
امریکی ڈالرنے عالمی طور پر اپنی اہمیت منوائی ہوئی ہے.امریکی ڈالر تمام دنیا کی مارکیٹ پر چھایا ہوا ہے.ڈالر کی اپنی ویلیو ہے،مگر اب لگتا ہے کہ ڈالر آہستہ آہستہ اپنی ساکھ کھو رہا ہے.بین الاقوامی لین دین ڈالرز میں ہوتا ہے،جس کی وجہ سے امریکہ اپنی مضبوطی کو برقرار رکھے ہوئے ہے.ماضی میں کرنسی نہ ہونے کی وجہ سے بارٹر سسٹم کا نظام قائم تھا.بارٹر سسٹم اشیا کا تبادلہ کہلاتا ہے.مثال کے طور پر اگر ایک فردکے پاس دو بکریاں ہیں اور وہ گائے خریدنا چاہتا،تو وہ دو بکریاں دے کر ایک گائے خرید لیتا تھا.اس سسٹم میں بہت بڑی خرابی تھی،کیونکہ بکریاں نہ ہونے کی صورت میں وہ دو مرغیاں دے کر گائے بھی خرید لیتا تھا.اس سے واضح ہوتا ہے کہ ایک فریق کولازما نقصان اٹھاناپڑتاتھا۔اس کے باوجود بھی دنیا کا نظام چلتا رہا،بلکہ یہ کہنا درست ہے کہ اس وقت کا نظام بہترین معاشی نظاموں میں کہا جا سکتا ہے.ماضی میں کافی اشیا فری میں بھی حاصل ہوجاتی تھیں،جن کا آج کل ادائیگی کے بغیر حصول مشکل ہے.اس کے بعد سونا اور چاندی کوکرنسی کے طور پراستعمال کیا جاتا رہا.بطور کرنسی کوئی اور اشیا بھی استعمال ہوتی رہیں.آہستہ آہستہ کاغذی کرنسی کا لین دین شروع ہوا.دنیا کولین دین کے لیے ایک مضبوط کرنسی کی ضرورت تھی،بلکہ یہ کہنا بھی درست ہے کہ امریکہ کے پاس زیادہ سونا ہونے کی وجہ سے ڈالرکو مضبوط کرنسی تسلیم کیا گیا.ڈالر کی اہمیت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ اب بھی اس کو ایک مضبوط اور قابل اعتبار کرنسی سمجھا جاتا ہے.عرب ممالک تیل کا کاروبار ڈالرکے ذریعے کرنے پر مجبور ہیں.حالانکہ کئی ممالک کی کرنسیوں کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے،اس کے باوجود بھی ڈالر کو ایک فوقیت حاصل ہے.ڈالرکو ایک مستند کرنسی سمجھا جاتا ہے.ڈالر کے مقابلے میں دوسری کرنسیاں مارکیٹ میں اپنا وجود منوانے میں کامیابی حاصل نہیں کر پا رہی.تیل کے علاوہ دوسری اشیا بھی ڈالر کے ذریعے خرید و فروخت کی جاتی ہیں.مثال کے طور پر ادویات،آئی۔ٹی کےآلات،مشینری اور اس جیسی کئی ضروری چیزیں ڈالر میں خریدی اور بیچی جاتی ہیں.اس بات کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ امریکہ ڈالر کی اہمیت منوا چکا ہیاور پوری دنیا ڈالر کے ذریعے تجارت کرنے پر مجبور ہے.ترقی یافتہ ممالک پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے ممالک کی کرنسیاں مارکیٹ میں لین دین کے لیے استعمال کر سکیں،مگر واضح طور پر ناکامی ہو رہی ہے.جنگ عظیم کے بعدوعدہ کیا گیا تھا کہ جتناجس ملک کے پاس سونا ہیوہ اتنا ہی کرنسی چھاپ سکتا ہے.کچھ عرصہ اس معاہدے پر پابند رہنے کے بعدامریکہ نے ڈالر چھاپنے شروع کر دیے.لین دین کے لیے دنیا کو زیادہ ڈالرز کی ضرورت تھی.امریکہ جتنے ڈالر چھاپ چکا ہے،اتنا اس کے پاس سونا موجود نہیں ہے,لیکن ڈالر کی اجارہ داری اب بھی موجود ہے. ڈالر کی اجارہ داری ختم کرنے کے لییکئی ممالک اپنی کوشش شروع کر چکے ہیں.چین کی کرنسی یوآن اور روس کی کرنسی روبل ڈالر کے مقابلے میں اپنا وجود منوا رہی ہے.ایران پر مغربی پابندیاں ہونے کی وجہ سے یہ ڈالر کے علاوہ دوسری کرنسیوں میں بھی لین دین کرنا چاہتا ہے.روس اور امریکہ کی مخالفت بھی روبل کی راہ ہموار کر رہی ہے.انڈیا بھی تقریبا اپنی کرنسی روپیہ کے ذریعے تجارت کرنے کے ارادے کر رہا ہے.ڈالر کے مقابلے میں یورو،دینار،پونڈ،ین اور کچھ دوسری کرنسیاں اپنی اہمیت منوا رہی ہیں،مگر مکمل طور پر ڈالر کو مارکیٹ سے آٹ نہیں کر سکیں.ایران تیل اور گیس کے وسیع ذخائر رکھتا ہے،اس کی کوشش ہے کہ لین دین ڈالر کی بجائے دوسری کرنسیوں میں ہو.سعودی عرب اور اس جیسے ممالک ڈالر کی اجارہ داری ختم نہیں کر سکے،وہ مجبورا اپنی تجارتی لین دین ڈالر کے ذریعے کر رہے ہیں.روس اور ایران اعلان کر چکے ہیں کہ وہ مقامی کرنسیوں کے ذریعے لین دین کریں گے.ممکن ہے کہ وہ جلدازجلد ڈالر کی اجارہ داری ختم نہ کر سکیں لیکن آخر کار ڈالر کی اہمیت ختم ہی ہو جائے گی.اس کا بھی امکان موجود ہے کہ طاقتور ممالک ایک نئی کرنسی وجود میں لےآئیں،جو باآسانی ڈالر کی اجارہ داری ختم کر سکے.اس بات کا بھی امکان موجود ہیکہ روبل ،دیناریا یوآن کے ذریعے تجارتی لین دین شروع ہو جائے.ضرورت بھی ہے کہ ڈالر کی اجارہ داری ختم ہو جائے تاکہ دنیا میں پھیلا ڈپریشن ختم ہو سکے.پاکستان جیسے ملک کی کرنسی روز بروز گر رہی ہے,جس کی وجہ سے مہنگائی کا گراف بہت ہی بلند ہو رہا ہے.پاکستان اپنی کرنسی کی ویلیو مضبوط رکھے تاکہ مہنگائی پر قابو پایا جا سکے.پاکستان کو بھی چاہیے کہ ڈالر کی اجارہ داری ختم کرنے کی کوشش کرے.پاکستان دوسرے ممالک کے ساتھ لوکل کرنسیوں کے ذریعے لین دین شروع کریتاکہ غربت پر قابو پایا جا سکے دنیا میں روز نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں اور اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی شروع ہو جائے.ڈیجیٹل کرنسی کئی ممالک میں شروع ہونے کے تجربے کیے جا رہے ہیں.بلکہ تمام دنیا میں آہستہ آہستہ ڈیجیٹل کرنسی بھی رواج پارہی ہے.موبائل اکانٹ یا اس جیسے بینک اکانٹ میں ہندسوں کے ذریعے کرنسی شو ہوتی ہیاور وہ کرنسی قابل قبول بھی ہوتی ہے.ممکن ہے کہ چند سال کے بعد کاغذی کرنسی اپنی اہمیت کھو چکیاوراس کے متبادل ڈیجیٹل کرنسی اپنا وجود منوا لے.لیکن ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہیکہ ڈیجیٹل کرنسی میں بھی ڈالر کو اہمیت حاصل نہ ہو.امریکہ نوٹ زیادہ بھی چھاپ رہا ہے،اس کے باوجود اس کی کرنسی مضبوط ہے.دوسرے ممالک اگر زیادہ کرنسی چھاپ لیں تو ان کی معیشت گر سکتی ہے.کئی ممالک اپنی کرنسی کی ویلیو بڑھانے کے لیے بڑی بڑی مالیتوں کے نوٹ چھاپ چکے ہیں,مگر وہ نوٹ بھی اس ملک کی معیشت کو سہارا نہیں دے سکے.ڈالر کی اجارہ داری ختم کیے بغیر دنیا کا معاشی نظام بہتر نہیں بنایا جا سکتا.کمزور ممالک اپنی معیشت چلانے کے لیے ڈالر کے محتاج ہوتے ہیں،وہ مجبورا ڈالر کے ذریعے ادائیگی کرتے ہیں اور ڈالر نہ ہونے کی صورت میں وہ قرض لیتے ہیں.قرض لے کر وہ ادائیگی بھی ڈالر کے ذریعے کرنے پر مجبور ہوتے ہیں.ڈالر کے ذریعے لین دین ہونے کی وجہ سے ان کی معیشت مضبوط ہونے کی بجائے کمزور رہتی ہے.انصاف کا تقاضا ہے کہ ڈالر کی بجائے دوسری کرنسیوں کو بھی اہمیت دی جائے.سعودی عرب اور اس جیسے دوسرے ممالک لین دین کے لیے ڈالر کی بجائیاپنی کرنسیوں میں لین دین کرنا شروع کر دیں.مقامی کرنسیوں پر اگر اعتبار نہیں کیا جا سکتا تو مشترکہ کرنسی بنائی جا سکتی ہے،جو سارے ممالک کے لیے قابل قبول ہو.ایران،چین،پاکستان،روس اور کئی دوسرے ممالک مل کر ڈالرکی بجائے دوسری کرنسی میں لین دین کرناشروع کر دیں، توتب دنیا میں غربت میں نمایاں کمی کی جا سکتی ہے. ڈالر کو بھی مکمل طور پرآٹ کرنا ضروری نہیں بلکہ وہ بھی تجارت میں استعمال ہو سکتا ہے.جتنی اہمیت ڈالر کوہو، اتنی اہمیت دوسری کرنسیوں کو بھی ہو تاکہ دنیا میں برابری کا نظام قائم رہ سکے.