لاہور(بیورورپورٹ)پنجاب گروپ آف کالجز نے کہا ہے کہ بچے ہماری فیملی ہیں، بے بنیاد باتوں کے پیچھے لگ کر اداروں کیخلاف نہ جائیں۔ لاہور میں ڈائریکٹر پنجاب گروپ کالجز آغا طاہر اعجاز نے باقی انتظامیہ کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم بچوں سے ایک فیملی کی طرح ملتے ہیں، ہم اپنی خواتین سٹاف کی بھی قدر کرتے ہیں۔انہوں نے کہا ہے کہ ہم اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنا چاہتے ہیں، نہیں چاہتے کہ بچے اس طرح سڑکوں پر گھومیں، والدین سے درخواست ہے بچوں کو تلقین کریں، والدین سے گزارش ہے بچوں کو پڑھائی کی طرف لے کر آئیں۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کالج ڈائریکٹر نے کہا کہ 12اکتوبر کوبات نوٹس میں آئی تو فوری حرکت میں آئے، سوشل میڈیا کی مہم دیکھ کر پولیس نے ہم سے رابطہ کیا، ساری فوٹیج پولیس کے پاس ہیں، فرانزک لیب سے حقائق سامنے لا سکتے ہیں۔آغا طاہر نے کہا کہ جولڑکیاں چھٹیوں پر تھیں ان سے بھی رابطے کیے مگر ہمیں کچھ نہیں مل سکا، جو بچیاں سوشل میڈیاپردعویٰ کر رہی ہیں وہ ہمیں اس کے گھریاگلی میں لے جائیں۔انہوں نے کہا کہ جس گارڈ کی بات ہو رہی ہے وہ چھٹی پر تھا اسے فون کرکے بلایا اور وہ اس وقت پولیس کے پاس ہے، پولیس سے پوچھیں وہ سی سی ٹی وی ویڈیوکیوں نہیں دے رہے، سکیورٹی گارڈ نے بچوں کو ماراہی نہیں اور ا گرمارا ہے تو فوٹیج دی جائے جبکہ حکومت نے کالج کی رجسٹریشن معطل کردی۔کالج کی پرنسپل نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بچی سے مبینہ زیادتی کے حوالے سے ہفتے کی رات کو انسٹاگرام پر پوسٹ لگتی ہے، کہا گیا کہ جہاں حادثہ ہوا اس پارکنگ میں دروازے ہیں، ہماری پارکنگ میں کوئی دروازے نہیں ہیں، پولیس نے یہ پوسٹ سوشل میڈیا پر دیکھی اور آکر ہمارے سی سی ٹی وی کیمروں کا ڈیٹا دیکھا۔انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں پتہ چلا ایک دو طلبا یہ سٹوری لگا رہے ہیں، ہم نے ان سے کہا ہمیں اس بچی کا نام اور پتہ بتائیں تاکہ رابطہ کرسکیں، جب یہ کالج کی حدود میں آجاتی ہیں تو یہ ہماری بیٹیاں ہیں، تمام تحقیقات ہوچکیں، ہم حق اور سچ پر ہیں، ہم نے تمام باتیں سچائی کے ساتھ بیان کیں، یہ سراسر سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کیا گیا۔ ڈائریکٹر پنجاب کالجز لاہور عارف چودھری نے کہا ہے کہ بہت ساری چیزوں نے ہمیں بھی کنفیوژ کیا آپ کو بھی کررہی ہیں، ہمارا یہ پیغمبرانہ پیشہ ہے، ہمیں یہاں پڑھانے کا معاوضہ ملتا ہے، کسی چیز کو سیاسی کردینا ہمیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں، ہمیں چیزوں کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ جن کے انٹرویوز سامنے آئے وہ ہمارے ادارے کے نہیں، جو بچی وہاں سے تعلق نہیں رکھتی وہ کیسے انٹرویو میں ہمارے کالج کا کہہ سکتی ہے؟ یہ نہیں کہتا کہ کس کا قصور ہے، میں نے بھی سوشل میڈیا پر ویڈیوز دیکھیں، سوشل میڈیا پر 8 سے 10 بچیاں ہیں جن کے انٹرویوز وائرل ہیں، ویڈیوز میں 95 فیصد بچیاں وہ ہیں جو اس کیمپس کی نہیں۔عارف چودھری نے کہا ہے کہ میں نے اس پروفیشن میں 36 سال گزارے ہیں، اگر میرے کیمپس میں بھی بچے گیٹ توڑ کر گھسیں گے تو گارڈ معاملے کو دیکھیں گے، کیمپس میں کچھ اساتذہ کو بھی دوسرے طلبا سے تھپڑ پڑے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے لیے نئی چیز ہے کہ واقعہ تیسرے فلور پر ہوا ہے، ہماری مینجمنٹ سے زیادہ آپ اس واقعہ سے آگاہ ہیں، ڈی وی آر بھی پولیس نے ہم سے لے لی ہے، پولیس سے سوال کریں اور ان سے بھی پوچھیں۔ڈائریکٹر پنجاب کالجز لاہور نے کہا ہے کہ عالم یہ تھا کہ میں اپنے آپ کو بچا رہا تھا، میرا دفتر اس جگہ ہے جہاں سے بھاگنے کا راستہ بھی نہیں ہے، ہم کوشش کررہے تھے کہ اندر آنے والے بچے پرامن رہیں۔انہوں نے کہا ہے کہ واقعہ یہی ہے کہ کوئی واقعہ نہیں ہے، اگر یہ الزام ثابت ہو گیا تو میں یہ پیشہ چھوڑ دوں گا، اگر یہ واقعہ سچ ہوا تو اپنے چیئرمین کے ساتھ نہیں طلبا کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔عارف چودھری نے مزید کہا ہے کہ کوئی اور بچی ہے تو مجھے اس کا بتادیں وہ کہاں ہے؟ رپورٹ میں واضح ہے بچی کو سانس کا مسئلہ پہلے سے تھا، والدین نے کہا ہے بچی گر گر زخمی ہوئی، یہ رپورٹ میں نے نہیں بنائی۔ڈائریکٹر پنجاب کالجز لاہور نے کہا ہے کہ یہ سوشل مسئلہ ہے، آپ کے پاس ثبوت ہے تو ہمیں دیں، میں آپ کے سامنے ہوں، 10 دن بعد پھر آجاں گا، درست سائیڈ وہ ہے جو حق پر ہے، اگر یہ واقعہ ہوا ہے تو میں ذمہ دار ہوں، کسی ہسپتال یا گارڈ کے تشدد کا ثبوت ہے تو ہمیں فراہم کریں۔عارف چودھری نے کہا ہے کہ میں انویسٹی گیشن آفیسر نہیں ہوں، اس واقعہ کو مجھ سے نہ جوڑیں، آپ پولیس کی تحقیقات پر یقین کرنا چاہتے ہیں کریں نہیں کرنا چاہتے نہ کریں، یہ تمام بچے 16 سے 18 سال کے درمیان ہیں، آپ کو معلوم ہے بچے ٹک ٹاک بھی بناتے ہیں۔پریس کانفرنس کے آخر میں ڈائریکٹر پنجاب گروپ آف کالجز آغا طاہر اعجاز نے کہا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں یہ بچوں کے بے وقوفانہ عمل پر چیز اتنی پھیلی، ہم بچوں کو سمجھائیں گے، ہم اساتذہ ہیں، کسی سٹوڈنٹ کا مستقبل خراب نہیں کرنا چاہتے
0 515 4 minutes read