اسلام آباد(نیوز ڈیسک) چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری ایک بار پھر سربراہ جمیعت علما اسلام مولانا فضل الرحمان کے گھر پہنچے اور ان سے آئینی ترمیم کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔گزشتہ 48 گھنٹے میں بلاول بھٹو زرداری کی دوسری بار مولانا فضل الرحمان کے گھر آمد ہوئی۔مولانا فضل الرحمان نے بلاول بھٹو زرداری کا وفد کے ہمراہ استقبال کیا ۔بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ وفد میں خورشید شاہ ، نوید قمر، مرتضی وہاب اور جمیل سومرو بھی شامل تھے۔جے یو آئی کی طرف سے مولانا عبدالغفورحیدری، مولانا عبدالواسع، مولانا اسعد محمود، سینیٹر کامران مرتضی، میرعثمان بادینی اور مولانامصباح الدین بھی ملاقات میں شریک ہوئے۔اس سے قبل چیئرمین پیپلز پارٹی نے وزیراعظم شہباز شریف سیملاقات کی تھی جس کے بعد وہ مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پہنچے۔بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان کی ملاقات تقریبا ایک گھنٹہ جاری رہی۔ملاقات کے بعد بلاول بھٹو زرداری مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ سے روانہ ہوگئے۔اس موقع پر میڈیا سے گفتگو میں پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ کل سے آئینی ترمیم پر بات ہو رہی ہے، بل آرہے ہیں، جو بل لارہے تھے ان سے کچھ چیزیں ہٹائی گئیں، جن باتوں پر ہم سب متفق تھے اس بل کے لیے آئے تھے, مولانا کو بتایا کہ ترمیمی بل پیپلزپارٹی بنا رہی ہے، مولانا سے کہا ہے کہ آپ کوئی تجویز دینا چاہتے ہیں تو لے آئیں۔خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ قانون سازی ہمارا حق ہے، ہمیں کوئی نہیں روک سکتا، مولانا فضل الرحمان کو اعتماد میں لیا ہے، جب مولانا فضل الرحمان اور ہم متفق ہوں گے تو حکومت کو بتائیں گے، ہم آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے، یہ ملاقاتیں ہوتی رہیں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم جو بل لے کر آرہے تھے اس کا بتادیا گیا تھا، آج ہم اس لیے آئے کہ جن باتوں پر ہم سب متفق ہیں ان پر بیٹھ جاتے ہیں، ساری جماعتوں سے بات کرکے بل پارلیمنٹ میں لے آئیں گے، ملک و قوم اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے قانون سازی کرنا ہمارا حق ہے۔نوید قمر کا کہنا تھا کہ کل اسپیشل کمیٹی میں مولانا فضل الرحمان موجود تھے، اسپیشل کمیٹی میں بات ہوئی کہ جس پر سب متفق ہیں وہ لیکر آئیں، بات ہوئی کہ جو بھی ترامیم ہیں ان کو وقت دیا جائے اور ان پر بات کی جائے، کل کمیٹی میں اس پر اتفاق تھا کہ جن شقوں پر اختلاف رائے ہے ان پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔نوید قمر کا مزید کہنا تھا کہ آج کی ملاقات میں مثبت باتیں ہوئیں، مل کربیٹھیں گے تو قومی اتفاق رائے پیدا ہوگا، آئینی عدالت کے قیام کے لیے ترمیم ہے، مولانا فضل الرحمان نے بھی اس کی تشکیل پر اتفاق کیا ہے، مولانا فضل الرحمان کا اختلاف آئینی عدالت کے طریقہ کار سے ہے۔خیال رہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز کی مدت ملازمت میں اضافے اور نئی آئینی عدالت کے قیام سمیت دیگر ترامیم کی منظوری کے لیے گزشتہ روز قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس طلب کیے گئے تھے تاہم مولانا فضل الرحمان اور اپوزیشن کے اعتراضات اور تجاویز کے باعث آئینی ترامیم منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش نہ کی جاسکیں۔دوسری جانب سینیٹ کے اجلاس کے لیے بھی گزشتہ روز تین مرتبہ وقت تبدیل کیا گیا لیکن قومی اسمبلی کا اجلاس ختم ہوا تو اس کے بعد سینیٹ کے حکام آئے اور انہوں نے بتایا کہ اجلاس کل تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔اس حوالے سے آئینی کمیٹی کے بھی گزشتہ روز 4 اجلاس ہوئے جس میں تمام تجاویز کا تفصیلی جائزہ لیا گیا تاہم کسی متفقہ نتیجے پر نہ پہنچنے کے باعث رات گئے اسپیکر نے اجلاس آج بروز پیر تک کے لیے ملتوی کر دیا تھا۔آج بھی آئینی ترامیم پر تمام جماعتوں کی رضا مندی نہ ہونے کے باعث پہلے سینیٹ اور پھر قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا آئینی ترامیم کا پارلیمنٹ سے منظور نہ ہونا حکومت کی ناکامی ہے، آئینی ترامیم کے معاملے پر مولانا فضل الرحمان کی جیت ہوئی ہے۔اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہیکہ وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ امریکا سے واپسی تک آئینی ترمیم کو مخر کردیا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم کی واپسی پر آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں پیش کیے جانیکا امکان ہے۔
0 217 3 minutes read