کالم

سرحدوں کے محافظ اور مشرقی پاکستان

آئن ٹالبوٹ نے اپنی کتاب "Pakistan A Modern Historyمیں واضح لکھا کہ 1962 میں شیخ مجیب بھارت کے ساتھ خفیہ طور پر رابطوں میں ملوث تھا اور یہ خفیہ رابطے 1965تک چلتے رہے تھے اور شیخ مجیب کی پارٹی عوامی لیگ کے رہنمائوں کے رابطے بھی بھارتی سرکردہ لوگوں سے تھے۔ وطن عزیز میں ان دنوں مشرقی پاکستان اور کچھ پرانے تذکروں کو مفادات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور سیاسی پارٹیاں اپنے مفادات کے لیے افواج پاکستان پر کیچڑ اچھال رہی ہیں سوشل میڈیا پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت یہ مہم چلائی جاتی ہے کہ مشرقی پاکستان میں یہ ہوا ،وہ ہوا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔مگر حقیقت کو بیان بھی نہیں کیا جاتا اور مفادات کے حصول کے لیے کسی بھی حد کو بھی چلے جاتے ہیں اپنے وطن کے اپنے ہی باسی۔۔
صورتحال کچھ یوں ہے کہ کہا جاتا ہے کہ شیخ مجیب کو اقتدار دینے سے سسٹم انکاری ہو گیا تھامگر صورتحال اس کے برعکس ہے اور تاریخ کے اس سیاہ اوراق میں کالی سیاہی کو کالک بنا دیا گیا ہے جو ہر کوئی چاہتا ہے کہ اپنے چہرے پر یہ کالک ملے ۔کیوں کہ آج کل یہ آسان اور عام فہم معاملہ سمجھا جاتا ہے کہ اپنی ہی افواج کی قربانیوں کو پس پشت ڈال کر فوج پر طعنہ زنی کی جائے۔کہا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان میںموجودہ پاکستان کی طرف سے زیادتیاں کی گئیں تھیں جن کی بدولت مشرقی پاکستان الگ ہو گیا اور بنگلہ دیش بن گیا۔
یہ بات اب نصاب کاحصہ بنا دینی چائیئیے تاکہ تعلیمی درسگاہوں میں اس غلط اور من گھڑت بات کی حقیقت سے نئی نسل کو روشناس کر ایا جائے اور حقیقت سے پردہ اٹھایا جائے کہ اس وقت بھی شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار ِانتقال میں تاخیرضرور ہوئی مگر انکارنہیں کیا گیا تھا۔اسی تاخیر کی وجہ سے جو معاملات درپیش ہوئے اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ وہ مشرقی پاکستان کے لیے راہ ہموار کر گیا مگر اس اہم نقطے پر بحث مباحثے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لینی چائیئے عوامی لیگ کے سرکردہ رہنمائوں کے بھارت سے پہلے سے خفیہ رابطے بھی تھے ۔وہ کس بنا پر تھے کس کی ایماء پر تھے ؟ان کے پیچھے کیا ایجنڈاکارفرما تھا؟مگر کوئی اس حقیقت کو بیان نہیں کرتا اور اپنے ہی ملک کی افواج پر طعنہ زنی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔۔۔
اپنی افواج اور ہر وقت اپنے ملک کوسنے والوں کے لیے ایک اہم اطلاع یہ بھی ہے کہ شیخ مجیب الرحمن صاحب کی پارٹی عوامی لیگ تھی اور مغربی پاکستان سے عوامی لیگ کو ایک سیٹ بھی نہیں حاصل ہو پائی تھی۔۔ملکی تاریخ کی یہ پہلے انتخابات تھے اس کے نتیجے میں جو پارلیمان وجود میں آنا تھی اسی نے ملکی آئین بھی بنانا تھاپھر ان انتخابات میں جو معاملہ پیچیدگی بنا رہا تھا وہ یہ شیخ مجیب کاانتخابی منشور تھا جس سے بظاہر لگ رہا تھا کہ مشرقی پاکستان والے معاملے یعنی پاکستان کو دولخت کرنے کے لیے دشمن کے ساتھ مل کر باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی ہے۔اِ ن دنوں ایوب خان نے اعلی ٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا اور کھلے دل سے پھر دوستی کا ہاتھ آگے بڑھایا اور غداری کے شواہد کے باوجود شیخ مجیب کو مدعو کیا مگر شیخ مجیب نے اپنے ان ہی چھ نکات پر زور دیا جو چھ نکات منشور کا حصہ تھے اور آپس میں دوریاں بڑھا رہے تھے ایوب خان کے مدعو کرنے کے باوجود شیخ مجیب الرحمن واک آئوٹ کر گئے ۔۔اس سے یہ بات قوی طور پر مزید تقویت پکڑ گئی کہ وہ مفاہمت چاہتے ہی نہیں تھے وہ مفارقت چاہتے تھے اور پاکستان کو توڑنا چاہتے تھے۔۔
اب جبکہ ہر وقت شور و غل کیاجاتا ہے اور مشرقی پاکستان والوں کو مظلوم بنا کر پاکستان کو دولخت کرنے والوں کے لیے ہمدردی کا جو راگ الاپا جاتا ہے اس میں چند من گھڑت باتوں کو سامنے رکھا جاتا ہے اور باقی حقیقت پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے تو معاملات اتنے سنگین ہوئے کیسے؟وہ چھ نکات تھے کیا ان پر سے اب حقیقت سے پردہ اٹھادینا چائیے۔
وفاقی حکومت کا دائرہ اختیارمحدود رکھنے کو کہا جارہا تھا کہ وفاقی حکومت کے پاس صرف خارجہ اور دفاع کے امور ہوں گے مطلب جان بوجھ کر وفاق کو بھی اپنے زیرِ سایہ رکھنے کا پلان تھا۔اور انتہائی اہم نقطہ کہ مشرقی پاکستان کی کرنسی ہی الگ ہو گی جبکہ مغربی پاکستان کی کرنسی الگ ہو گی۔پھر اپنے آپ کو سب سے اوپر رکھنے کے لیے یہ بھی نقطہ شامل کیا گیا کہ مشرقی پاکستان وفاق کی پالیسیوں پر نہیں چلے گا۔۔اب کو ئی بھی محب وطن شعور رکھنے والا یہ سمجھ جائے گاکہ معاملات کس سمت لے جائے جارہے تھے ۔پھر نظام زر سے متعلق پالیسی بھی مشرقی پاکستان اپنی الگ بنائے گا اور مغربی پاکستان کی یہ پالیسی بھی نہیں تسلیم کی جائے گی۔وفاق کو ٹیکس اکٹھاکرنے کا اختیار بھی نہیں ہو گا اور مشرقی پاکستان اپنا الگ ریونیو اکٹھا کرے گا۔یہاں تک یہ بھی کہا کہ مشرقی پاکستان دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے بھی بااختیار ہو گا۔۔اور یہ بھی کہا گیا کہ مشرقی پاکستان کی الگ فوج ہو گی اور مغربی پاکستان کی الگ۔۔۔۔
اب آپ فیصلہ کیجئے کہ ان نکات پر عمل ہو جاتا کو مشرقی تو کیا مغربی پاکستان سے ٹوٹ جاتا اور دشمن اس ملک کے چپے چپے پر قابض ہو جاتا اب کیا ہم یہ بھیانک غلطی تو نہیں کر رہے کہ دشمن کے ایجنڈے کو ہوا دینے کے لیے اپنی ہی افواج پر الزامات لگاتے رہتے ہیں اور حقیقت نا اپنے اوپر کھولنا چاہتے ہیں نا کسی اور کو حقیقت بتانا چاہتے ہیں مگر اس بات کو ذہن نشین کر لینا چائیئے کہ سرحدوں کے محافظ ملکی سلامتی کے لیے دن رات کیسے ہمارے آرام و سکون کے لیے اپنا آرام و سکون برباد کیے ہوئے ہیں اور کیسے ہم ان کی وجہ سے پرسکون زندگی گزار رہے ہیں ۔سرحدوں کے محافظوں ملکی سلامتی کے ضامنوں کے لیے اگر ہم چار لفظ اچھے نہیں بول سکتے تو کم از کم ہم ان پر کیچڑاچھالنے سے بھی گریزکریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button