کالم

آخری وقت بہت قیمتی ہے

انسان رب العالمین کی طرف سے ایک مخصوص وقت کے لئے دنیا میں پیدا ہو کر آتا ہے اور اپنا ٹائم پورا ہونے پر مر جاتا ہے
اس دنیا سے انسان مال و دولت تو اپنے ساتھ نہیں لیجا سکتا مگر اعمال کی صورت میں وہ جمع پونجی اس کے ساتھ ضرور جاتی ہے جو اس کو اگلے مستقل جہان میں جنت و جہنم کا مالک بناتی ہے،اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو پرکھنے کے لئے اس دنیا میں بیجھا اور اسے مختلف چیزوں سے آزماتا ہے تاکہ پتہ چل سکے کون رب کا بندہ ہے اور کون شیطان کا پیروکار ہے،اللہ رب العزت نے مقررہ وقت تک شیطان ملعون کو ایک خاص طاقت دے رکھی ہے جس سے انسانوں کی پرکھ ہوتی ہے بعض اوقات ہم انسان کے اعمال دیکھ کر اس کے جنتی اور جہنمی ہونے کا خودساختہ فیصلہ قرار دے لیتے ہیں جو کہ درست بات نہیںہمیں ہر صورت شیطان سے پناہ مانگنی چائیے اور اپنی نیکیوں پر ناز و فخر نہیں کرنا چائیے بلکہ نیکی کرکے یہ محسوس کرنا چائیے کہ ہمارے پاس تو کوئی نیکی ہے ہی نہیں اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرتے جائیں مگر شرط نیت کا صاف ہونا ہے دکھلاوا نہیں وگرنہ وہ ساری نیکیاں بیکار ہیں اور کسی کام نہیں آئیں گیں ہمیں ہر وقت شیطان سے پناہ کی خاطر نماز روزہ و ذکر الہی میں مشغول رہنا چائیے تاکہ ہم حالت ایمان میں شیطان سے بچ کر اس دار فانی سے کوچ کرکے آخری مستقل گھر میں اچھا ٹھکانا یعنی جنت میں بسیرہ کر سکیںانسان کا آخری وقت بہت قیمتی ہوتا ہے کہ جس پر انسان کا خاتمہ ہوتا ہے اسی وقت خاتمہ پر اس کا فیصلہ کیا جاتا ہے اِن العبد لیعمل عمل ھلِ النارِ و انہ مِن ھلِ الجنِ ویعمل عمل ھلِ الجنِ واِنہ مِن ھلِ النارِ۔ العمال بِالخواتِیمِ (بخاری عن سھل بن سعد رضی اللہ عنہ)، وفی روای للامام احمد فی المسند: واِنما العمال بِالخواتِیمِ۔،امام بخاری کی روایت کردہ درج بالا حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بندہ کا عمل جہنمیوں کے عمل کے مطابق ہوتا ہے لیکن وہ جنتی ہوتا ہے اور کسی بندے کا عمل جنتیوں کے عمل کے مطابق ہوتا ہے لیکن وہ جہنمی ہوتا ہے اعمال کی حقیقت تو خاتمہ (کے وقت) کے اعمال ہیں مسند احمد میں بھی یہ روایت آئی ہے اور اس کے آخری الفاظ ہیں واِنما العمال بِالخواتِیمِیعنی اعمال کا دارومدار خاتمہ کے اوپر ہیایک مشہور پرانا واقعہ پیش خدمت ہے،بہت پرانے زمانے کی بات ہے ایک عبادت گزار کسی سلطنت میں رہتا تھا جو ہر وقت ریاضت وعبادت میں مصروف رہتا تھا اور اپنی نیکیوں پر فخر بھی کرتا تھا اس نے سوچا اس جگہ ان لوگوں میں رہتے ہوئے زیادہ عبادت نہیں کی جا سکتی لہذہ اس نے اپنا ضرورت کا سامان پکڑا اور جنگل میں بسیرا کر لیا بہت عرصہ اس نے ریاضت و عبادت کی اور بلآخر شیطان نے اسے بہکانے کی خاطر ایک چال چلی تاکہ اسے گمراہ کر سکے شیطان نے سلطنت کی شہزادی کو جادو سے سخت بیمار کر دیا جو کہ کسی بھی علاج سے صحت مند نا ہو رہی تھی الٹا مذید بیمار ہوتی چلی جا رہی تھی شہزادی کے بھائی اور دیگر رشتہ دار سخت پریشان تھے اور اس کا بہت علاج کروا رہے تھے مگر سب بے سود ایک دن وہ شہزادی کو لے کر کہیں جا رہے تھے کہ شیطان انسانی شکل میں نمودار ہوا اور ان سے حال احوال پوچھا اور انہیں بتایا کہ اس شہزادی کا علاج فلاں جنگل میں ایک عبادت گزار نیک بندے کے پاس ہے جو دم کرے گا تو یہ شہزادی ٹھیک ہو جائے مگر شرط ہے کہ آپکو شہزادی کو اس کے ہاں چھوڑ کر آنا پڑے گا یہاں تک کہ وہ مکمل صحت مند نہیں ہو جاتی مگر دوسری طرف وہ عبادت گزار بھی بہت سخت مزاج ہے کسی کی مانتا ہی نہیں اگر تم اس کو قائل کر لو گے تو شہزادی ٹھیک ہو جائے گی شہزادوں نے اس سے کہا فکر نا کرو ہم اس سلطنت کے مالک ہیں اور اس شحض کو قائل کر لیں گے شہزادے مطلوبہ پتہ لے کر اس شحض کے پاس پہنچے اور مدعا بیان کیا کہ ہماری بہن کو آپ کے دم سے آرام ائے گا اور آپ اسے صحت مند ہونے تک اپنے پاس رکھیں گیوہ شحض دم کرنے پر تو راضی ہوا مگر شہزادی کو اپنے پاس رکھنے پر راضی نا ہواکافی منت سماجت کے بعد اس نے شہزادی کو اپنے پاس رکھنے کی حامی بھر لی اس شحض نے شہزادی کو دم کیا وہ کچھ بہتر ہوئی تو شیطان نے اس نیک عبادت گزار شحض پر غلبہ کیا اور اسے شہزادی ساتھ بدفعلی پر مجبور کیااس نے شہزادی کیساتھ بدفعلی کی تو شیطان اس کے پاس انسانی شکل میں نمودار ہوا اور اسے کہنے لگا واہ جی اب پتہ چل کہ تم تو اس جنگل میں اس لئے پناہ لئے ہوئے تھے تاکہ لوگوں سے چھپ کر حرام کاریاں کر سکو اور اپنی نیک نامی بھی بنائے رکھو سو آج تمہارا پتہ چل گیاوہ شحص ڈر گیا اور اس کی منت سماجت کرنے لگا کہ خدا کے واسطے کسی کو کچھ مت بتانا ورنہ میں بدنام ہو جانگااس پر شیطان نے اسے مشورہ دیا کہ میری مان اور اب اس شہزادی کو قتل کرکے لاش دفنا دے اور جب اس کے ورثا آئیں گے تو کہنا وہ تو بیمار تھی چل بسی اس نے شیطان کی بات مانی اور لڑکی کو ذبح کیا اور قریبی جگہ پر دفنا دیا،شیطان نے اس دوران شہزادی کا ڈوپٹہ مٹی سے باہر نکال دیا اور اب وہ شہزادی کے بھائیوں پاس پہنچا اور بتایا کہ اب شہزادی کو واپس لے آئیں شہزادے وہاں پہنچے تو دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ وہ تو بیمار زیادہ ہو گئی اور جانبر نا ہو سکی جس کے باعث میں نے اسے وہاں دفنا دیا ہے،شہزادے کہنے لگے ٹھیک ہے اگر فوت ہو گئی ہے تو ہمیں اس کی قبر پاس لے چلو ہم اس کی تدفین شاہی رسم و رواج سے کریں گے،وہ اسے قبر تک لیجانے میں ہچکچانے لگا تاہم اصرار پر لے گیا،قبر کشائی ہوئی تو شہزادی کی شاہ رگ کٹی ہوئی تھی جس پر اسے گرفتار کر لیا گیا اور سولی پر چڑھانے لگے جب عین آخری وقت سولی پر چڑھانے لگے تو وہ شیطان انسانی شکل میں پھر نمودار ہوا اور کہنے لگا جان بچ سکتی ہے اگر کلمہ سے انکار کر دو تویہ شہزادے تمہیں چھوڑ دیں گے،ساری زندگی ریاضت و عبادت کرنے والے نے کہا کہ میں کلمے سے انکار کرتا ہوں اور شہزادوں کے دین پر چلنے کا اعلان کرتا ہوں میری جان بخش دو مگر شہزادے نا مانے اور اسے تختہ دار پر لٹکا دیا گیاشیطان کے جال میں آکر زنا بھی کر بیٹھا قتل بھی کر دیا اور آخری وقت میں ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھاقارئین اس تاریخی قصے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کبھی بھی اپنی نیکیوں پر فخر و تکبر نہیں کرنا چائیے اور شیطان مردود سے ہر وقت پناہ مانگنی چاہیے اور دعا مانگنی چائیے کہ اللہ تعالی ہمارا خاتمہ ایمان پر کرے آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button