
راولپنڈی سے 124کلومیٹر دور میر پور میں دریائے جہلم کے ”کنارے پر جنت کا ٹکڑا”آکاب اسکول آف دی بلائنڈ قائم ہے کم وبیش ربع صدی بعد گذشتہ سے پیوستہ ہفتہ مجھے میر پور جانے کا اتفاق ہوا وفاقی دار الحکومت اسلام آباد کے صحافیوں کا قافلہ اس وقت میر پور میں داخل ہوا جب سورج اپنی تمام تر آگ برسا کر منگلہ جھیل کے اس پار غروب ہو رہا تھا شام کے وقت ہمارا قافلہ میر پور میں دریائے جہلم کے کنارے کے ساتھ بنائے گئے بائی پاس کے ذریعے آکاب ا سکول آف دی بلائنڈ پہنچا تو ہم شام کو میلوں پھیلے ہوئے دریائے جہلم کی ہلکی جھلک ہی دیکھ سکے اسی طرح نصف شب کو شہر کے اندر سے واپسی ہوئی تو پورا شہر سو رہا تھا پاکستان پریس کلب یو کے صدر ارشد رچیال اور برمنگھم کے ممتاز صحافی ساجد یوسف کی دعوت پر ” آکاب سکول فار دی بلائنڈ” کا مطالعاتی دورہ کرنے کا موقع ملا۔ کسی سماجی تقریب میں افضل بٹ اور میرا اکھٹے ہونا کچھ لوگوں کے لئے باعث حیرت تھا کیونکہ ہم دنوں کا تعلق پی ایف یو جے کے متحارب گروپوں سے ہے لیکن ہم دونوں نے ایک نیک کام کے لئے اکھٹے سفر کیا ۔ آکاب اسکول آف بلائنڈ کے پرنسپل و روح رواں پروفیسر محمد الیاس ایوب جو خود بھی بینائی سے محروم ہیں نے اپنی پوری زندگی نابینا افراد کی تعلیم و تربیت کے لئے مختص کر رکھی ہے نے سکول پہنچنے پر مہمانوں کا پرجوش استقبال کیا، سکول کے بچوں نے مہمانوں کو گلدستے پیش کئے، مہمانوں کو سکول کے مختلف شعبوں اور کلاس رومز لے جایا گیا نابینا طلبہ طالبات کے کسی سکول کا میرا پہلا دورہ تھا ہمیں نابینا افراد کے لیے ڈیزائن کردہ بریل ایجوکیشن سسٹم کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی گئی پروفیسر محمد ایوب الیاس جواسکول کے روح رواں ہیں نے ایک کرسی اور ایک ٹیبل سے اس سکول کی بنیاد رکھی تھی آج آکاب اسکول فار بلائنڈ آزاد کشمیر میں بصارت سے محروم بچوں کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ بن گیا ہے جو نابینا بچوں کو مفت زیور تعلیم سے آراستہ کر کے انہیں معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کے عظیم مشن کو مکمل کررہا ہے۔ آکاب اسکول فار دی بلائنڈ کے پرنسپل اور ادارے کی روح رواں پروفیسر محمد الیاس ایوب خود پیدائشی طور پر بینائی سے محروم ہیں لیکن انہوں نے اپنی اس محرومی کو کبھی اپنی کمزوری نہیں بننے دیا آپ یقین جانیں پچھلے ان سے حلقہ ارباب ذوق اسلم آباد کی محفل میں ملاقات ہوئی ان کی خود اعتمادی اور خوبصورت گفتگو نے اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ بینائی سے محروم ہیں اور وہ ایک بہت بڑے ادارے کو چلا رہے ہیں وہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں انسان اپنے تمام اعضاء اور مکمل حواس کے ساتھ بھی جب میدان عمل میں نکلتا ہے تو قدم قدم پر مشکلات اور پریشانیاں اس کی منتظر ہوتی ہیں۔ اس معاشرے میں ایک نابینا شخص نے عزم، حوصلے، ہمت اور کمٹ منٹ کی ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ان کی ذاتی زندگی پر نگاہ ڈالیں تو کامیابیوں اور کامرانیوں سے بھری پڑی ہے۔ پاکستان کی بہترین یونیورسٹی پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی اور سپیشل ایجوکیشن اور آزاد کشمیر یونیورسٹی سے اسلامیات میں ماسٹرز کرنے کے بعد اس وقت آزاد کشمیر کی عظیم اور قدیم درسگاہ گورنمنٹ کالج میرپور میں انگریزی ادب کے استاد ہیں۔ پروفیسر محمد الیاس ایوب کی حو صلے اور ہمت کی داستان ان کی ذاتی کامیابیوں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ اپنی ذاتی زندگی کو کامیابیوں سے ہمکنار کرنے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اب آزاد کشمیر کے نابینا بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کر کے انہیں معاشرے کا کار آمد حصہ بنائیں گے۔ علم، شناخت اور روزگار کو اپنی جدوجہد کا محور و مرکز بنا کر انہوں نے ایک بچے اور ایک استاد سے کرائے کی عمارت میں ” آکاب اسکول فار دی بلائنڈ ” کی بنیاد رکھی۔ الحمداللہ آج خالق آباد کے مقام پر آکاب کمپلیکس میں تقریبا” ڈیڑھ سو سے زائد بچے زیور تعلیم سے آراستہ و پیراستہ ہو رہے ہیں۔ آکاب اسکول فار دی بلائنڈ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس ادارے کے ایک نابینا بچے نے پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں پہلی بارانٹرمیڈیٹ میں بورڈ ٹاپ کیا اور بعد ازاں سکالر شپ پر امریکہ کی ایک معروف یونیورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کی۔ پروفیسر محمد الیاس ایوب کی عظیم خدمات کے اعتراف میں ان کو حکومت پاکستان کی جانب سے”تمغہ امتیاز” سے نوازا گیا پروفیسر محمد الیاس ایوب نے جچے تلے الفاظ میں تعلیم یافتہ نابیناافراد کا کیس پیش کیا اورحکومت سے تعلیم یافتہ نابینا افراد کو باعزت روزگار فراہم کرنے کی ضمانت فراہم کرنے کی استدعا کی پروفیسر محمد الیاس ایوب نے کہا کہ انھوں نے بصارت سے محروم بچوں کو بھیک مانگنے کے بجائے ان کی تعلیم و تربیت کے لیے آکاب سکول قائم کیا جس سے آج بصارت سے محروم کئی بچے پی ایچ ڈی، ایم فل اور ماسٹر ڈگری حاصل کر چکے ہیں لیکن مقام افسوس ہے کہ ملازمتوں میں کوٹہ ہونے کے باوجود بھی اس پر عمل درآمد نہیں کے جا رہا جس کی وجہ سے یہ سپیشل بچے اپنے حق سے محروم ہو رہے ہیں اور دوبارہ اپنے ہاتھوں میں کشکول لینے پر مجبور نہ ہو جائیں۔افضل بٹ اور میں نے اپنی تقاریر میں بصارت سے محروم بچوں کے لئے پروفیسر الیاس ایوب کی خدمات کو سراہا اور کہا کہ آکاب نہ صرف آزاد کشمیر و پاکستان بلکہ دنیا بھر میں انسانیت کی خدمت کا مثالی ادارہ بن گیا ہے جس نے دنیا بھر میں کشمیریوں اور پاکستانیوں کی شناخت کو پروان ایوانوں تک آواز پہنچائیجائے گی
پاکستان پریس کلب لٹریری اینڈ کلچرل فورم اور آکاب اسکول فار دی بلائنڈ کے زیر اہتمام” ایک شام۔ تیمور حسن تیمور کے نام” منائی گئی پروفیسر تیمور حسن تیمورجو ایک نابینا استاد ہیں خاص طور پر لاہور سے میرپور آئے نے کم و بیش پون گھنٹہ اپنے کلام کا جادو جگایا اور شرکاء محفل سے خوب داد حاصل کیا ان کے کلام کے چند اشعار درج ذیل ہیں
موتی نہیں ہوں ریت کا ذرہ تو میں بھی ہوں
دریا ترے وجود کا حصہ تو میں بھی ہوں
اے قہقہے بکھیرنے والے تو خوش بھی ہے
ہنسنے کی بات چھوڑ کہ ہنستا تو میں بھی ہوں
ان کے کلام کچھ حصہ شامل ہے
مجھ کو کہانیاں نہ سنا شہر کو بچا
باتوں سے میرا دل نہ لبھا شہر کو بچا
میرے تحفظات حفاظت سے ہیں جڑے
میرے تحفظات مٹا شہر کو بچا
تقریب کی نظامت کے فرائض ساجد یوسف نے انجام دئیے جب کہ چیئر مین ضلع کونسل راجہ نوید اختر نے تقریب کو رونق بخشی۔ بصارت سے محروم بچوں کی تعلیم و تربیت کا یہ مثالی ادارہ بن چکا ہے جہاں نصابی اور غیر نصابی تعلیم کی تمام سہولیات موجود ہیں۔ یہ ادارہ اب بین الاقوامی شہرت اختیار کر چکا ہے۔قبل ازیں پاکستان پریس کلب یو کے کے صدر ارشد رچیال نے آکاب سکول کے متعلق ڈاکومنٹری پیش کی جب کہ سکول کے بچوں نے حمدو نعت ملی نغمے او ر کلام اقبال پیش کرکے خوب داد حاصل کی۔