کالم

قومی ترانے کی تخلیق

قومی ترانہ ، نیشنل این تھم ، سٹیٹ این تھم ، نیشنل ہائم یا نیشنل سونگ ایک ایسی نظم یا گیت کو کہا جاتا ہے۔ جس میں کسی قوم کی سرزمین ، اس کی تاریخ ، روایات ، قومی جدوجہد اور اس کی تہذیب و ثقافت کی فخریہ تعریف و تحسین کی گئی ہوتی ہے۔ اِ سے ایک خاص دھن پر تمام قومی دِنوں ، قومی اہمیت کی تقریبات اور ریاستی پروگراموں میںگایا یا بجایا جاتا ہے۔ اس کے گانے اور سننے سے متعلقہ قوم کے افراد کے دلوں میں جوش و جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ اِسے سنتے ہی سب احتراماً کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ ہر قوم اپنے قومی پرچم اور قومی ترانے کا بہت احترام کرتی ہے۔ یہی نہیں ہر مہذب قوم اورہر تعلیم یافتہ شخص اپنے قومی پرچم اور قومی ترانے کے ساتھ ساتھ دوسری قوموں کے قومی پرچموں اور قومی ترانوں کا بھی احترام کرتا ہے۔
قومی ترانے کی روایت تو بے حد قدیم ہے مگر قومی ترانہ انیسویں صدی میں یورپ میں مقبول ہونا شروع ہوا۔ قدیم ترین قومی ترانہ نیدر لینڈ میں ڈچ انقلاب کی تحریک میں 1568تا 1572کے دوران لکھا گیا۔ اِسے Wilhelmusکہا جاتا ہے۔تاہم کئی سو سال بعد اِسے 1932میں نیدر لینڈ کا سرکاری قومی ترانہ قرار دیا گیا ہے۔ جاپان کا قومی ترانہ Kimigayo کچھ اشعار ایسے رکھتا ہے جو کہ آٹھویں صدی کے دوران Heian دور میںلکھے گئے تھے۔ یوکے کا قومی ترانہ پہلی دفعہ 1745ء میں بجایا گیا۔ اس کا عنوان تھا”God Save the King”۔ سپین کا قومی ترانہ (March a Real)جس کا مطلب ہے Royal March 1761میں اپنایا گیا۔ جبکہ فرانس کا قومی ترانہ 1792ء میں تخلیق ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد نوزائیدہ مملکت کو ایک قومی ترانے کی ضرورت تھی۔ لہذا قیام ِپاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد حکومت نے ایک قومی ترانہ کمیٹی قائم کر دی جس کے ذمہ یہ کام سونپا گیا کہ وہ پاکستان کا قومی ترانہ تخلیق کروائے۔ اِس مقصد کے لیے پورے ملک کے موسیقاروں اور شاعروں کو تحریک کی گئی کہ وہ پاکستان کے قومی ترانہ کی دھن ترتیب دیں اور اِ س کے بول لکھیں۔ 21اگست1949ء کو اس کمیٹی نے قومی ترانہ کی ایک دُھن منظور کر لی ۔ یہ دھن ممتاز موسیقار احمد علی غلام علی چھاگلہ نے ترتیب دی۔ سب سے پہلے اِسے ریڈیو پاکستان میں بہرام سہراب رستم جی نے بجا کر ریکارڈ کرایا۔ اس دُھن کا دورانیہ ایک منٹ بیس سیکنڈ ہے جبکہ اِسے بجانے میں اکیس(21) آلاتِ موسیقی اور38ساز استعمال ہوئے۔
پاکستان کی قومی ترانہ کمیٹی کی منظور کردہ اِس دُھن کو سرکاری طور پر پہلی مرتبہ یکم مارچ1949ء کو اُ س وقت بجایا گیاجب شہنشاہِ ایران رضاشاہ پہلوی پاکستان کے سرکاری دورے پر آئے۔ ایران پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کیاتھا۔ رضا شاہ پہلوی وہ پہلے غیر ملکی حکمران تھے جنہوں نے پاکستان کا دورہ کیا۔ پاکستان میں ان کا والہانہ استقبال کیا گیااور ان کی استقبالیہ تقریب میں پہلی دفعہ قومی ترانے کی دھن بجائی گئی۔ یہ عظیم فرض پاکستان نیوی کے ایک بینڈ نے سر انجام دیا جس کی قیادت پیٹی آفیسرعبدالغفور کر رہے تھے۔ 5جنوری1954ء کو قومی ترانے کی اِس دُھن کو وفاقی کابینہ کی منظوری حاصل ہو گئی اور سرکاری طورپر اسے پاکستان کا قومی ترانہ قرار دے دیا گیا مگر ابھی یہ محض ساز ہی تھا۔ اِسے الفاظ مہیا کرنے کا مرحلہ ابھی باقی تھا۔ اِ س مقصد کے لیے ملک کے طول و عرض میں معروف شعرا کرام کو قومی ترانے کی دھن کے گراموفون ریکارڈ بھجوا کراس کے مطابق قومی ترانہ لکھنے کی تحریک کی گئی۔ریڈیو پاکستان قومی ترانے کی دھن ہر رات ایک مخصوص وقت پر بجایا کرتا تھا۔ ملک کے طول و عرض سے قومی ترانہ کمیٹی کو 723 + قومی ترانے موصول ہوئے۔ ان میں کمیٹی کو جو تین ترانے بہت پسند آئے وہ جناب حفیظ جالندھری ، حکیم احمد شجاع اور زیڈ اے بخاری کے لکھے ہوئے تھے۔ خوب غور و خوض اور بحث و مباحثے کے بعد جناب حفیظ جالندھری کے لکھے ہوئے قومی ترانے کو وفاقی کابینہ نے 4 اگست 1954ء کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کر لیا ۔ یہ قومی ترانہ 13اگست 1954ء کو پہلی بار ریڈیو پاکستان پر نشر ہوا۔ پاکستان کا قومی ترانہ جِسے معروف شاعر ابوالاثر حفیظ جالندھری ( 14جنوری 1900تادسمبر 1982 )نے لکھا ہے ایک مخمس طرز کی نظم ہے جس کے تین بند ہیںاور ہر بند میں پانچ مصرعے ہیں۔ اس کی زبان میں زیادہ تر الفاظ فارسی کے ہیں۔ پاکستان کا قومی ترانہ اور اس کے مصرعوں کا مفہوم کچھ یوں ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button