نوبل امن انعام یافتہ، ماہر معاشیات ڈاکٹر محمد یونس عبوری حکومت کی سربراہی کے لیے بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا پہنچ گئے۔
ڈھاکا پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محمد یونس آبدیدہ ہو گئے اور کہا کہ طلبا نے بنگلا دیش کو بچایا ہے، اب ہم نے ملک میں امن اور استحکام کے لیے کام کرنا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی خبر کے مطابق ڈاکٹر محمد یونس مقامی وقت کے مطابق دوپہر تقریبا 2 بجے پیرس سے براستہ دبئی ایک پرواز کے ذریعے ڈھاکا پہنچے ہیں۔
وہ آج شام جلد ہی ملک کے نئے سربراہ کے طور پر حلف اٹھائیں گے جس کے بعد اس عمل کا آغاز ہوگا جسے ملک کے آرمی چیف نے خوبصورت جمہوری عمل قرار دیا تھا۔
وزیر اعظم حسینہ واجد کے مستعفی ہونے کے بعد بنگلہ دیش کے نوبیل انعام یافتہ، ماہر معاشیات مظاہروں کی قیادت کرنے والے طلبہ کے مطالبے پر عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ عبوری حکومت کے باقی ارکان کے ناموں کا اعلان بھی جلد کیا جائے گا۔
احتجاج کرنے والے طلبہ کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد یونس نے کہا تھا کہ وہ بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کی سربراہی کے لیے تیار ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو ایک تحریری بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ مظاہرین نے مجھ پر جو اعتماد کیا اسے میں اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہوں جہاں وہ مجھ سے چاہتے ہیں کہ میں عبوری حکومت کی قیادت کروں۔
84 سالہ نوبیل انعام یافتہ مائیکرو فنانس کے علمبردار نے آزاد انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بنگلہ دیش میں اقدامات کی ضرورت ہے تو اپنے ملک اور اپنے لوگوں کی جرات کے لیے میں یہ منصب سنبھالنے کے لیے تیار ہوں۔
انہوں نے کہا تھا کہ عبوری حکومت صرف شروعات ہے لیکن پائیدار امن صرف آزادانہ انتخابات سے ہی آئے گا اور انتخابات کے بغیر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
محمد یونس نے کہا تھا کہ نوجوانوں نے ہمارے ملک میں تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے اور ان نوجوانوں میں بے پناہ ہمت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ان نوجوانوں نے بنگلہ دیش کا سر فخر سے بلند کیا اور دنیا کو ناانصافی کے خلاف ہماری قوم کے عزم کا عملی مظاہرہ کیا۔
ماہر معاشیات نے کہا کہ میں سیاست سے دور رہنا چاہتا ہوں لیکن اگر حالات کے پیش نظر ضرورت ہو تو حکومت کی قیادت کر سکتا ہوں۔غریب ترین لوگوں کے بینکر کے نام سے مشہور محمد یونس کو 2006 میں ان کے کام کے لیے نوبیل انعام سے نوازا گیا جہاں انہوں نے دیہی خواتین کو چھوٹی نقد رقوم بطور قرض دی تھیں تاکہ یہ خواتین کھیتی باڑی کے اوزار یا کاروباری آلات میں سرمایہ کاری کر کے اپنی کمائی کو بڑھا سکیں۔
واضح رہے کہ احتجاج اور مظاہرے کر کے حکومت کے خاتمے کا سبب بننے والے بنگلہ دیشی طلبہ رہنماؤں نے مطالبہ کیا تھا کہ محمد یونس نگراں حکومت کی قیادت کریں۔
76 سالہ حسینہ واجد نے 2009 میں اقتدار سنبھالا تھا لیکن ان پر جنوری میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا گیا تھا اور پھر گزشتہ ماہ لاکھوں لوگوں نے کوٹہ سسٹم کے خلاف سڑکوں پر مظاہرے کیے تھے جس میں سینکڑوں مارے گئے تھے۔
گزشتہ ماہ مظاہروں کے طلبہ اور اپوزیشن جماعتوں نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی تھی جس میں سینکڑوں افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد حسینہ واجد ہیلی کاپٹر میں ملک سے فرار ہو گئی تھیں اور وزارت عظمی سے استعفی دے دیا تھا۔
0 30 2 minutes read