چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی دوران سماعت لیک ہونے والی مبینہ آڈیو کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ عمران خان کی آڈیو سپریم کورٹ سے لیک نہیں ہوئی۔
اسلام آباد میں پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کی تقریب میں چیف جسٹس نے صدر میاں عقیل افضل، جنرل سیکریٹری عمران وسیم، نائب صدر غلام نبی یوسفزئی، فنانس سیکریٹری راجہ بشارت جبکہ ارکان اکرام اللہ جوئیہ، آسیہ کوثر اور میاں عابد نثار نے بھی حلف لیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی رپورٹنگ بہت مشکل کام ہے، بعض اوقات عدالتی رپورٹنگ میں ایسا ایسا ماضی کا پس منظر بیان کیا جاتا ہے جو ہم بھول چکے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں بھی بہت سال پہلے لکھا کرتا تھا، میری والدہ سیدہ قاضی عیسی بھی آرٹیکل لکھتی رہی ہیں، اس زمانے میں بہت تحقیق کے بعد لکھا جاتا تھا لیکن آج کل کا زمانہ بہت آسان ہو گیا ہے، اس دور میں بات کہنا اور لکھنا آسان ہو گیا ہے، فون اٹھا اور جو کہنا ہے کہہ دو۔
انہوں نے مزید کہا کہ اچھا لکھنے کے لیے پڑھنا بھی ضروری ہے اور ایک کتاب کے مطابق اچھی تحریر کے لیے ٹھنڈی آنکھ اور کھلا دل ہونا چاہیے، میں نے سب سے پہلے میڈیا قوانین مرتب کر کے اسے کتاب کی شکل میں شائع کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کیس کے فیصلے میں 627 پیرا گراف لکھے اور سپریم کورٹ نے بھٹو کیس میں 963 پیرا گراف لکھے، فوجداری مقدمات میں اتنا طویل فیصلہ شاید اور کوئی موجود نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس کا فیصلہ ہو چکا ہے، اس لیے اس پر اب رائے دی جا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے انکوائری کروائی ہے جس میں پتا چلا کہ سپریم کورٹ سے بانی پی ٹی آئی کی آڈیو لیک نہیں ہوئی، آئی ٹی اسٹاف نے بتایا کہ آڈیو کے اندر آنے والی کچھ آوازیں عدالت سے نہیں ہو سکتیں۔
تقریب سے جسٹس اطہر من اللہ نے بھی خطاب کیا اور آڈیو لیک کے معاملے کو غیر اہم قرار دے دیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر آڈیو لیک ہوئی تو اس میں برائی کیا ہے؟ یہ ایک کھلی سماعت میں ہوئی گفتگو تھی۔
تقریب میں جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان اور اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان بھی شریک تھے۔
0 61 2 minutes read