کالم

ماہ قرباں اور اٹک میں وکلا کی شہادت

انسان انسان کو جان سے مار رہا ہے ،کوئی گولیوں سے اور کوئی ملاوٹ سے … بڑی عید سے دو روز قبل اٹک بار کے ممبر پنجاب بار کونسل ملک اسرار احمد اور ایڈووکیٹ ذوالفقار مرزا کو ایلیٹ فورس کے اے ایس آئی انتظار شاہ نے کچہری چیمبر میں گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ یہ سانحہ صبح دس بجے پیش آیا, مارنے کی وجہ جو بھی تھی اس پر بحث نہیں۔ ظالم نے ایک نہیں دو جانیں لے لیں۔مارے جانے والے مسلمان مارنے والامسلمان تو ہے مگر انسان نہیں تھا۔اسی طرح حج سے ایک ہی روز قبل ( 15جون 2024 کو) ایک وڈیرے نے اوٹنی کی ٹانگ اس لیے کاٹ دی کہ اس نے فصل کھا لی تھی۔ ان حالات میں جب ہم منڈی مویشاں پہنچے تو یوں لگا جیسے ہر جانور سوال کر رہا ہو کہ تم انسانیت سے خالی انسان ہو۔ ہم اس کیفیات کا سامنا نہیں کر سکے یوں بغیر جانور خریدے گھر چلے آئے۔ حصہ ڈال کر عید تہوار میں شامل ہوئے ۔آخر ہم بھی پیدائشی مسلمان ہیں۔ عید پر دل رو رہا تھا، فضا سوگوار تھی۔لگتا ہے آج بھی ہم اس دور سے گزر رہے ہیں جب جہالت اپنے عروج پر تھی۔ابھی کل کی بات ہے کہا جاتا ہے کہ ایک وڈیرے نے اپنے مزاروں سے نجات کیلئے گاؤں پر حملہ کروا دیا تھا جس سے تمام مزارے گولیوں سے یہ کہہ کر بون ڈالے کہ یہ دہشت گرد تھے۔ایسا کرنے پر انہیں سرکاری داد بھی ملی ۔ جلد ہی کچھ عورتیں گاؤں سے نکل کر شہر پہنچی۔ واقعہ کی اصل کہانی سب کو بتائی جس پر میڈیا نے انکا بھرپور ساتھ دیا۔ سچ آخر سچ ہوتا مارے جانے والے یہ لوگ دہشت گرد نہیں تھے ۔ انھیں وڈیرے نے پیسے دے کر دہشت گرد بنا کر ماروا تھا۔پھر مقدمہ چلا اور مارنے والوں کو سزائے موت ہونی۔ لگتا یہی ہے کہ ہم اسلام سے پہلے والے دور میں ہی رہ رہے ہیں۔ اس اوٹنی کو نہیں معلوم تھا کہ ہزاروں سال قبل بھی ایک اوٹنی کو اس وقت کے سرداروں نے اذیت دے کر جان سے مار دیا تھا۔ لگتا ہے آج بھی وہ نسل زندہ ہے جو اپنے جیسے مسلمان بھائیوں کو مار رہی ہے۔ اوٹنی کی ٹانگ اور گدھی کے کاٹ رہی ہے۔ آج کوئی نبی نہیں موجود جو ہمیں عذاب کی نشانیاں بتاتا۔ یااللہ اس عذاب سے ہمیں بچانا۔ میں یہاں حضرت صالح علیہ السلام کے زمانے کی اوٹنی کا دردناک واقع بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ لگتا ہے اس دور اور اج کے دور میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سرداروں نے حضرت صالح سے کہا کہ ”اگر تم واقعی اللہ کے سچّے رسول ہو تو ہماری فلاں پہاڑی میںسے ایک ایسی اونٹنی نکال دو، جس کے پیٹ میں بچہ ہو اور قوی و تندرست ہو۔” قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ کہ معجزے کی فرمائش کردی۔ حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے عہد لیا کہ اگر میں تمہارا یہ مطالبہ پورا کردوں، تو پھر تو تم سب ایمان لے آؤ گے؟ جب سب نے عہد کرلیا، تو حضرت صالح علیہ السلام، اللہ کے حضور سربسجود ہوگئے، یہاں تک کہ اللہ نے اپنے نبی کی دعا قبول فرمائی۔ اچانک سامنے کی پہاڑی میں جنبش پیدا ہوئی، چٹان کے دو ٹکڑے ہوئے اور اس میں سے ایک خوب صورت، تندرست و توانا اونٹنی نمودار ہوئی۔بچہ دیا پوری قوم نے اس حیرت انگیز معجزے کو اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھا، لیکن قوم کے ایک سردار جند بن عمرو اور اس کے چند ساتھیوں کے علاوہ کوئی ایمان نہیں لایا۔اس موقع پر حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا۔ ”اے میری قوم یہ اللہ کی اونٹنی ہے، جو تمہارے لیے معجزہ ہے۔ اب تم اِسے اللہ کی زمین میں چھوڑ دو اور اسے کسی طرح کا ایذا نہ پہنچانا، ورنہ فوری عذاب تمہیں پکڑلے گا۔” (سورئہ ہود، آیت64) اونٹنی اور اس کا نومولود بچّہ سارا دن نخلستان میں چَرتے رہتے۔ قوم اس سے سیر ہوکر اونٹنی کا دودھ پیتی، لیکن وہ کم نہ ہوتا۔” قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ ”شہر میں نو افراد کی ایک جماعت تھی، جو ملک بھر میں فساد مچاتی وہ اصلاح نہیں کرتے تھے ۔ (سورئہ نمل، آیت 48) ناقہ اللہ کا قتل: پھر ایک دن ان شقی القلب 9افراد کی جماعت اونٹنی کے انتظار میں کنویں کے پاس گھات لگا کر بیٹھ گئی، حسبِ معمول اونٹنی پانی پینے کے لیے کنویں کے قریب آئی، تو مصرع نامی شخص نے کمان سیدھی کی اور اونٹنی پر تیر چلا دیا شدید زخمی اونٹنی لاچار ہوکر زمین پر گرپڑی۔گرتے گرتے اس نے ایک زوردار چیخ ماری تاکہ اس کا بچّہ محتاط ہوجائے۔ پھر ظالم قدار نے اونٹنی کے سینے پر نیزہ مارنے کے بعد آسے ذبح کر ڈالا۔ ادھر اس کا بچّہ بھاگتا ہوا اونچے پہاڑ پر چڑھا اور چیخیں مارتا ہوا غائب ہوگیا۔ اونٹنی کے قتل کے ارتکاب کے بعد قومِ ثمود کے ان نو افراد نے حضرت صالح علیہ السلام کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا اور اسی رات حضرت صالح علیہ السلام کی گزرگاہ کے ساتھ ایک پہاڑ کی گھاٹی میں چھپ کر بیٹھ گئے تاکہ حضرت صالح وہاں سے گزریں، تو انہیں قتل کردیں، لیکن اس رات پہاڑ سے بڑے بڑے پتھر اس طرح برسے کہ وہ سب کے سب ہلاک ہوگئے۔ دوسرے دن جب لوگوں کا گزر ہوا، تو دیکھا کہ وہ نو افراد بڑے بڑے پتھروں کے نیچے مرے پڑے ہیں۔ اس طرح وہ سفّاک لوگ اپنی قوم کے تباہ و برباد ہونے سے تین دن پہلے ہی جہنّم رسید ہوگئے۔ جب کوئی فوری عذاب نازل نہ ہوا، تو قوم نے خوشی کا جشن مناتے ہوئے کہا۔ ”صالح! جس چیز سے تم ہمیں ڈراتے تھے۔ اگر تم (اللہ کے) پیغمبر ہو، تو اس (عذاب) کو ہم پر لے آؤ۔” (سورہ الاعراف، آیت 77)۔ حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا۔ ”اے قوم اب تمہارے پاس صرف تین دن کی مہلت باقی ہے، اور عذاب کی علامات بھی تم سن لو۔ کل جمعرات کے روز تم سب کے چہرے سخت زرد ہوجائیں گے۔ پرسوں یعنی جمعہ کے روز تم سب کے چہرے سخت سرخ ہوجائیں گے اور ہفتہ کو سب کے چہرے سیاہ ہوجائیں گے۔اور وہ پھر تمہاری زندگی کا آخری دن ہوگا۔ ان تینوں پیش گوئیوں کے سچ ہونے کے باوجود وہ قوم چہروں کی رنگت کی تبدیلی کو معمولی جادوئی اثرات سمجھتے ہوئے معمول کے مطابق عیش و عشرت کے کاموں میں مصروف رہی، یہاں تک کہ چوتھے دن کی صبح اوپر سے سخت ہیبت ناک چنگھاڑ اور زمین کے شدید زلزلے نے ان سب کو آناً فاناً جہنم رسید کردیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی بستیوں کو آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کدہ بنادیا۔ (معارف القرآن 611/3)۔یہ تھا وہ واقع جس کے بعد امید تھی کہ قوم اس سے سبق سیکھیں گی جہالت کے اندھیروں سے نکلیں گی۔مگر کہاں اب سانگھڑ کی اونٹنی کے بعد راولپنڈی کی گدھی کے کان کاٹنے کا واقعہ کی بھی بازگشت جاری ہے۔ روز ڈکیت بندے مار رہے ہیں۔ادھر فیصل آباد میں یہودیوں کی مشروبات سے بھری گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا۔ ڈرائیور گاڑی چھوڑ کر بھاگ گیا۔ پانچ منٹ میں عوام نے کولڈ ڈرنک کو لوٹ کر گھروں کو لے گئے۔ جب کہ ہم سب نے اسرائیل کے فلسطین پر مظالم کی وجہ سے ان کی مشروبات کا بائکاٹ کر رکھا ہے۔اسلام اورمسلمان نام کی کوئی چیز نہیں۔ جبکہ انسان ہونا ہی کافی نہیں ہوتا انسان میں انسانیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ جوکہ یہاں نا پید ہے۔ان واقعات کو دیکھ کر کہا جا رہا ہے کہ ہمارا ملک سب سے بڑا غیر اسلامی، غیر قانونی، غیر آئینی،غیر انسانی غیر اخلاقی ملک ہے۔آؤ ہم اپنے اپ کی ہی اصلاح کر لیں!!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button