورتحال ہے جس سے کسی بھی جماعت کے لیے قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت ثابت کرنا مشکل ہو گیا ہے اور اب ہر جماعت زیادہ سے زیادہ سودے بازی کی کوشش میں ہے مسلم لیگ ن کو پیپلز پارٹی حکومت بنانے کا مشورہ تو دے رہی ہے مگر وزارتیں لینے کی بجائے اپوزیشن نشستوں پر بیٹھاچاہتی ہے جس سے یہ تاثر گہراہورہا ہے کہ حالیہ عام انتخابات سے سیاسی استحکام کی توقعات ادھوری رہ سکتی ہیںاور ایک کمزور سی حکومت تشکیل پانے کا امکان ہے یہ صورتحال کسی طورمناسب نہیںملک کو جن گھمبیر مسائل کا سامنا ہے انھیں حل کرنے کے لیے ایک کمزور حکومت مزید خرابیوں کا باعث بن سکتی ہے اگر سیاستدان کسی عالمی طاقت کاآلہ کر بننے کی بجائے ظرف کا مظاہرہ کریں اور سیاسی مفادسے بالاتر ہو کر قومی مفاد کو پیشِ نظر رکھیں۔ اِداروں کااولیں فرض ریاست مخالف قوتوں کی مزموم سازشیں ناکام بنانا ہے اِس حوالے سے قابلِ قدر اورقابلِ تعریف کام کیاجارہا ہے مگر کچھ عرصہ سے مقتدرہ کے خلاف بیانیہ عوام میں پزیرائی حاصل کرنے لگا ہے جس میں سیاستدانوں کا کلیدی کردار ہے میموگیٹ اسکینڈل اور آصف زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی لیکن جلد ہی زہرناکی کا احساس ہوگیا اورکسی حدتک تعلقات بہتر بنالیے اقتدار سے محرومی کے بعد نوازشریف نے بھی عسکری قیادت کومسلسل ہدفِ تنقید بنایا اور ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بلندکرتے رہے اِ س بیانیے کی بدولت مسلم لیگ ن نے کئی ضمنی ا نتخابات میں کامیابیاں حاصل کیں لیکن تحریکِ عدمِ اعتماد کی کامیابی کے بعد مسلم لیگ ن نے اپنے بیانیے پر نظرثانی کر لی اور اِداروں کی لاڈلی بن گئی اقتدار کے دوران کچھ ایسے غیر مقبول فیصلے کیے جس سے عام آدمی کی زندگی ابتر ہوتی گئی انھی فیصلوں کے اثرات کا نتیجہ ہے کہ حالیہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن اور پی پی کئی ایسی نشستیں بھی ہار گئیں جن کے بارے میں کبھی ایسا قیاس بھی نہیں کیا جا سکتا تھا جبکہ پی ٹی آئی انتخابی نشان سے محروم ہونے کے باوجود جیت گئی کیونکہ مسلم لیگ ن اور پی پی اِس وقت مقتدرہ کے قریب سمجھی جاتی ہیں اسی لیے کچھ حلقوں کاکہنا ہے کہ مقتدرہ کالاڈلہ ہونا انھیںلے ڈوبا ہے حالانکہ یہ تاثر حقائق کے برعکس ہے اور سچی بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کی ناقص کارکردگی اور غیر مقبول فیصلوں کا ناکامی میں کلیدی کردار ہے لہذا بہتر یہ ہے کہ مقتدرہ کے خلاف بننے والے تاثرکودور کرنے کے لیے سیاستدانوں تعمیری کردارادا کریں عالمی طاقتیں جب کسی ملک کو انتشار و افراتفری کا شکارکرتی ہیں تو ابتدامیں اِداروں کے خلاف نفرت کو ہوا دیتی ہیں جس کا محب الوطنی کے دعویداروں کو ادراک ہونا چاہیے۔بانی پی ٹی آئی عمران خان ایک سے زائد بار کہہ چکے ہیں کہ تحریکِ عدم ِ اعتماد سابق عسکری سربراہ قمرباجوہ کی ایماپر پیش کی گئی جسے پی ڈی ایم نے ہمیشہ جھٹلانے کی کوشش کی لیکن حالیہ عام انتخابات میں بُری طرح شکست سے دوچارہونے والی جماعت جمعیت علمائے پاکستان ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کااب یہ کہنا ہے کہ جنرل ر قمر باجوہ اور جنرل ر فیض حمید کے کہنے پر عدمِ اعتماد کی قرارداد پیش کی گئی اِس کے ساتھ ہی ایک احتجاجی تحریک کی تیاریوں میں ہیں مزیدیہ کہ عمران مخالف سخت گیر موقف کے حوالے سے مشہور مولانا فضل الرحمٰن کا اچانک مسلم لیگ ن کی حکومت میں شامل ہونے سے انکار کرنے کوبھی سیاسی نبض شناس ایک ایسی اہم پیش رفت قرار دیتے ہیں جو باعثِ تعجب ہے صرف مولانا ہی نہیں جی ڈی اے کے سربراہ حروں کے روحانی رہنما پیر پگارہ بھی اپنی شکست کا زمہ دار مقتدرہ کو قرار دیتے ہوئے احتجاج کا اعلان کر چکے ہیں جس سے حالیہ عام انتخابات سے ایک تو سیاسی استحکام کا خواب پورا ہونا مشکل ہوسکتاہے بلکہ مقتدرہ سے قریبی روابط رکھنے کے دعویدار کئی اہم سیاستدان بدظن ہو سکتے ہیں انتخابی نتائج کے اثرات کا ہمہ گیر جائزہ لیا جائے توسب سے زیادہ نقصان مقتدرہ کوہواہے نہ صرف پی ٹی آئی گرج برس رہی ہے بلکہ مقتدرہ کے پسندیدہ ترین ہونے کے دعویدار مولانا فضل الرحمٰن سمیت کئی اور اہم رہنمابھی مداخلت کالازم لگاکر ہدفِ تنقید بنانے لگے ہیں یہ روش بہت خطرناک ہے جس کا ادراک کرنالازم ہے وگرنہ دیکھا دیکھی یا نادانستگی میں دیگر سیاستدان بھی کسی عالمی قوت کے ایجنڈے کا حصہ بن سکتے ہیں۔ عام انتخابات کے نتائج کے بعد دوسری بڑی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ پی ٹی آئی اور جمعیت علمائے پاکستان ف کے درمیان قربتیں بڑھننے لگی ہیں مولانا کی جماعت نہ صرف عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہنے کا بیانیہ ترک کرچکی بلکہ ملک مخالف کہنے کی بجائے اب محب الوطن اورانتخابی فاتح ہونے کااقرار کرنے لگی ہے اسی طرح پی ٹی آئی بھی ڈیزل کابیانیہ بھلا چکی ہے دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی طرف راغب ہونے کے لیے اِس قدر بے چین ہیں کہ پہلی ملاقات ہی انھیں قریب تر لے آئی ہے یہ سیاسی منظرنامہ کافی حیران کن ہے اِس سے ایک تو ثابت ہو گیا ہے کہ سیاستدان بغیر سوچے سمجھے بولتے ہیں اور ضرورت اور مفاد کے مطابق پشیمان ہوئے بغیر بیانیہ بدل بھی لیتے ہیں فہمیدہ حلقوں کاخیال ہے کہ سیاسی فائدے کے لیے مقتدرہ کو تنقید کا نشانہ بنا یاجاتاہے یہ رجحان تشویشناک ہے اغیار کا آلہ کار بن کر اپنے ہی اِداروں کے خلاف رائے بنانا ملک و قوم کے مفادکے منافی ہے۔عیاں حقیقت ہے کہ ملک میں امریکہ مخالف رائے عامہ مستحکم ہورہی ہے پی ٹی آئی بھی عوامی مزاج بھانپ کرہی امریکہ مخالف قوتوں کاحصہ بننے والی ہے زرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی حمایت سے منتخب ہونے والے ممبرانِ قومی اسمبلی جلد ہی مجلس واحدت المسلمین میں شامل ہو نے والے ہیںاِس کا مقصد سیاسی وزن امریکہ مخالف قوتوں کے ساتھ ملا کر اُنھیں مضبوط اور طاقتور بنا نا ہے قبل ازیں جماعتِ اسلامی سے کا حصہ بننے کی کوشش بھی ہوئی مگربات نہ بنی کیونکہ اول تو جماعت نے ایسی کسی کوشش کی زیادہ حوصلہ افزائی نہ کی دوم پی ٹی آئی کو ایسا محسوس ہوا کہ جماعت کی قیادت شاید مقتدرہ کے مخالف جانے سے گریز کرے اور ممکن ہے کسی بھی وقت دھوکہ دے جائے اسی لیے مجلس واحدت المسلمین کی طرف جانے کا فیصلہ کیا گیاشاید ایسا کرنے سے ایران کی طرف سے ہمدردی ملنے کی آس ہو کیونکہ وہ امریکہ مخالف ممالک میں نمایاں ترین ہے پی ٹی آئی نے سوچ سمجھ کر مجلس کی طرف جانے کی چال چلی ہے جونہایت خطرناک ہے اِس سے ملک میں بے چینی ،بے یقینی اور بدامنی کاخدشہ ہے فہمیدہ حلقوں کا موقف ہے کہ چین اورامریکہ کی محاز آرائی پاکستان تک آپہنچی ہے اوردونوں قوتوں کے حمایتی صفیں درست کرنے لگے ہیں اِس دوران اِداروں کے خلاف منظم مُہم چلائے جانے کا خدشہ بھی ہے بہتر یہ ہے کہ کسی کا آلہ کار بننے کی بجائے سیاستدان مل بیٹھ کر ایک ایسی وسیع ترحکومت تشکیل دیں جس سے نہ صرف سیاسی استحکام آئے بلکہ ملک کومعاشی دلدل سے بھی نکالا جا سکے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button