خلیفہ ء ثانی کانام عمر والد کا نام خطاب بن نفیل اور لقب فاروق تھا۔آپ کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنو عدی سے تھااور سفارت اور مقدمات کا عہدہ آپ کے خاندان کے سپرد تھا۔آپ کا شمار پڑھے لکھے لوگوں میں ہوتا تھااور عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔مزاج میں سختی کی وجہ سے قریش آپ سے مر عوب رہتے تھے۔قبول اسلام سے پہلے مسلمانوں کے درجہ اوّل کے دشمنوں میں سے تھے۔اُن کی قوت، قابلیت اور مضبوط شخصیت دیکھ کر حضور ۖ اکثر اُن کے لئے اسلام لانے کی دُعا فرماتے تھے۔ایک دن حضرت عمر کو اطلاع ملی کہ اُن کی بہن اور بہنوئی اسلام لے آئے ہیں۔یہ خبر سُن کر اُن پر ایک بجلی سی گری۔اُن کو سزا دینے کیلئے ننگی تلوار لیکر اُن کے گھر پہنچے۔اُس وقت تلاوت جاری تھی۔تلاوت اُن پر اثر دکھا چکی تھیں۔اپنی بہن سے دوبارہ تلاوت کرنے کو کہا اور اُسی حالت میں ننگی تلوار لیکر حضور اقدس ۖ کی خدمت میںحاضر ہوئے۔لوگوں کو خدشہ تھا کہ شاید کسی غلط ارادے سے جارہے ہیں۔مگر آپ ۖ کی دُعا مستجاب ہو چکی تھی۔خدمت اقدس میں پہنچ کر مشرف بہ اسلام ہوئے۔عمر فاروق کے قبول اسلام سے اسلام کو ایک مضبوط سہارا مل گیا۔کیونکہ آپ کا رُعب اور دبدبہ تو پہلے ہی بہت مشہور تھا۔حالات کا رُخ یکسر تبدیل ہو گیا۔جو مسلمان پہلے ڈر کے مارے حرم میں نماز ادا نہ کرتے تھے اُنہوں نے کھل کر حرم میں نماز ادا کرنی شروع کردی اور مشرکین مکہ کو روکنے کی ہمت نہ ہو سکی گو کہ مشرکین نے دوسرے مسلمانوں کی طرح حضرت عمر کو بھی مشکلات میں مبتلا کرنے کی کوشش کی مگر وہ اپنی ناپاک کوششوں میں کامیاب نہ ہو سکے۔اُن کے قبول اسلام سے اسلام کو بے پناہ طاقت حاصل ہوئی اور اسلام کا دائرہ وسیع ہونا شروع ہو گیا۔چونکہ آپ کا تعلق معززین سے تھا اسلئے اسلام معززین کے طبقے میں بھی مقبول ہونے لگا۔اسلام لانے کے بعد حضرت عمر نے پوری زندگی اسلامی مشن کو آگے بڑھانے کیلئے وقف کردی۔ہجرت کرکے گھر بار چھوڑا۔غزوات میں حضور ۖ کے جانثار بنے رہے۔حضورۖ سے بے پناہ عقیدت کی وجہ سے آپ ۖ کے وصال کے وقت ننگی تلوار لیکر مسجد نبوی ۖ کے باہر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے جو کہے گا کہ حضوراقدس ۖ فوت ہوگئے ہیں اسی تلوار سے اُس کی گردن اُڑادونگا۔حضرت ابو بکر صدیق کے ہاتھ پر بڑھ کر سب سے پہلے بیعت کی اور سقیفہ بنو ساعدہ کے قضیہ کو حل کیا۔۔خلیفۂ اوّل کے دور خلافت میں مجلس شوریٰ کے اہم رُکن کی حیثیت سے اسلام کی بہت خدمت کی ۔آپ کا اسلام لانا بجائے خود ایک فتح و نصرت تھی۔آپ کا دورِ خلافت اُمت کیلئے باعث رحمت ثابت ہوا۔حضرت ابو بکر صدیق نے تمام لوگوں کی خواہش کے مطابق حضرت عمر کو اپنا جانشین مقرر کیا لہٰذاآپ کی وفات کے بعد ١٣ ہجری میں مسلمانوں نے حضرت عمر کے ہاتھ پر بیعت کی اور آپ نے مسلمانوں کی رہنمائی اور بھلائی کیلئے اس بار گراں کو قبول کیا۔اور دورِ خلافت کی ابتدا ہوئی۔خلافت کا بار سنبھالتے ہی آپ نے اُن مہمات کی طرف خصوصی توجہ دی جو حضرت ابو بکر صدیق کی وفات کے بعد ادھوری رہ گئی تھیں۔جب عرب کے قبائل بیعت کیلئے آنے لگے تو موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُن کو جہاد کی دعوت دی ۔پُر جوش تقریریں کرکے اُن کو جہاد کیلئے تیار کیا۔ایک تقریر میں فرمایا”کہاں ہیں وہ مہاجرین جنہوں نے اپنے نبی ۖکے ساتھ ہجرت کی اور جن سے اللہ نے وعدہ فرمایا ہے۔اس سرزمین کی طرف قدم بڑھائیںجس کے وارث بنانے کا اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں وعدہ کیا ہے۔اور یہ ارشاد فرمایا ہے کہ بے شک دین اسلام کو کُل ادیان پر غالب کریگا۔پس اللہ تعالیٰ اپنے دین کو ظاہر کرنے والا اور اُسکی مدد کرنے والوں کو عزت و فتح دینے والا ہے۔تین دن کی مسلسل دعوت سے لوگ جہاد کیلئے تیار ہو گئے۔اور فتوحات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ایک مغربی مئورخ کے قول کے مطابق اگر حضرت عمر کچھ عرصہ اور زندہ رہتے تو اسلامی مملکت کی حدیں پوری دُنیا تک پھیل جاتیں۔ایران اور شام کی فتوحات اُن کا عظیم کارنامہ ہے۔آپ کے سنہرے دور میں اسلامی مملکت کی حدیں وسیع سے وسیع تر ہوتی گئیں۔فتوحات کا آغاز تو صدیقی دور میں ہو چکا تھا۔البتہ مکمل اور بلند پایہ نظام حکومت عہد فاروقی میں قائم ہوااور ایک خالص اسلامی حکومت وجود میں آئی جس کی بنیاد حقیقی معنوں میں جمہوریت پر تھی۔اس نظام حکومت میں مرکزی حیثیت خلیفہ کو ہی حاصل تھی جو قرآن و سُنت کی روشنی میں اختیارات استعمال کرتا تھا۔البتہ مشورہ کیلئے مجلس شوریٰ قائم کی گئی تھی جسمیں انصار اور مہاجرین شامل تھے۔اکثر اوقات عام مسلمانوں کو بھی مشورہ میں شامل کر لیا جاتا تھا۔حضرت عثمان ،حضرت علی ،عبدالرحمن بن عوف ،معاذ بن جبل ،ابی بن کعب اور زید بن ثابت بھی مجلس شوریٰ میں شامل تھے۔اجلاس مسجد نبوی ۖمیں ہوا کرتے تھے۔پورا ملک صوبوں اور ضلعوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔مقبوضہ ممالک کو آٹھ صوبوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔مکہ ، مدینہ،شام، جزیرہ،بصرہ،کوفہ،مصر اور فلسطین ،پہلے سے قائم کئے ہوئے یہ تین صوبے بھی تھے۔فارس،خوزستان اور آذر بائیجان جن میں کئی ضلعے شامل تھے۔ہر صوبے کا عامل مقرر کیا گیا تھا جس کا تقرر مجلس شوریٰ کے مشورے سے خود خلیفہ کرتے تھے۔اور اُن کو یہ شرائط پوری کرنا پڑتی تھی۔تُرکی گھوڑے پر سوار نہ ہونا ،باریک کپڑے نہ پہننا،چھنا ہوا آٹا استعمال نہ کرنا،دروازہ پر دربان نہ رکھنا،حاجت مندوں کیلئے دروازہ ہمیشہ کُھلا رکھنا۔اسطرح سادہ زندگی بسر کرنے اور رشوت وغیرہ سے بچنے کا بہتریں ذریعہ اختیار کیا گیا تھا۔عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کر دیا گیااور یہ اصول وضع کئے گئے۔ثبوت مہیا کرنا مدعی کی ذمہ داری ہوگی۔قاضی دونوں فریقین کے ساتھ یکساں بر تائوکرے۔مدعا علیہ اگر ثبوت پیش نہ کرے گاتو قسم اُٹھائے گا ۔فریقین کو صلح کی اجازت تھی ماسوائے خلاف قانون اُمور کے۔فیصلہ پر نظر ثانی کا اختیار قاضی کو ہوگا۔مقدمہ،مقررہ۔تاریخ پر ہوگا۔ہر مسلمان کی شہادت قابل قبول ہوگی۔قاضیوں کو ہدایات جاری کی گئیں کہ قرآن مجیدکی روشنی میں فیصلے کئے جائیں۔اِسکے بعد حدیث کی روشنی میں اور تیسری صورت میں اس امر کا حل اجماع میں تلاش کیا جائیگا ۔جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ عدل و انصاف کا بول بالا ہوگیا ۔عدالتوں کی با قاعدہ عمارتیں نہ تھیںفیصلے مسجد نبوی ۖمیں ہوتے تھے امن و امان قائم کرنے اور جرائم کی بیخ کنی کیلئے پولیس کا محکمہ قائم کیا گیا اور قیدیوں کیلئے جیل خانے تیار کرائے گئے ۔فتوحات کا سلسلہ بڑھ جانے سے آمدنی بھی بڑھتی گئی چنانچہ بیت المال کی ضرورت پیش آئی اور ١٥ہجری میں صحابہ کرام کے مشورے سے بیت المال کا قیام عمل میں لایا گیا۔آپ سے قبل فوج کا کوئی باقاعدہ محکمہ نہ تھا بلکہ ضرورت پڑنے پر جہاد کیلئے لوگوں کو بلایا جاتاتھا۔آپ نے فوج کا باقاعدہ محکمہ قائم کرکے لوگوں کے نام رجسٹر کئے او ر ایسے لوگوں کے باقاعدہ وظیفے مقرر کئے۔فوج کو دو حصوں میںتقسیم کردیا گیا یعنی باقاعدہ فوج اور رضاکار فوج ۔اُن کی باقاعدہ تنخواہیں مقرر کی گئیں ۔ چھائونیاں تعمیر کرائی گئیں ،گھوڑوں کا انتظام کیا گیا ، خوردنوش کا انتظام کیا گیا ہر چھائونی میں خزانہ افسر ،اکائونٹ افسر اور ڈاکٹر وغیرہ ساتھ ہوتے تھے۔فوج کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا گیا جن کے ذمہ مختلف فرائض تھے۔ شتر سوار ،گھوڑ سوار ، پیادہ اور تیر انداز وغیرہ۔ خراج کے نظام کی طرف خصوصی توجہ دی گئی ۔مردم شماری کرائی گئی ، زمین کی پیمائش کرائی گئی مفتوحہ ممالک فوج کی بجائے حکومت کے ملک قرار پائے ۔
شام ،عراق اور مصر سے کل تقریباً ١٢ کروڑ ،ساٹھ لاکھ اور بیس ہزار درہم خراج وصول ہوتاتھا۔ مسلمان زمیندار وں سے پیداوار کا عشر لیا جاتاتھا۔غیر ملکی تجارت پردس فیصد محصول وصو ل ہونا شروع ہوا۔مسلمانوں سے زکوٰة باقاعدگی سے وصول کی جاتی تھی او ر پہلی دفعہ تجارتی گھوڑوں پر بھی زکوٰة لگانے سے زکوٰة کی حد میں بے پناہ اضافہ ہوا۔زمینداری اور ملکیت کے قدیم جابرانہ قانون کو ختم کرکے جاگیریں ملک کے اصل باشندوں کے حوالے کردیں اور رعایا کو خوشحالی نصیب ہوئی ۔رفاہِ عامہ یعنی عمارتیں ،نہریں ،سڑکیں ،پُل ، شفاخانے ،زراعت کی ترقی اور نئے شہروں کو آباد کرنے کے ساتھ ساتھ مسافر خانے تعمیر کرائے۔دینی تعلیم کیلئے ملک بھر میں مدرسے کھولے گئے ۔ قرآن کی تعلیم ضروری قراردی گئی۔ مدرس مقرر ہوئے جنکی باقاعدہ تنخواہیں مقرر کی گئیں اُن کے ذمہ قرآن ،حدیث اور فقہ کی تعلیم دینا تھا۔اشاعتِ اسلام میں بے حد ترقی ہوئی مفتوحہ علاقوں کے غیر مسلم اخلاق اور تہذیب سے متاثر ہوکر حلقۂ بگوش اسلام ہوئے ۔ آپ نے مجلس شوریٰ سے سنہ مقرر کرنے کے بارے میں خواہش ظاہر کی ،مختلف رائے پیش کی گئیں۔آخرآپ نے ہجرت کے واقعہ کی اہمیت کا احساس دلاکر اُسی سے سنہ کی ابتدا کی جسے سب نے پسند کیا اوراِ س طرح آپ کے عہد ِ خلافت میں سنہ ہجری مقرر ہوا۔ محرم کو اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ قرار دیاگیا۔سنہ ہجری کا آغاز فاروقی دور کا بہت بڑاکارنامہ ہے ۔جان ومال کے سلسلے میںمسلمانوں اور ذمیوں کو مساویانہ حقوق دئیے گئے ۔ذمیوں کے جان ومال کو مسلمانوںکے جان ومال کے برابر قرار دیاگیا۔ذمی کاشتکاروں کے حقوق بحال کردئیے۔مسلمانوں کیلئے اُن کی زمینوں کا خرید نا منع کردیا اس مساویانہ رویہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ذمی اسلامی حکومت کے وفادار بن گئے اور اسلامی فتوحات میں بھی اپنی خدمات پیش کردیں۔
فیروز نامی ایک مجوسی غلام جسکی کنیت ابولولو تھی مغیرہ بن شعبہ کا غلا م تھا،اُس نے اپنے مالک کے خلاف آپ کی خد مت میں شکایت کی جو حقیقت پر مبنی نہ تھی ۔ابولولو فیصلہ اپنے حق میں نہ پاکر ناراض ہوکر چلاگیا اور انتقامی کاروائی پر اُتر آیا۔دوسرے دِن جب آپ فجر کی نماز کیلئے صفیں درست فرمارکر امامت کیلئے مصلیٰ پر کھڑے ہوئے تو اُ س نے گھات لگاکر دو ھاری تلوار سے یکے بعد دیگرے چھ وار کرکے آپ کو شدید زخمی کردیا۔آپ گر پڑے عبدالرحمن بن عوف نے امامت کرائی۔ فیروز کو گرفتار کرلیاگیا جس نے بعد میں خوکشی کرلی ۔ زخم بہت گہرے تھے۔ ایسی حالت میں بھی جانشینی کا مسٔلہ آپ کے نزدیک بہت اہم تھا۔ قدرے ہوش آئی تو عبدالرحمن بن عوف ، حضرت علی ، حضرت عثمان ،حضرت زید اور سعد بن ابی وقاص کو بلا کر وصیت فرمائی کہ تین روز تک حضرت طلحہ کا انتظار کیا جائے اگرنہ آسکیں توخود میں سے متفقہ طورپر کسی کو خلیفہ مقرر کیا جائے ۔چھ اشخاص کی کمیٹی بناکر فرمایا اگر لوگ خلیفہ کے انتخاب میں اختلاف کریں تو کثرتِ رائے پر عمل کرنا۔اگر برابر ہیں تو عبدالرحمن بن عوف کی رائے تسلیم کرنا۔آپ نے انصار اور مہاجرین کے حقوق کا خیال رکھنے کی وصیت کی۔ اپنے بیٹے کو اپنے قرض کی ادائیگی کا حکم دے کرحضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت میں بھیجا اور حضور اقدسۖکے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت مانگی جو مِل گئی ۔اُمت کے اُمور سے فارغ ہوئے توتین دِن تک زخمی حالت میں رہے اور یکم محرم الحرام ٢٤ہجری کو اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔وصیت کے مطابق حضور پاک ۖکے پہلومیں دفن ہوئے آپ کی خلافت کی مدت دس سال اور چھ ماہ تھی جس میں ان گنت کارہائے نمایا ں انجام دئیے۔حضرت عمر فاروق اخلاق کے اعلیٰ ترین نمونہ تھے جن کی سیرت کا نمایاں پہلو سُنت ِ رسول اللہ ۖ کی پیروی تھی۔سادگی اُن کا شعارتھادوسروں کوبھی سادگی کی تلقین کرتے تھے ۔آپ فطر تاً سخت مزاج تھے مگر خلافت کی ذمہ داریوں کے بعد حدنرمی آگئی تھی ۔اذان کے متعلق آپ کی تجویز مانی گئی ۔آپ کی تجویز پر حضرت ابوبکر صدیق نے قرآن مجید کی تدوین فرمائی تھی ۔علم و فضل میں اونچا مقام رکھتے تھے۔ رعایا کی خبر گیری رکھتے ،بیت المال کے دروازے مسلمانوں اور ذمیوں پر برابر کھلے رکھے تھے۔ آپ ایک عجیب وغریب جامع کملات شخصیت تھے۔
0 21 8 minutes read