کالم

روس یوکرین جنگ: خودمختاری اورعالمی استحکام کی جدوجہد

خصوصی رپورٹ : صدام حسین
24 فروری 2022 کو روسی صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین میں ایک "خصوصی فوجی آپریشن” کا اعلان کیا، جس کے بعد دنیا نے 21ویں صدی کے ایک بڑے تنازعے کا مشاہدہ کیا۔ اس جنگ نے نہ صرف مشرقی یورپ کے جغرافیائی سیاسی منظرنامے کو تبدیل کیا ہے بلکہ اس کے اثرات عالمی معیشت، بین الاقوامی سفارتکاری اور انسانی امداد کی کوششوں پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔
روس یوکرین جنگ کی جڑیں سوویت یونین کے 1991 میں خاتمے تکجاتی ہیں جس کے بعد یوکرین ایک آزاد ملک کے طور پر ابھرا۔ آنے والی دہائیوں میں، یوکرین اور روس کے تعلقات تعاون اور کشیدگی کے درمیان جھولتے رہے ۔ 2014 میں روس کی طرف سے کریمیا کا الحاق ایک اہم موڑ تھا، جس نے ماسکو کی جغرافیائی سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے فوجی طاقت کے استعمال کی آمادگی کو ظاہر کیا۔ یہ واقعہ، اور یوکرین کے مشرقی حصے میں یوکرینی فوج اور روس نواز علیحدگی پسندوں کے درمیان جاری تنازعہ، 2022 میں مکمل پیمانے پر حملے کا پیش خیمہ بنا۔
24 فروری 2022 کی صبح، روسی افواج نے یوکرین پر کثیر الجہتی حملہ کیا، جس میں کیو، خارکیف اور ماریوپول جیسے اہم شہروں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے کی بین الاقوامی برادری کی طرف سے بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی۔ مغربی ممالک، خاص طور پر امریکہ اور یورپی یونین کی قیادت میں، نے فوری طور پر روس پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کیں، جس کا مقصد اس کی معیشت کو تباہ کرنا اور اسے واپس لینے پر مجبور کرنا تھا۔
روس کی زبردست فوجی طاقت کے باوجود، یوکرینی افواج نے شہری رضاکاروں اور بین الاقوامی حمایت کے سیلاب سے بھرپور مزاحمت کی۔ صدر وولودیمیر زیلنسکی مزاحمت اور ثابت قدمی کی علامت بن کر ابھرے ، انہوں نے انخلاء کی پیشکشوں کو مسترد کیا اور اس کے بجائے اپنی قوم اور دنیا کو جوش و خروش سے بھرپور تقاریر کے ذریعے متحرک کیا۔
اس جنگ نے ایک شدید انسانی بحران کو جنم دیا ہے ۔ اقوام متحدہ کے مطابق، لاکھوں یوکرینی اپنے گھر چھوڑ کر پولینڈ، رومانیہ، اور ہنگری جیسے ہمسایہ ممالک میں پناہ لے چکے ہیں۔ ماریوپول جیسے شہر تباہ ہو چکے ہیں، بے شمار شہریوں کی ہلاکتیں اور بنیادی ڈھانچے کی وسیع پیمانے پر تباہی ہو چکی ہے ۔ انسانی ہمدردی کے ادارے مدد فراہم کرنے کے لیے انتھک کوششیں کر رہے ہیں، لیکن بحران کی شدت نے وسائل کو مفلوج کر دیا ہے ۔
تنازعے کے عالمی معیشت پر بھی بڑے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ روس اور یوکرین گندم کے بڑے برآمد کنندگان ہیں، اور ان کی زرعی پیداوار میں خلل نے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے اور عالمی غذائی بحران کے خدشات پیدا کیے ہیں۔ اس کے علاوہ، یورپ کی روسی قدرتی گیس پر انحصار نے توانائی کے ذرائع کو متنوع بنانے کی فوری کوششوں کو جنم دیا ہے ، جس سے توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور معاشی دباؤ پیدا ہوا ہے ۔
روس پر پابندیوں نے اسے عالمی مالیاتی نظام سے الگ کر دیا ہے ، لیکن ان پابندیوں کے ناپسندیدہ نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔ مثال کے طور پر، ان پابندیوں نے تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے ، جس سے روس کو پابندیوں کے باوجود کافی آمدنی حاصل ہوئی ہے ۔ مزید برآں، عالمی سپلائی چین، جو پہلے ہی COVIDـ19 وبا سے متاثر تھی، کو مزید رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ، جس سے عالمی سطح پر صنعتوں پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
یہ تنازعہ تیز حملے سے طویل عرصے تک جاری رہنے والی جنگ میں تبدیل ہو چکا ہے ۔ یوکرینی افواج نے گوریلا حکمت عملی اپنائی ہے اور اپنے علاقے کی مکمل معلومات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے روسی پیش قدمی کا مقابلہ کیا ہے ۔ مغربی ممالک نے یوکرین کو جدید ہتھیاروں، انٹیلی جنس معاونت اور تربیت فراہم کی ہے ، جس سے اس کی دفاعی صلاحیتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔
دوسری طرف، روس کو لاجسٹک چیلنجوں، فوجی حوصلے کی کمی، اور بین الاقوامی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اس جنگ نے اس کی فوجی حکمت عملی اور سازوسامان میں کمزوریوں کو بے نقاب کیا ہے ۔ تاہم، روس نے بھی اپنے حربوں میں تبدیلی کی ہے ، ڈونباس علاقے پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے اور یوکرینی مزاحمت کو کمزور کرنے کے لیے شدید توپ خانے کی بمباری کا سہارا لیا ہے ۔
تنازعے کو حل کرنے کے لیے سفارتی کوششیں جاری ہیں لیکن چیلنجوں سے بھرپور ہیں۔ ترکی جیسے ممالک اور اقوام متحدہ جیسے اداروں کی ثالثی میں ہونے والے کئی امن مذاکرات اب تک کوئی مستقل جنگ بندی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ علاقائی سالمیت، سیاسی خودمختاری اور سلامتی کی ضمانتوں کے بنیادی مسائل اب بھی متنازعہ ہیں۔
مغرب کی یوکرین کی حمایت کرنے کی عزم مضبوط رہی ہے ، لیکن مزید بگاڑ سے بچنے کے لیے سفارتی حل کی ضرورت کا ادراک بھی بڑھ رہا ہے ۔ اس جنگ نے بین الاقوامی تعلقات کو بھی متاثر کیا ہے ، خاص طور پر مغرب اور ان ممالک کے درمیان جن کا موقف زیادہ مبہم ہے ، جیسے چین اور بھارت۔
روس یوکرین جنگ بین الاقوامی نظام کی نازکیت اور مسلح تنازعے کے تباہ کن اثرات کی واضح یاد دہانی ہے ۔ جب تک یہ جنگ جاری ہے ، دنیا قریبی نظر رکھے ہوئے ہے ، اس امید کے ساتھ کہ ایک ایسا حل نکلے جو امن کی بحالی کرے اور خودمختاری اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کو برقرار رکھے ۔ یوکرینی عوام کی ثابت قدمی، عالمی سفارتکاری کی پیچیدگیاں، اور جنگ کی غیر متوقع نوعیت اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ اس تنازعے کا نتیجہ آنے والے سالوں تک جغرافیائی سیاسی منظرنامے کو تشکیل دے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button