قارئین! دنیا نئے ذرائع مواصلات،ٹیلی کمیونیکشن اور انٹر نیٹ کی بدولت سمٹ کر دیو ہیکل سر زمین سے ایک معمولی سا گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ اب وقت کا تقاضہ ہے کہ قرآن مجید جسے فرقان بھی کہا جاتا ہے اس کے احکامات کو مکے کے بدوئوں کی زبان میں نازل کیا گیا ،اس لئے ضروری ہے کہ جدید تقاضوں کی روشنی میں موجودہ دور کے حساب سے اس کا علمی مطالعہ کیا جائے اور نقش کہن کو مٹاتے ہوئے نئی interprettionکی جائے جو عصر حاضر سے میل کھائے۔اگر آج ہم تلوار،نیزے اور گھوڑے لے کر جنگ کے میدان میں نکل جائیں تو اسے عقلمندی سے تعبیر نہیں کیا جائے گا۔آج جب ساری دنیا میں nations States کا وجود قائم ہو چکا ہے اور ہم خلافت اور ملوکیت کی بات کریں تو لوگ ہماری حوصلہ افزائی کے بجائے ہمیں مخبوط الحواس سمجھیں گے۔یہ سب احکام قرآن میں عربی مبین میں ناظر ہوئے اور تمثیل کے انداز میں رہتی دنیا کے لئے ہمہ گیر حقیقت بن کر عالم انسانیت کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنے۔ بس فرق یہ تھا کہ جب قرآن نازل ہوا تو اس وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر قریش کی زبان میں نازل ہوا تا کہ اتمام حجت کی جا سکے۔لیکن ہماری بدقسمتی کہ ہم اللہ کی زندہ و جاوید کتاب کو اس کے سیاق و سباق سے ہٹا کر اس کی آیتیں بغیر سوچے سمجھے کہ وہ کس لئے نازل ہوئی اوٹ پٹوٹ تشریح کرنا شروع کر دیتے ہیں۔محترم قارئین! یہ قرآن معجزہ ہے اور اسے ہم محج رٹ کر یا ایصال ثواب کے لئے مردے بخشوانے کے لئے استعمال کرتے ہیں،حالانکہ یوں نہیں یہ تو رہتی دنیاتک کے لئے روشنی اور اخلاق کا سر چشمہ ہے۔قارئین! موجودہ وزیر اعظم کا خوش آئند لائحہ عمل ہے کہ وہ اسلامی دنیا سے براہ راست رابطے میں ہیں اور عالم اسلام کو ہر پلیٹ فارم پر یکجا رکھنے کے لئے ہمہ تن اپنی توجحات اسلامی برادی پر رکھے ہوئے ہیں۔ان کے پیش نظر مسلم امت کا یک جھنڈے تلے جمع ہونا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے موثر انداز میں کشمیر ایشو،فلسطین،افغانستان اور دیگر مسلم ممالک کی آزادی پر قدغن لگانے پر شدید تنقید کی ہے۔بے شک آج امت مسلمہ کی نشاط ثانیہ کی ضرورت ہے،لیکن مسلمانوں کی فرقہ بندی اور اخلاقی بے راہ روی اب شائد کئی سو سال تک انہیں دنیا کا اقتدار نصیب نہ ہو سکے۔وہی مذہب جو سلامتی اور محبت کا درس دیتا ہے ،اسی کے پیرو کاروں نے terrorismکے نام پر نہ صرف امت مسلمہ کے لئے مسائل پیدا کئے ہیں بلکہ معذرت کے ساتھ یہ چند مٹھی بھرلوگ انسانیت کی جان ،مال اور آبرو کے لئے خطرہ بن چکے ہیں۔ حد یہ ہے کہ 58مسلم ممالک اقوام متحدہ میںاورOICکو عالم اسلام میں فعال رکھنے کے باوجودعلاقائی اور عالمی فورم پر یک زبان نہیں ہو سکتے ،بلکہ ایک دوسرے پر ہر وقت ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمان دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں اور دوسری طرف خلافت کے خواب دیکھ رہے ہیں۔خلافت کے لئے ابو بکر ،عمر،عثمان اور علی جیسے مدبر اشخاص کی ضرورت ہے ،جن کا آج کل عشر عشیر بھی ہم مسلمانوں میں کوئی نہیں ہے۔اس سلسلے میں صرف ایک ہی بات قابل عمل ہو سکتی ہے کہ ہم یورپ کے طرز پر مسلم ممالک کا ایک بلاک بنائیں،جہاں کرنسی،ڈیفنس اور دیگر ممالک کے ساتھ خارجہ پالیسی کے اصولوں کا تعین کیا جائے۔ اب وہ دور گیا کہ جس کے پاس طاقت ہوتی تھی وہی دنیا کا حکمران بن جاتا تھا،اس کی مثال ماضی قریب میں سلطنت اسلامیہ کی خلافت سے اخذ کی جا سکتی ہے۔لیکن اب چونکہ حالات و واقعات بدل چکے ہیں اس لئے اس طرح کی خلافت بعید از قیاس ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امت مسلمہ کے پاس بے تحاشہ وسائل ہیں،قدرتی وسائل سے اہل اسلام مالا مال ہیں۔لیکن بد قسمتی سے ہم ان کا کوئی بہتر استعمال نہیں کر پارہے،اس کی ایک بڑی وجہ ہمارا اندرونی خلفشار ہے اور دوسری بڑی وجہ سول اور فوجی حکومتوں کی خانہ جنگی ہے جس کی وجہ سے 1947ء کے بعد پاکستان میں کبھی فوج اور کبھی سول حکمران باریاں لگاتے رہے،اس کا بالواسطہ نقصان یہ ہوا کہ یہاں پر سیاسی اقدار پروان نہ چڑھ سکین اور آج 2024ء میں ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں جہاں سے بابائے قوم محمدعلی جناح نے ہندوئوں،سکھوں،انگریز اور حتیٰ کے بعض مسلمان زعماء سے بھی چو مکھی جنگ لڑ کر وطن مقدس پاکستان کا قیام کیا،لیکن بدقسمتی سے ان کی زندگی زیادہ وفا نہ کر سکی اور روز بروز ہم آگے جانے کے بجائے revrseگئیر میں چلتے رہے۔اورآج ہماری حالت بعض معاملات میں سینتالیس سے بھی بد تر ہے۔دوسری جانب ہمارا روایتی حریف بھارت کوئی ایک موقع بھی ایسا نہیں چھوڑتا جس میں وہ ہمارے ذخموں پر نمک پاشی نہ کرے۔ ماضی میں ہماری شخصی حکومتوں نے بلا سوچے سمجھے متعلق العنان بادشاہوں کی طرح فیصلے کئے،جس کے نتیجے میں ہمارے پڑوسی بھائی افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی،کشمیر ایشو پر پر اسرار خاموشی روا رکھی گئی،ڈرگ کلچر،کلاشنکوف کلچر اور کراچی کے مجاہدین کے علاوہ بھارت میں جنگی حکمت عملی کے بجائے مجاہدین یا پھر پتہ نہیں کون لوگ ان ممالک میں دہشت اور خوف کی علامت بن گئے۔ اس کے علاوہ بد عنوانی،ملاوٹ اور گھٹیا اشیاء کی خرید و فروخت کو وطن عزیز کو اڈے کے طور پر استعمال کیا گیا،لوگوں کے جتھے بنا بنا کر جہاد کو بدنام کرنے کی مذموم سازشیں کرتے ہوئے ساری دیا میں اسلام کو دہشت پسند ملک بنایا گیا۔ہماری اسی کمزوری کو بھانپتے ہوئے بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں 5اگست 2019ء کو وادی میں کرفیو نافذ کر دیا،جو کہ انسانیت تاریخ کا سب سے گھنائونا اور بد ترین کرفیو ہے۔ لیکن اس سب کے پیچھے سب سے بڑے محرک اورمجرم ہم خودہیں۔اگر ہماری کمزوریاں نہ ہوتی تو کوئی مائی کا لعل کرفیو تو دور کی بات کوئی ہمارے وطن کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ کر سکتا۔قارئین! جو ہو گیا سو ہو گیا۔ اب اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ مسمانوں کو اگر اپنی بقاء کی جنگ لڑنی ہے تو سب مل کر یورپی یونین کی طرز پرایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر 58ممالک کا اتحادبنا کر ایک ایسا سیٹ اپ طے کریں جسمیں مسلمانوں کے خلاف کسی جگہ بھی persecuationنہ ہو سکے۔
لگے بندھے اصولوں کی طرح مسلم ممالک سر اٹھا کر جئیں اور ظلم و ستم کے خلاف ساری دنیا میں اپنی آواز دنیا کے کونے کونے تک پہنچائیں۔اور اسلامی شعار کی پابندی کریں۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
0 28 4 minutes read